انڈیا پاکستان امن کا وژن
کیا نریندر مودی کی جنگ پر آمادگی اور پاکستان کے خلاف طاقت کا غیرمتوازن استعمال جواب ہے یا اسٹریٹجی؟ یا یہ ہندوتوا کی ایک نئی شکل ہے، جو کہ اپنے مبینہ سیکولر رویے سے ہٹ کر ایک مین اسٹریم نظریہ میں تبدیل ہوچکی ہے جو کہ ایک قومی ایجنڈے کی تشکیل کر رہا ہے؟ کیا مودی ایک اور مہابھارت کی تیاری کر رہے ہیں جس میں ایٹمی لڑائی کا خطرہ بھی موجود ہے؟ یا وہ صرف حقیقی اصلاحات لانے سے بچنے کے لیے ایک عوامی سیاست کھیل رہے ہیں؟
پاکستان کو کس طرح جواب دینا چاہیے؟ کچھ ایسی سرخ لکیریں موجود ہیں جن کی توہین کوئی بھی خودمختار اور آزاد ملک برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ لکیریں حدود کی نشاندہی کرتی ہیں، اسٹریٹجی یا پالیسی کی نہیں۔ پاکستان کا سیکیورٹی چیلنجز کو جواب ان کے طویل مدتی اثرات کا خیال رکھے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ انڈیا کا بڑا سائز اور اس کا عالمی اثرورسوخ مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی قومی پالیسیوں میں کبھی بھی طویل مدتی ہم آہنگی نہیں رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی جمہوری اور ذمہ دار حکومت پنپنے نہیں دی گئی۔ پاکستان کے کسی بھی فوجی حکمران کو مثبت انداز میں یاد نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کی ایٹمی دفاعی صلاحیت انڈیا کے برابر مقابلے کی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے انڈیا محدود تنازعات اور جھڑپوں سے حالیہ طرز پر فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں رہتا ہے۔ انڈیا کی روایتی فوج میں برتری اور اس کا عالمی امیج اسے سفارتی محاذ پر کچھ خاص نقصان اٹھائے بغیر اپنے داؤ کھیلنے میں مدد دیتا ہے۔ پاکستان کے پاس یہ آزادی نہیں ہے۔ مودی اس فائدے کو اپنے دور میں مسئلہ کشمیر کے اپنی شرائط پر حل کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پاکستان کی فیصلہ سازی زیادہ جمہوری، ذمہ دارانہ، اور شفاف ہوجائے، تو ایسا ہونا ممکن نہیں رہے گا۔
نواز شریف کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ مودی سے ملنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائیں، اور ایجنڈا پر مبنی مذاکرات کی بحالی کے امکانات ڈھونڈنے چھوڑ دیں۔ وہ حالیہ سیاسی صورتحال سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، اور اب انہیں انڈیا کے سامنے بزدلی کے طعنے کا سامنہ ہے۔ وہ رسک لینے کے اس قدر خلاف ہوچکے ہیں کہ اب وہ اپنی ہی ترجیحی پالیسیز پر عمل نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ سے ملک اور ملک سے باہر ان کی معتبریت کم ہورہی ہے۔ ان کو جو مشورہ دیا گیا ہے، وہ غلط ہے۔ نہ ہی اس سے پاکستان کے ڈپلومیٹک، اور نہ ہی ملٹری آپشن مضبوط ہوں گے۔ اس کے بجائے اس سے پاکستان کے ترقی کے مواقع کو نقصان پہنچے گا، اور آخری نتیجہ انڈیا کے ساتھ سرگرم دشمنی ہی ہوگا۔
سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان لکھتے ہیں کہ 'دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچانے والے تنازعات اور مسائل نہ ہی نظریاتی ہیں، اور نہ ہی ناقابلِ حل ہیں۔ یہ سیاسی مسائل ہیں اور اس لیے بلا شبہ یہ قابلِ حل ہیں'۔ حل کے لیے تحرک درکار ہے، اور تحرک کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی رضامندی ہو، اور تحرک برابری کی سطح پر ہو۔ لیکن برابری کے اس مطالبے کو نازک اور تشویشناک حالات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ لیکن ناقابلِ حل مسائل پر تحرک کے لیے سیاسی رضامندی جاری رکھنے کے لیے برابری ہونا ضروری ہے۔
سیاچن کے معاملے پر کوئی پیشرفت نہیں ہورہی، جبکہ اس کے تیزی سے پگھلنے سے جو ماحولیات پر برے اثرات پڑیں گے، اس کی زد میں دونوں ممالک کے لاکھوں لوگ آئیں گے۔ اس کے علاوہ پانی کے تنازعات، پانی کی کمی، اور نتیجتاً کاشتکاری کی ناکامی وہ مسائل ہیں جو امن کے لیے غیرحل شدہ مسئلہ کشمیر سے زیادہ بڑے مسائل ہیں۔ دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہے کہ ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے کوشش کریں۔
