تھائی لینڈ میں چار دن
کوالالمپور سے بنکاک فقط دو گھنٹے کی فلائٹ کی دوری پر ہے مگر دونوں شہروں میں مذہب، بول چال، اور کلچر کے لحاظ سے کافی فرق ہے۔ لڑکیوں کا عام ڈریس شارٹ اسکرٹ بلاؤز ہے جبکہ کوالمپور میں زیادہ تر لانگ اسکرٹ بلاؤز معہ حجاب کے پہنا جاتا ہے۔ کوالالمپور بلکہ پورے ملائیشیا میں ہمیں انگریزی اور اردو سمجھنے اور بولنے والے بھی کافی مل گئے تھے۔ مگر بنکاک کا معاملہ اس سے سوا تھا۔
ایئر پورٹ سے شہر داخل ہوتے ہی ایک وسعت اور پھیلاؤ کا میکانیکی احساس ہوا۔ دوکان اور سڑکوں کے نام پڑھنے کی کوشش کی تو خاک سمجھ میں نہ آیا کیونکہ تھائی زبان پالی، سنسکرت اورتائی-کدائی اور چینی زبان کا ملغوبہ ہے۔ راما اول کے دور میں تھائی بولی کو زبان کا درجہ ملا اور سترھویں صدی میں پرنٹنگ پریس آنے کے بعد اسکول کے بچوں کو تھائی زبان میں ان کی کتابیں ملیں۔ تھائی لینڈ کے پڑوسی ملکوں میں چین، لاؤس، کمبوڈیا، برما، اور سری لنکا وغیرہ شامل ہیں۔
برما کے ساتھ تھائی عوام کیo بہت سی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ آزادی حاصل کرنے سے پہلے برما کا بنکاک اور اس سے ملحقہ علاقوں پر ظالمانہ تسلط تھا۔ برما سے رنگون تک بنی ریلوے لائین ڈیتھ ٹرین لائین کہلاتی تھی۔ شہر کانچن بری میں دریا کوائی پر بنا پل، وہاں کا میوزیم اور اس سے ملحقہ قبرستان ان ہزاروں جنگی قیدیوں کی یاد دلاتا ہے جو اس منحوس ریلوے لائین کے ڈالنے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بنکاک میں ہمارا قیام اندراجیت ہوٹل میں تھا۔ سامان رکھ کر فارن ایکسچینج کے لیے باہر نکلے تو طبیعت باغ باغ ہو گئی، کیونکہ ہمیں شاپنگ کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہ تھی۔ ہوٹل کے سامنے، سایئڈ والی سڑک پر اور ہر جگہہ ہزاروں کھوکھے تھے جہاں دوکاندار لڑکیاں سامان سجائے کھڑی تھیں۔ بھاؤ تاؤ زوروں پر تھا۔ اگرچیکہ ان کی بولی سمجھ نہ آتی تھی۔ مگر نمبروں اور کرنسی کی زبان انٹرنیشنل ہوتی ہے۔ سو اسی سے ہم نے بھی کام چلایا۔ تھوڑا تلاش کرنے پر ایک انڈین اور پھر پاکستانی ریستوران والے بھی نظر آ گئے۔ اس کے بعد ہم نے گرینڈ پیلس اور بنکاک کا سائٹ سیئنگ ٹور بک کروا ہی لیا۔
بنکاک میں ٹک ٹک بہت پاپولر سواری ہے مگر ان کے ریٹ پہلے سے طے کر لیے جائیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ سیاحوں کو گھیر گھار کر ایسی مہنگی دوکانوں پر لے جاتے ہیں جن سے ان کا کمیشن پہلے سے طےہوتا ہے۔
فوٹو — Ilya Pekhanov |
بنکاک کا مشہور لینڈ مارک راما اول کی جانب سے بنوایا گیا گرینڈ پیلس کمپلیکس ہے۔ یہ سترھویں صدی کے آخر میں تکمیل کے مراحل کو پہنچا۔ بعد میں اس میں مزید اضافہ راما دوم سے لے کر موجودہ بادشاہ راما نہم بھی کرتے رہے۔ بورم فیمین مینشن موجودہ راما نہم کی رہائش گاہ ہے۔ اس کمپلیس میں شاہی محل دیوست پرسات، دربار عام و خاص، سرکاری دفاتر کے علاوہ ایمیرالڈ بدھا کا مندر بھی شامل ہے۔
