• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

اب فاٹا کو پاکستان میں شامل کرنے کا وقت ہے

شائع November 23, 2014
ایک پاکستانی سپاہی فاٹا میں راکٹ لانچر کے ساتھ پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے — فوٹو رائٹرز
ایک پاکستانی سپاہی فاٹا میں راکٹ لانچر کے ساتھ پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے — فوٹو رائٹرز

1990 کی دہائی کا ایک پنجابی لطیفہ نواز شریف کی موجودہ صورتحال کو بہت بہتر انداز میں بیان کرتا ہے۔

نواز اپنے والد کے پاس بات کرنے کے لیے جاتے ہیں۔

نواز: ابو جی، اگر سب حالات بگڑنے لگیں، تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

ابو: امریکہ پر حملہ۔

نواز: (پریشانی کے عالم میں) مگر کیوں؟

ابو: وہ پہلے تمہیں مار مار کر سبق سکھائیں گے، لیکن پھر جاپان اور جرمنی کی طرح تمہیں ایک عالمی طاقت بنا کر کھڑا کردیں گے۔

نواز نے ایک لمحے سوچنے کے بعد کہا، 'لیکن ابو جی، اگر ہم جیت گئے تو؟'۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی موجودہ صورتحال کچھ ایسی ہی ہے، وزیر اعظم کا سب سے برا خواب اب سچ ثابت ہونے لگا ہے۔

قبائلی علاقوں میں ان کے جنرلوں نے طالبان کے انفراسٹرکچر کو کامیابی سے تباہ کردیا ہے، اور اب وہ وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری، اور فاٹا کے متعلق قانون سازی کب کرتے ہیں۔ جب تک سویلین حکومت قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے لیے نئے قوانین نہیں بنائے گی، فوجی انخلا اور علاقے کے کنٹرول کو مقامی لوگوں کے حوالے کرنے کے لیے اقدامات نہیں کرے گی، تب تک ملک کا پورا سول-ملٹری توازن خطرے میں رہے گا۔

29 اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر عاصم باجوہ نے کہا کہ مقامی قبائل لوگ بھی اب دہشتگردوں سے تنگ آچکے ہیں۔

قبائلی علاقوں کے غریب رہائشیوں کا انتظار ایک اور سانحہ کر رہا ہے۔ کہیں ایسا نا ہو کہ اب کی بار طالبان سے بھی زیادہ سخت گیر عناصر جنم لیں۔

قبائلی علاقے، جن میں سات ایجنسیاں اور 9 سرحدی علاقے شامل ہیں، فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) کے زیرِ انتظام ہیں۔ یہ 1901 میں اس وقت کے گورنر جنرل آف انڈیا، لارڈ کرزن کے ایک ایکٹ کے تحت وجود میں آئے۔ رنجیت سنگھ کے پنجاب کو تقسیم کر کے صوبہ سرحد (NWFP) بنایا گیا، جس کی باؤنڈری دریائے سندھ کو قرار دیا گیا۔

1878 میں دوسری افغان مہم کی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد 1891 میں جو پلاننگ شروع ہوئی، یہ اس کا نتیجہ تھا۔ کرزن جو کہ سالسبری کی کابینہ میں ہندوستان کے لیے انڈر سیکریٹری تھے، نے بھی افغانستان میں مزید کسی مداخلت سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں ایک چھوٹی فوج تباہ ہوجائے گی، جبکہ ایک بڑی فوج بھوک کا شکار ہوجائے گی۔

اس سے پہلے 1893 میں سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے انڈیا نے سر مارٹیمر ڈیورنڈ کو ہندوستان اور افغانستان کے بیچ میں عالمی سرحد کی نشاندہی کرنے کے لیے مقرر کیا تھا، جسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ اس کا مقصد تھا کہ مغرب میں ایک محفوظ اور قابلِ دفاع سرحد کو یقینی بنایا جائے۔

ڈیورنڈ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اونچی گھاٹیاں بھی اس میں شامل کی جائیں، اور پہاڑی راستوں اور دروں کا دفاع کیا جائے۔ نتیجے میں 1600 میل طویل سرحد وجود میں آئی جس پر کابل میں ڈیورنڈ اور اس وقت کے افغان امیر عبدالرحمان خان نے دستخط کیے۔

قبائلی علاقے 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ بنے، اس وجہ سے کیونکہ یہ جغرافیے کا معاملہ تھا، نا کہ کسی علاقے کو فتح کرنے کا۔ لیکن اس خطے کی اسی جغرافیائی خصوصیت کی وجہ سے یہ تقریباً ناقابلِ فتح ہیں، جبکہ مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے اسے کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔

ایف سی آر قوانین کے تحت قبائل اپنی اپنی ایجنسیوں کو اپنے جرگوں اور قبائلی قوانین کے تحت چلانے میں آزاد ہیں، جبکہ علاقے میں حکومت کا نمائندہ پولیٹیکل ایجنٹ اپنے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹس کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ کچھ ترامیم کو چھوڑ کر، جو 2011 میں کی گئیں، ریاستِ پاکستان اور اس کی کورٹوں کے فیصلے ان علاقوں پر نافذ نہیں ہوتے۔

