فیصل ظفر اور سعدیہ امین
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا اور اس شوق کو فروغ دینے میں آپ کے ابتدائی استاد مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔
لاہور کے بازار حکیماں کے ایک مشاعرے میں انہی دنوں اقبال نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ تھا۔
اس شعر کا سننا تھا کہ محفل مشاعرہ میں موجود افراد پھڑک اٹھے اور مرزا ارشد گورگانی نے اسی وقت پیشگوئی کی کہ اقبال مستقبل کے عظیم شعراء میں سے ہوگا۔
انہی دنوں انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی توجہ دی، ایک ادبی مجلس میں انہوں نے اپنی اولین نظم ”ہمالہ“ سنائی تو اسے بہت پسند کیا گیا اور ان کی شہرت پھیلنا شروع ہوگئی۔
اس زمانے میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلا مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا۔ کبھی بچے کی دعا کہہ گئے، جو ہر اسکول کے بچے کی زبان پر ہے۔
لاہور اورینٹل کالج میں 1893 سے لے کر 1897 تک سرایڈون آرنلڈ کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے کے دوران اقبال نے پہلی مرتبہ جدید فکر کا مطالعہ کیا تھا۔ 1899 میں یہاں سے ایم ۔ اے فلسفہ کیا، ساتھ ہی عربی شاعری پڑھانا شروع کی اور معاشرتی و معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔
یونیورسٹی آف کیمبرج سے لاء کرنے کے لئے اقبال نے 1905 میں ہندوستان چھوڑا لیکن یہ فلسفہ ہی تھا جس نے ان کی سوچ پر غلبہ کر لیا ۔ٹرینٹی کالج میں ہیگل اور کانٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ یورپی فلسفہ کے بنیادی رجحانات سے واقف ہوگئے۔ فلسفہ میں دلچسپی نے انہیں1907 میں ہائیڈ لبرگ اور میونح پہنچایا جہاں نطشے نے ان پر گہرے اثرات مرتب کئے، خود ان کے الفاظ میں:
یہی وہ دور ہے جب ان کا زاویۂ نگاہ تبدیل ہوا اور ان کی شاعری میں پیغامیہ رنگ دیکھنے میں آتا ہے۔ مغربی تہذیب بیزاری کا اظہار واشگاف الفاظ میں کرتے ہیں۔
مغربی معاشرے پر کچھ ایسے بھی روشنی ڈالی۔
اقبال نے وہیں ایران میں روحانی ترقی کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک برس بعد 1908 میں انہیں انگلستان میں لنکن اِن کے مقام پر بار میں آنے کی دعوت دی گئی۔ اس برس وہ وکیل اور فلسفی بن کر ہندوستان واپس آئے، واپسی کے بعد جلد ہی وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے تاہم انہیں ہندوستانیوں کے احساسِ غلامی کا احساس بہت زیادہ تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے برطانوی راج کے محکوم ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو عیاں کرنے میں گہری دلچسپی لی، یورپ روانگی سے قبل اقبال ایک آزاد خیال قوم پرست اور انڈین نیشنل کانگریس کے ہمدرد تھے تاہم 1911 میں تنسیخ تقسیم بنگال ہوگئی۔ پھر ان کا رجحان شاعری میں ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے، جیسے ان کا یہ ترانہ ملاحظہ فرمائیں۔
اب وہ اپنے نکتۂ نظر میں مسلمانوں کی علیحدگی پسندی اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کرنیوالے علیحدگی پسند بن گئے تھے، 1922 میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا تاہم اسی دور میں علامہ اقبال کا شکوہ مسلمانوں کے دل کی پکار ثابت ہوا۔
شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں، معترضین کو لاجواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
چار سال بعد، 1926 میں اقبال پنجاب مجلس قانون ساز میں منتحب ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ سے نزدیک تر ہو گئے۔ انہوں نے آزادی کے بعد ہندو حکومت کو تسلیم کرنے کی بجائے ایک علیحدہ مسلمان وطن کے لئے زیادہ سے زیادہ حمایت کا اظہار کیا، صرف قوم کو نیند سے اٹھانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے لئے دعائیہ الفاظ کا سہارا بھی لیا۔
در حقیقت شمال مغربی ہندوستان میں مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ مسلمان وطن بنانے کا تصور سب سے پہلے اقبال نے ہی 1930 میں پیش کیا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ سب سے پہلے ایک فکری قوت تھے اور مسلمان ثقافتی زندگی میں ان کا مقام اسی حوالے سے ہے کیونکہ وہ ملت اسلامیہ میں ایک نئی امید پیدا کرنا چاہتے تھے۔
دینیات تصوف مشرقی و مغربی فلسفہ اور انسانیت کے مقدر کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کے لئے فارسی اردو شاعری کے رمزیہ اور نازک انداز کو استعمال کرنے میں اقبال کو اپنے ہم عصر مسلمان فلسفیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ وسعت میں آر پار جانے میں یہ اقبال کی اہلیت ہے جو فلسفہ کو سماجی ثقافتی مسائل سے جدا کرتی ہے اور جس نے انہیں ایک فلسفی اور ثقافتی ہیرو بنایا۔
پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938 کو علامہ اقبال انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی، علامہ صاحب بہت بڑی بات انتہائی آسانی سے کہہ جاتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانانِ عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیرِ مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں، علامہ اقبال انسانی خودی کے قائل تھے جب ہی وہ کئی جگہ کہتے ہیں۔
خودی ہی وہ عنصر ہے جو انسانوں کو اسرار شہنشاہی سکھاتی ہے، علامہ اقبال کہتے ہیں۔
اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور اس دور میں مسلم امہ میں موجود مایوسی کے باوجود وہ روشن مستقبل کی توقعات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے تھے۔
تبصرے (26) بند ہیں