انڈیا کی جانب سے خوف کا ماحول پیدا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ منظم مذاکرات کے لیے اصولی اور جائز موقف سے پیچھے ہٹ جایا جائے۔ لیکن اس معاملے میں طویل مدتی تناظر میں دیکھنے پر کافی بحث موجود ہے۔ انڈیا کی اشتعال انگیزی جو کہ سرخ لکیریں کراس کرنے سے تھوڑی ہی دور ہے، اس سے ایک بڑے اور مشکل پڑوسی کے ساتھ مستحکم تعلقات قائم کرنے کی اسٹریٹجیز کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
پاکستان کو خود اشتعال انگیزی سے دور رہنا ہوگا۔ حقائق کو سمجھنے میں اس کا انکار اور اس کی جوابی دلیلیں عالمی سطح پر کم ہی اہمیت اور اعتبار کی حامل ہیں، کیونکہ یہ عالمی سطح پر تنہا ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ اس کی پالیسی پوزیشنز کو دنیا میں بہتر طور پر سمجھا جائے تو اس سب کو تبدیل ہونا ہوگا۔
بہرحال یہ اسٹریٹیجیز کام نہیں کریں گی اگر انڈیا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے، اور مسائل کو حل کرنے کے لیے مذاکرات اور باہمی طور پر قابلِ قبول حل تسلیم کرنے سے انکار دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی ایسی کوشش کے لیے مناسب شخص نہیں ہیں۔ پاکستان میں کئی لوگ ان کا موازنہ واجپائی سے کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ واجپائی نے پاکستان پر اعلانِ لاہور کے کچھ ہی وقت بعد کارگل میں پیٹھ میں چھری گھونپنے کا الزام عائد کیا۔
مزید یہ کہ یہ سب کچھ نواز شریف کے سامنے ہوا۔ اب دونوں وزرائے اعظم کو یہ دکھانا ہوگا کہ وہ حالات کو معمول پر لے جانے اور مفاہمت کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان کو بھی شروعات کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دینا چاہیے۔
شملہ معاہدہ 'دوسرے ملک کی تسلیم شدہ پوزیشن سے اختلاف کے بغیر' دیرپا امن کے قیام پر زور دیتا ہے۔ اس سے اقوامِ متحدہ کی کئی قراردادوں پر پاکستان کی پوزیشن بھی تسلیم کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ قراردادیں کسی بھی دوطرفہ معاہدے سے بالاتر ہیں۔ اس کی بنا پر مسلسل اور تعمیری مذاکرات دونوں لیڈرشپس کی ذمہ داری اور فرض ہے۔ پاکستان کی پالیسیز کے بارے میں ایک بہتر عالمی امیج اس معاملے میں انڈیا کی کسی بھی ہٹ دھرمی سے نمٹنے میں مدد کرے گا۔ دوراندیش لیڈرشپ جو کامن سینس، عزم، اور تصور رکھتی ہو، وہ مشکل شروعاتی حالات اور ناقابلِ حل اختلافات پر قابو پاسکتی ہے۔ اس رویے کو دونوں ممالک میں رائے عامہ تشکیل دینی چاہیے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے میڈیا کو بھی بےفائدہ رویوں کو پروان چڑھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے متفقہ، تعطل کے شکار، اور ملتوی کردیے گئے تمام اقدامات کو فوری طور جاری ہونا چاہیے۔ لائن آف کنٹرول یا ورکنگ باؤنڈری پر تنازعات اور جھڑپیں رکنی چاہیئں۔ سیاسی لیڈرشپ اور ملٹری کمانڈرز کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے۔ وزرائے اعظم کے درمیاں ذاتی ہم آہنگی، اعتماد، اور رابطے ہونے چاہیئں۔ دوروں کو بھی ترجیح پر رکھنا چاہیے۔ اس سے لائن آف کنٹرول پر سیزفائر بحال ہوگی اور غیر حل شدہ مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کو دشمن ملک کا درجہ دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
2004-06 میں ہونے والے بیک چینل مذاکرات نے ایک عارضی حل کے لیے دستاویز تیار کی تھی۔ اس کے مندرجات متنازع ہیں، لیکن جیسا کہ ریاض محمد خان کہتے ہیں، کہ اگر تمام لوگوں، بشمول کشمیریوں کے، مسئلہ کشمیر کا حل چاہیے، تو اس میں وہ نکات ضرور ہونے چاہیئں جو بیک چینل مذاکرات میں موجود تھے۔ ان پر دوبارہ نظر ڈالنی چاہیے، اور شاید پہلے سے بھی زیادہ کھلے فارمیٹ میں، بشرطیکہ دونوں وزرائے اعظم اور کشمیری رائے کے معتبر نمائندے عوام کے سامنے اس مرحلے سے اپنی وابستگی اور لگاؤ کا اظہار کریں۔
دوطرفہ مذاکرات سے حتمی حل کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کشمیریوں کی شرکت اور ان کی رضامندی شامل ہو۔ جب بھی ایسا حل تلاش کرلیا جائے، تو اس کو سیکیورٹی کونسل سے متفقہ قرارداد کی صورت میں پاس کرایا جاسکتا ہے، جسے تمام موجودہ قراردادوں پر فوقیت حاصل ہوگی۔
لکھاری امریکا، انڈیا، اور چین میں پاکستان کے سابق سفیر، اور عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ کے مشنز کے سربراہ رہے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں