توہین رسالت کون کر رہا ہے؟
پاکستان میں توہین رسالت یا توہین قران ایک ایسا ہتھیار ثابت ہو رہا ہے جسے جائز یا ناجائز استعمال کر کے ہیرو بننا کوئی مشکل کام نہیں۔ توہین کا الزام لگا کر کسی کو بھٹی میں ڈال کر جلا دینا، سنگسار کر دینا یا اسی کے گھر میں پورے خاندان کو زندہ جلا دینا قدرے آسان کام ہے۔ ہجوم کی ساتھ مل کر کی جانے والی اس بزدلانہ اور گھناؤنی حرکت کو بڑا جرات مندانہ قدم سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں توہین رسالت یا توہین قران کا الزام لگا کر قتل کرنے کے کیسز میں اکثریت ان کی ہے کہ جن کے پیچھے ذاتی دشمنی کارفرما ہوتی نظر آئی ہے یا لین دین کا تنازع۔ حاصل مطلب یہ کہ اقلیتی برادری کا کوئی فرد اپنا حق مانگنے کی جرات نہ کرے، ورنہ اپنی جان سے ہاتھ دھونے کو تیار رہے۔
پنجاب میں blasphemy کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں جن میں اکثریت ذاتی دشمنی، لین دین کے تنازعے اور پیار محبت کے ذاتی معاملے ہیں جنہیں مذہبی رنگ دے کر اپنے نفس کی آگ کو ٹھنڈا کیا گیا۔ اصل توہین مذہب تو اپنے ذاتی جھگڑے بھگتانے کے لیے مذہب کا استعمال کرنا ہے۔ لیکن اس پر کوئی مولوی، کوئی جید عالم صاحب، کوئی مفتی، کوئی شیخ یا دیگر بڑی بڑی پگڑیوں والے بات کرنے کو یا فتویٰ لگانے کو تیار نہیں۔
2009 میں مرید کے میں قرآن پاک کی مبینہ طور پر بے حرمتی کا الزام لگا کر دو افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ 15 ستمبر 2009 کو سیالکوٹ کے نواحی قصبے میں ایک مسیحی نوجوان پر الزام لگایا گیا کہ اس نے ایک مسلمان لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کی اور اس دوران اس کے ہاتھ سے قرآن کا ایک سپارہ زمین پر گر گیا۔ بعد میں مشتعل ہجوم نے مذکورہ قصبے میں ایک گرجا گھر کو جلا دیا، جبکہ جس لڑکے پر الزام لگایا گیا تھا وہ اگلے روز جیل میں مردہ پایا گیا۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت قتل ہونے والوں کی تعداد دنیا میں تمام مسلم ممالک سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ہونے والے اقلیت مخالف فسادات اور واقعات میں قتل و غارت گری میں شامل لوگوں کی اکثریت عام افراد پر مشتمل رہی ہے۔ ایسے واقعات میں نوعمر طالب علم، عام مزدور، کسان اور عام پیشوں سے تعلق رکھنے والے بھی شامل رہے ہیں، جنہیں یقین ہوتا ہے کہ غیر مسلموں اور بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو جان سے مار دینا اور ان کی املاک کو لوٹ لینا ثواب ہے۔ یہ تعلیمات ہمارے معاشرے سے ہی ملی ہیں جس میں ہر دوسرے شخص سے بغض یا نفرت عام شے ہے۔
پڑھیے: گجرات: توہینِ صحابہ پر ملزم دوران حراست قتل
ہفت روزہ آج کل لاہور کی ستمبر 1996 کی رپورٹ 'اسلم مسیح توہینِ رسالت کیس' کے مطابق فیصل آباد کی تحصیل سمندری میں ایک معروف متشدد اور فرقہ پرست تنظیم کے سربراہ کے بھائی نے ایک مقامی خاکروب اسلم مسیح پر 'توہینِ رسالت' کا الزام محض اس لیے لگایا کہ اسلم مسیح نے مولانا کے ہاتھ ایک بھینس فروخت کی تھی لیکن مولانا حسب وعدہ طے شدہ رقم دینے میں تعامل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
ایک دن جب اسلم مسیح مولانا کے ہاں حاضر ہوا تو مولانا نے کچھ لوگوں کی موجودگی میں رسول پاک کا نام لے کر قسم کھائی کہ وہ فلاں تاریخ کو اسے ادائیگی کر دے گا۔ اسلم مسیح حسب وعدہ جب مولانا کے گھر حاضر ہوئے تو اسے پھر اگلی کسی تاریخ پر ٹال دیا گیا۔ اس موقع پر اسلم مسیح نے مولانا سے یہ کہا کہ آپ نے اپنے رسول پاک کا نام لے کر قسم کھائی لہٰذا قسم کا پاس کرتے ہوئے مجھے میری رقم دے دیں۔ اگر میں حضرت عیسیٰ کا نام لے کر وعدہ کرتا تو پھر اس وعدے کو ہر صورت پورا کرتا۔
بس اسلم مسیح کا یہ کہنا تھا کہ مولانا کو دین یاد آ گیا اور انہوں نے شور برپا کر دیا کہ اسلم مسیح نے توہین رسالت کی ہے۔
پھر کیا، ایک بپھرا ہوا ہجوم سرگرم ہو گیا اور اس نے اسلم مسیح کے گھر پر حملہ کر دیا، اس کے بوڑھے ماں باپ کو تشدد کا نشانہ بنا گیا اور اسلم مسیح پر توہین رسالت کا مقدمہ 295C درج کر دیا گیا، مگر کسی نے واقعے کی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی۔
