ایک ویزے کا سوال
3 اکتوبر 1972ء کا دن ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں کے لیے شاید اہم نہ ہو مگر چکوال کے صوبیدار فضل حسین کے لیے یقیناً اہم تھا۔ اُس روز انہیں ریڈیو پاکستان کے ذریعے خبر ملی کہ اُن کا 24 سالہ بیٹا محمد امین بھارتی قید میں ’’شہید‘‘ ہو گیا ہے۔ محمد امین پاکستان آرمی کی 55 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری میں سپاہی تھا اور دھن ساگر کیمپ 50 مدھیہ پردیش میں گذشتہ نو ماہ سے قید تھا۔ خبر میں اُمید کی کرن صرف اتنی تھی کہ اُس کا آرمی نمبر جو 1286511 تھا غلط بتایا جا رہا تھا مگر صرف دو ہی دن میں اٹک کے آرمی سینٹر نے بذریعہ ٹیلی گراف تصدیق کر دی کہ وہ محمد امین اُن کا بیٹا ہی تھا۔
محمد امین میٹرک کے بعد مارشل ایریا چکوال کی روایت کے مطابق فوج میں چلا گیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت اُس کا یونٹ ڈھاکہ میں تھا اور سرنڈر کے بعد دیگر نوے ہزار قیدیوں کے ساتھ وہ بھی بھارت کی قید میں تھا کہ 3 اکتوبر 1972ء کو ایک جذباتی قدم اُٹھانے کے نتیجے میں انہیں حوالدار نور زمان اور حوالدار محمد سلیم کے ہمراہ لقمہ اجل بننا پڑا۔ سرحدی پابندیاں آڑے آئیں اور اُن کی میتیں پاکستان لائی جانے کے بجائے وہاں پر ہی دفن کر دی گئیں۔ حکومت پاکستان میں موجود ذوالفقار علی بھٹو نے ایک لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا مگر لواحقین نے جنرل ٹکا خان اور گورنر جنرل پنجاب سے انعام کے بجائے علاقے کے لیے ترقیاتی پیکیج کا مطالبہ کیا۔
اب واقعے کی دُوسری طرف چلتے ہیں۔ صوبیدار فضل حسین اس کے بعد بارہ سال تک زندہ رہے۔ محمد امین کے چھوٹے بھائی ملک محمد عظیم، ملک مظہر حسین اور ملک اظہر حسین اُس وقت لڑکپن میں تھے۔ صوبیدار فضل حسین تو بیٹے کا کرب لیے بہت جلد ویزے کی پابندیوں سے آزاد ہو گئے مگر تینوں بھائیوں سمیت باقی خاندان آج 42 سال گزرنے کے بعد بھی اپنے پیارے کی قبر کی مٹی کو چھونے کے لیے تڑپ رہا ہے مگر سرحدی پابندیوں کے باعث انہیں ویزہ نہ مل سکا۔ یہ آج بھی اس اُمید پر زندہ ہیں کہ پابندیاں نرم ہوں گی تو انہیں ویزہ ضرور ملے گا اور وہ بھائی کی قبر کو کم از کم چھو ہی سکیں گے۔
ایسا ہی خواب سرحد کے دونوں جانب لاکھوں لوگ روز دیکھتے ہیں مگر سیاستدان اور فوجی حکام شاید جذبات و احساسات کو سنجیدہ نہیں لیتے یا پھر اُن کے لیے ویزے کی پابندیاں اتنی کڑی نہیں اور یہ بھی کہ اُن کے کسی عزیز کی قبر ’’لکیر‘‘ کے آر یا پار نہیں ہے۔ اسی لیے حکومت پاکستان نے محمد امین کے لواحقین کے لیے انعام کا اعلان تو کیا مگر ویزے کی کوششیں 42 سال کے طویل انتظار کے بعد بھی نہ کی۔ یہ واقعہ ایک مثال ہے اور ایسی ہی لاتعداد مثالیں دونوں طرف بکھری پڑی ہیں۔
ہزاروں سال ایک ہی خطے میں رہنے کے سبب پاک و ہند کے لوگوں کی ثقافت، مزاج، مشاغل اور خواہشات ایک ہی طرح کے ہیں۔ تقسیم کے بعد بھی عوام اپنی جڑیں اطراف میں محسوس کرتے ہیں۔ لکیر کے دونوں جانب کے شعرا، دانشوروں، فنکاروں اور دیگر فنونِ لطیفہ سے وابستہ افراد نے بڑی کوشش کی کہ لکیر دلوں میں نہ آسکے مگر فوجیوں اور سیاستدانوں کی حکمت عملی فنونِ لطیفہ سے طاقت ور نکلی اور آج ہم کھیل کے میدان کو بھی میدانِ جنگ سمجھتے ہیں۔
چار بڑی جنگیں اور آئے روز کی جھڑپیں پہلے ہی ہمارے ’’کریڈٹ‘‘ پر ہیں۔ اس پوری صورتحال میں عوام کا اپنے آقاؤں سے ایک ویزے کا سوال کرنا مضحکہ خیز ہی لگتا ہے۔
بھئی آخر آپ کو اپنے 'دشمن' ملک کا ویزہ حاصل کرنے اور وہاں جانے کی اتنی تڑپ کیوں ہے؟ اپنے ملک میں خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتے؟ ہم ایک بار اسے مغلوب کرلیں تو پھر دیکھیے گا کہ کسی ویزے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ لیکن تب تک صرف خاموش رہیے۔ کیا ہوا قبر پر نہیں جاسکے تو؟
پاکستان اور بھارت کئی سخت تجربات کر چکے ہیں۔ تجربہ گذر جائے تو تاریخ بن جاتا ہے۔ ان سابقہ تجربات کے اثرات بھی دونوں جانب واضح ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم نفرتوں کو کم کر کے محبتوں کی آبیاری کریں، فاصلہ بہت ہے مگر ہزار قدم اٹھانے کے لیے پہلا قدم اُٹھانا ضروری ہوتا ہے۔