ہر سال پانچ مئی کو جشن تاجپوشی کی رسم یہاں کے بھومی ہال میں ہوتی ہے اور بادشاہ قسم کھاتا ہے کہ وہ سیامیز کی بھلائی اور بہبود کے لیے کام کرے گا۔ تھائی لینڈ میں ڈیموکریٹک حکومت 1939ء میں بنی۔ عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھتے ہوئے کنگ پردھاپوک کو اسی میں عافیت نظر آئی کہ وہ وقت کی پکار سنیں۔ دسمبر 1932ء میں شاہ نے پہلا قانون پارلیمنٹ سے خود منظور کروایا۔ اور یوں تھائی لینڈ میں سات سو سال سے رائج بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔
ہماری تھائی لینڈ کی سیر گرینڈ کمپلکس سے شروع ہوئی۔ صبح کے دس بجے تھے مگر سورج ابھی سے سر پر چمک رہا تھا۔ کمپلیکس کے وسیع احاطے میں تھائی طرز تعمیر کی ستواں میناروں والی حسین ترین عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ سڈول ستونوں کا چمکتا دمکتا سنہرا رنگ نمایاں تھا۔ ان پر بنے سنہری بیل بوٹوں پر دہانی، لال گلال اور آسمانی رنگوں کی میناکاری عجب بہار دے رہی تھی۔ احاطے میں ہر طرف سیاحوں کا ہجوم تھا اور درجنوں کیمرے کلک ہو رہے تھے۔ گرینڈ کمپلیکس دو لاکھ اٹھارہ ہزار اسکوائر میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اورطویل چاردیواری سے گھرا ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بننے والا یہ کمپلیکس ہرماہ تھاِئی گورنمنٹ کو ہزاروں ڈالر کما کر دیتا ہے۔
ہم ایمیرالڈ بدھا کے بڑے سے مندر پہنچے۔ اندر ایک گونہ سکون، احترام اور خاموشی کا عالم تھا۔ ہر طرف صندل کا خوشبودار دھواں چھایا تھا۔ بدھ کے چہرے پر روحانی جلال تھا جیسے وہ کہہ رہے ہوں، نفسانی خواہشات کی غلامی درست نہیں۔ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اختیار کرو اگر تمھیں معرفت اورنجات حاصل کرنی ہو۔
ایمیرالڈ بدھا — فوٹو Tom Bartel |
کنول کا پھول، موم بتی اور جلتی ہوئی خوشبودار لکڑی کی تین چھڑیاں، بدھ مذہب میں عبادت کا اہم جز ہیں۔ ایک چھڑی بدھ کے لیے، دوسری سنگھا [کمیونٹی] کے لیے اور تیسری روحانی روشنی کے لیے۔ یاتری خوشبودار چھڑیاں جلا کر کنول کے پھول بدھ کے قدموں میں رکھتے ہیں اور دعا کے لیے سجد ہ ریز ہو جاتے ہیں۔ وہ اکثر اپنے ساتھ اورنج کلر کی کئی بالٹیوں میں مجاوروں کے لیے روزمرہ استعمال کی چیزیں بھی لاتے ہیں اور اظہارعقیدت کے لیےانھیں دیتے ہیں۔
ایمیرالڈ بدھا دراصل جیڈ (Jade) سے تراشا گیا ہے۔ چودھویں صدی میں چنگ رئی شہر میں جب ایک راہب کی نظر اس کی کچھ چھلی ہوئی ناک پر پڑی تو اس نے اسے زمرد پتھرسے تراشا ہوا خیال کیا۔ باقی پورا مجسمہ سفید پلاسٹر سے ڈھکا تھا۔ بادشاہوں کے زمانے کی چیز تھی۔ افواہ پھیلنے میں دیر نہ لگی۔ اس کے بعد یہ قیمتی مجسمہ لمپنگ لے جایا گیا۔ وہاں سے بادشاہ تلوک اسے چنگ مائی لے گیا۔ تقریبا ڈھائی سو سال میں کئی بادشاہوں کے ہاتھوں گزرتا آخرکار بنکاک میں زینت افروز ہوا۔ آج بھی یہ مجسمہ جیڈ کے بجائے ایمیرالڈ بدھا کے نام ہی سے جانا جاتا ہے۔
ہم یہاں کچھ دیر رہے۔ پھر باہر نکل آئے کیونکہ سیاح کا کام تو نت نئی منزلوں کو سر کرنا ہے۔ ٹھہرنا، رکنا اس کی سرشت میں نہیں۔ تیز تپتی دھوپ سے سر جھلسنے لگا تو ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ٹھنڈک کی تلاش میں میوزیم میں داخل ہو گَےَ۔