قبائلی تنازعات کو جرگوں کے ذریعے حل کیا جاتا، اور ریاست کے خلاف کسی جرم کی صورت میں جب مجرم کو سرداروں کی جانب سے وفاقی حکومت کے حوالے نا کیا جاتا، تو پورے قبیلے پر جرمانے عائد کیے جاتے اور جائیداد ضبط کی جاتیں۔ اس کے علاوہ رہائشیوں کو بغیر جرم بتائے گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا۔

فرنٹیئر کانسٹیبلری قبائلی اور شہری علاقوں کے درمیان ایک بارڈر پروٹیکشن فورس کی طرح تھی۔ اس کے علاوہ فرنٹیئر کور کو سرحدی گشت اور مقامی طور پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم قبائل کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ خود پر حکومت کریں، لیکن اس کے لیے قبائلی سرداروں کی وفاداری اور مخبروں کی جانب سے اکٹھی کی گئی انٹیلی جنس معلومات کا ہونا ضروری ہے۔

جنوری 1990 میں میرا پالا ایف سی آر سے پڑا، جب مجھے چارسدہ سے اغوا کر لیا گیا تھا، اور 10 دنوں کے لیے مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں میں قید رکھا گیا۔

تب سے لے کر اب تک شہباز تاثیر، علی حیدر گیلانی اور کئی دیگر لوگ اغوا ہوچکے ہیں لیکن میں خوش قسمت تھا کہ پولیس اور باجوڑ اور مہمند کے پولیٹیکل ایجنٹس کی جانب سے ایف سی آر کی مدد سے مجھے چھڑوا لیا گیا۔

ایف سی آر کے ساتھ سینکڑوں مسائل ہوسکتے ہیں لیکن میں اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہوں کہ 90 کی دہائی میں یہ قوانین کام کرتے تھے، اور حکومت کا ایجنسیوں پر کافی کنٹرول تھا۔ لیکن 11 ستمبر کے بعد مسلح طالبان کی آمد کے بعد 400 سرداروں کو قتل، جبکہ باقی کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا، جس کی وجہ سے پورا قبائلی علاقہ طالبان کے رحم و کرم پر رہ گیا۔ سردار کو پکڑ لو اور علاقے پر قبضہ کر لو، یہی طالبان کا فارمولہ رہا۔

اب بھلے ہی آپریشن ضربِ عضب اور دیگر آپریشنز کی وجہ سے طالبان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں لیکن سرداروں اور قبائلی نظام میں بھی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اس علاقے میں ایک خلا موجود ہے۔ جو بھی سردار اور ملیشیائیں موجود ہیں، وہ اتنی کمزور ہیں کہ طالبان کی کسی دراندازی کا مقابلہ نہیں کرسکتیںم جبکہ زمانہ قدیم کے ایف سی آر بھی اب بے اثر ہوچکے ہیں۔

اب ایک سنہرا موقع ہے کہ اس پرانے سسٹم کو مکمل طور پر ختم کر کے نئے قوانین بنائے جائیں، جو کہ لاکھوں قبائلی رہائشیوں کو پاکستان میں ضم ہونے کا موقع دیں۔

اگر یہ کام نہیں کیا گیا، تو موجودہ ملٹری آپریشن کے تمام فوائد، اور ضائع ہونے والی تمام جانیں بے سود رہیں گی، جبکہ مغربی سرحد پر ایک اور خطرہ جنم لے گا۔

ملٹری اکیڈمی میں جنرل راحیل شریف کا حالیہ بیان کافی سبق آموز ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے اپنا ٹاسک کافی حد تک مکمل کر لیا ہے، اور وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔ اس سے حکومت کو تقریباً مشورہ دیا گیا ہے کہ اسے اب اپنا قانون سازی کا ٹاسک سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

حکومت کو چاہیے کہ اب ایف سی آر کو ایک ایسے قانونی فریم ورک سے تبدیل کر دے تاکہ قبائلی علاقوں میں ایک شفاف حکومت قائم کی جاسکے، طاقت کو سویلینز کے حوالے کیا جاسکے، اور ان علاقوں کو پاکستان میں شامل کیا جاسکے۔

ایسا کرنے میں ناکامی سے فوجی سربراہان اور سویلین قیادت میں اعتماد کی مزید کمی واقع ہوگی، جس کا یہ ملک اس مرحلے پر متحمل نہیں ہوسکتا۔

جنگ سے ہونے والی تباہی بھلے ہی بہت زیادہ ہے، لیکن اس نے اصلاحات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔

اگر ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا کر قبائلی علاقوں کو پاکستان میں شامل کرلیتے ہیں تو مشکلات کا شکار یہ علاقہ ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس لکھاری اور دیگر لوگوں کے برے تجربے پھر صرف ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔

لیکن نہاریوں، کنٹینروں، اور کامن سینس پر ڈی جیز کی حکمرانی کے باعث کہیں یہ خواب ہی نہ رہ جائے۔

کاش خواہشیں آسانی سے پوری ہوسکتیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


عبّاس حسن

لکھاری سول انجینیئر ہیں، اور کرکٹ سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان سے ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ ٹوئٹر پر A3bbashasan@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024