فیصلہ کیجیے کہ رسول پاک کی شان میں گستاخی اسلم مسیح نے کی یا مولانا صاحب نے؟ ہمارے معاشرے میں اس وقت 'الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے' والا ہی حساب جاری ہے، جس کے تحت اپنا حق مانگنے والے کو گستاخ قرار دے کر اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا نہایت آسان کام بن چکا ہے۔
جون 2009 کی 'پنجاب میں فرقہ وارانہ جنگ' پر جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق نومبر 2005 میں فیصل آباد کے نواہی قصبے 'سانگلہ ہل' میں یوسف مسیح نامی شخص نے دو مسلمانوں سے جوئے کی بھاری رقم جیت لی۔ اگلے روز ایک ہارا جواری قرآن پاک کا ایک خستہ حال نسخہ لے کر مقامی جلد ساز کے پاس گیا اور کہا کہ یوسف مسیح نے اس کی بے حرمتی کی ہے۔ فوری طور پر مقامی مسجد میں اعلان ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد نے ایک درجن گھر، 5 گرجے، 3 اسکول، ایک کانوینٹ اسکول اور ایک ڈسپنسری تباہ کر دی۔ تین ماہ بعد انسداد دہشتگردی کی عدالت نے جرم ثابت نہ ہونے پر یوسف مسیح کو بری کردیا۔
یوسف مسیح تو بری ہو گیا مگر املاک کو نقصان پنہچانے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں اور ایک افواہ پر کروڑوں کا نقصان کرنا ہمارے معاشرے میں کوئی بڑی بات نہیں۔
مزید پڑھیے: لفظ 'مہاجر' کوگالی قرار دینے پر خورشید شاہ کو توہین کا نوٹس
اس کے علاوہ کئی واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں کہ جس کے بعد ملزم کا مقدمہ لڑنے والے وکیلوں کو بھی سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی جاتی ہے۔ کئی ایک پر قاتلانہ حملے اور کچھ وکیل حضرات ایسے کیسز لڑنے کی وجہ سے جان سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔
ہمارے ملک میں جن افراد پر توہین کا الزام لگایا جائے اس کی مدد کرنے کو بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے اور اس جرم کی پاداش میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی قتل کیا جا چکا ہے اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ قاتل کو پھولوں کی مالائیں پہنائی گئیں اور پتیاں نچھاور کی گئیں۔
ہمارے ملک میں اس قسم کے لاتعداد واقعات رونما ہوچکے ہیں، اور تمام کے ذکر کا یہ بلاگ متحمل نہیں ہوسکتا۔ اوپر لکھے گئے چند واقعات بیان کرنے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اصل میں مذہب کی توہین کون کررہا ہے اور کون اپنے پاس موجود سرٹیفکیٹ کا غلط استعمال کررہا ہے۔
پاکستان میں توہین کے الزام سچ یا جھوٹ ثابت ہونے سے پہلے ہی ایک مشتعل ہجوم عدالتیں قائم کر لیتا ہے اور سزا سنا دیتا ہے۔ ایسے معاملات میں قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ ہجوم کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ تقریباً تمام ہی کیسز میں پولیس یا تو دور کھڑی تماشہ دیکھتی رہی ہے، یا اسے بھی ہجوم سے اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا ہے۔
چند روز پہلے بھی کوٹ رادھا کشن میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہے جس کے حوالے سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہے ان کے مطابق لین دین کے تنازعے نے تین معصوم جانیں نگل لیں۔
مزید پڑھیے: کیا یہ توہین مذہب نہیں؟
ہمارے تھانے بھی کسی قدر پیچھے نہیں ہیں گجرات میں بھی تھانے میں بند ایک شخص پر توہین کا الزام لگا کر اسے اے ایس آئی فراز نوید صاحب نے کلہاڑیوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔
ان واقعات کی روک تھام کے لیے صرف امداد اور نوٹس لینا ہی کافی نہیں ہوگا۔ ریاست کو ایک فرقے اور مذہب کی نمائندگی کے بجائے آزاد رہ کر سخت پالیسی بنانی ہو گی اور ساتھ ساتھ دین کے علمبردار حضرات کو بھی نفرتوں کے بجائے محبت کا درس دینا ہوگا اور قانون کی بالادستی کے لیے اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ اگر رحمت للعالمین ﷺ کے نام پر اسی طرح بے گناہ لوگوں کی جانیں لی جاتی رہیں، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ روزِ محشر ہمیں بھی توہینِ رسالت کا مجرم ٹھہرایا جائے۔
تبصرے (1) بند ہیں