میوزیم میں قدیم سکے، ہتھیار، اور مختلف موقعوں پر پہنے جانے والے نادر پتھروں سے سجے سجائے سونے کے بھاری بھرکم تاج رکھے ہوئے تھے۔ شاہی خاندان کے افراد، ان کے محلوں کی تصویریں، ملبوس، زیورات، قلعے کے ماڈل، قدیم نقشے، سبھی کچھ اس میوزیم کی زینت تھے۔ تھائی فیسٹیول ربوی جو دریا پر کنول کے پھول سے سجی ہوئی کشتیوں میں منایا جاتا یے کی بڑی خوبصورت تصویریں تھیں۔
پاس ہی کوئین سری کٹ میوزیم بھی تھا۔ یہ دراصل تھائیِِ سلک کی صعنت میں موجودہ ملکہ کی گہری دلچسپی کا اظہار ہے۔
اگلے دن ہمارا پروگرام ایودھیا اور فلوٹنگ مارکیٹ کی سیر تھا۔ ایودھیا بنکاک سے اسی کلومیٹر دور ایک تاریخی شہر ہے۔ تھائی طرز کی بنی عمارتیں یہاں آج بھی کھڑی ہیں۔ فرابدھا بیٹ میں بدھ کی قدموں کے نشان یاتریوں کی دلچسپی کا سبب ہیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ کافی دور تک ہرے بھرے کیلے اور انناس اور رمبوتان کے باغ اور کھیت تھے۔ سکوتھائی دور[ 1238ء] میں تھائی لینڈ میں خوش حالی کا دور تھا۔ شہر ایودھیا تیرھویں صدی میں مرکز سلطنت تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا۔ تین دریاؤں چاؤفریا، دریا پاسوک اور دریا لوبری سے فیضیاب ہونے والے اس شہر کی زمین بے انتہا زرخیز تھی۔
بنکاک کا فلوٹنگ مارکیٹ — فوٹو بشکریہ gothaibefree.com |
ہرطرف دھان کے کھیت لہلہاتے تھے اورمچھلیاں پانیوں میں اونچی اونچی چھلانگیں مارتی تھیں۔ بہتر تجارتی راستوں کی وجہ سے ایودھیا کو دوسرے صوبوں پر عرصے تک فوقیت حاصل رہی۔ شاہ تھونگ اور اس کے وارثوں نے اس کی سرحدوں کو مزید پھیلایا۔ سولھویں صدی میں خوش حال صوبہ یوروپین دنیا کی نظروں میں آچکا تھا۔ بیرونی مداخلت ہوئی۔ 1511ء میں پرتگالی حریص ارادے لیے یہاں داخل ہوئے۔ اگلی باری اسپین کی تھی۔ پھر تو جیسے تانتا بندھ گیا۔ ڈچ کے بعد سولھویں صدی کے اواخر میں برطانیہ بھی یہاں آن دھمکا۔
سولھویں صدی کی آخری چوتھائی میں چن مائی بھی آزاد ریاست تھی مگر اس پر برما کا کنٹرول تھا۔ ایودھیا کی تباہی سترہ سو پینسٹھ میں ہوئی جب برما نے اس پر حملہ کیا۔ خوبصرت عمارتیں، مندر اور مجسمے ڈھائے، باغ اور فوارے جلائے اور اس خوبصورت شہر کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن پھر بھی وہ عوام کی اُمنگوں اور ان کی روح کو نہ کچل سکے۔ تھائی جنرل پھایا تک سین عوام کی آواز پر برمیوں کے خلاف اٹھا اور 1769 میں انھیں مار بھگایا اور تھارن بری کو مضبوط مرکز کی حیثیت دی۔
چاؤفریا دریا کے ساتھ ساتھ فوجی جنرل کا شہرہ بنکاک تک پھیل گیا تھا مگر فوج کے جنرل کا یوں بادشاہ بن جانا اسے راس نہ آیا۔ تقریبا چالیس سال بعد دوسری فوجی بغاوت ہوئی اورجنرل چکری نے اس کی جگہ لے لی۔ اور راما اول کا لقب اختیار کیا۔ تب سے ہی مضبوط حکومت کا مرکزاب بنکاک تھا۔
گرینڈ پیلس راما اول ہی کے دور میں بننا شروع ہوا۔ اس کے بعد ہر بادشاہ نے راما کا لقب اختیار کیا۔ راما سوم نے کئی مغربی سلطنتوں سے سماجی اورتجارتی معاہدے کیے۔ کسانوں اورچھوٹے تاجروں کی حالت بہتر کرنے کے لیے اکنامک ریفارمز کیے اور غلامی کی بدنما رسم ختم کی۔ راما ششم پرجا پوک کے دور میں وراثتی بادشاہت Constitutional Monarchy کو قانونی تحفظ ملا اور بادشاہ ملک کا صدربنا۔ گو کہ سپریم پاور پارلیمنٹ ہی کی ہوتی تھی۔ تھائی لینڈ میں ڈیموکریٹک حکومت 1939ء میں بنی۔ اور یوں سات سو سال سے رائج بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔
تھائی لینڈ کا موجودہ صدر راما نہم ہے مگر بادشاہ کی حیثیت رواجی اور سماجی ہے اور5 مئی رسم تاج پوشی کا دن پبلک ہالی ڈے ہے۔ اس دن سڑکیں اور سرکاری عمارتیں رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجاِئی جاتی ہیں اور بادشاہ سلامت شاندار جلوس کے ساتھ گھوڑا گاڑی میں سوار گرینڈ پیلس پہنچتے ہیں۔ شاہ اورملکہ کی تازہ تصویریں شہر بھر میں اور مرکزی شاہراہوں پر لگائی جاتی ہیں اور مٹھایاں بٹتی ہیں۔
ایودھیا کی تاریخ جاننے اور بدھا کے بڑے سے لیٹے ہوئے مجسمے کو دیکھنے کے بعد ہم ایک قریبی ریستوران چلے گئے اور نوڈل اور گونگ، جو جمبو جھینگوں کی ڈش ہوتی ہے سے اپنی بھو ک مٹائی۔ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تھائی کھانے مقبول و مرغوب ہیں۔
ریستوران سے باہر نکلے تو اسکول یونیفارم میں ملبوس خوش باش بچے نظر آئے۔ تھائی لینڈ میں پبلک ایجوکیشن سسٹم کافی دیر سے یعنی اٹھارویں صدی کے اوائل میں ڈیولپ ہوا۔ اس سے پہلے کافی عرصے تک یہ صرف شاہی خاندان کے افراد اوران کے بچوں کے لیے مخصوص تھا۔ اور عوام کو منک یا سادھو مندر میں ابتدائی تعلیم دیا کرتے تھے۔ پرنٹنگ پریس راما چہارم [ 1868] کے دور میں قائم ہوا اورپھر طالب علموں کی رسائی تھائی زبان میں لکھی درسی کتابوں تک ہوئی۔ اب بھی تھائی لینڈ ایجوکیشن کے معاملے میں ملائیشیا سے کافی پیچھے نظر آتا ہے۔
بنکاک کی ایک بڑی اٹریکشن یہاں کی فلوٹنگ مارکیٹ بھی ہے۔ یہاں خریداری کشتی میں بیٹھے بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم دامن سدوک فلوٹنگ مارکیٹ کے آخر میں ایک بڑا سا لکڑی کا پلیٹ فارم بھی بنا دیا گیا ہے جہاں لوکل ہینڈی کرافٹ اور لکڑی پر تراشی ہوئی پینٹنگس خریداروں کی توجہ کی منتظر ہیں۔ تھائی سکہ بھات بے حد کم قیمت ہے مگر تھائی لوگوں کو چینیوں کی طرح اس کا کوئی غم نہیں۔ وہ بھلے یورپ اور امریکہ کی طرح نت ئنی ایجادیں نہ کریں لیکن ہر چیز کی دو نمبر کاپی ضرور بنا لیتے ہیں۔ موبائل فون مارکیٹ اور ڈیجیٹل مشینوں کی مارکیٹ میں انھوں نے اسی دو نمبر پروڈکٹس کی بھرمار کر دی ہے۔ مارکیٹ میں ان کا مقابلہ معیار کے بجَاے مقدار یا تعداد سے ہے۔ اور لوگ ان سستے پروڈکٹس کے چکر میں آہی جاتے ہیں۔
اگلی شام ہمارا ارادہ دریا سے رات میں بنکاک کی سیر کا تھا۔ تھائی لینڈ میں بدھ ازم، ہندوازم اور Animism [حیوان پرستی] ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ہمیں راستے میں ہر جگہ مثلا سوریہ مال اور امارات مال کے باہر اور اندر گیندے کے ہار پہنے ہندو دیوتاؤں گنیش اور اندر گوتم بدھ اور لکشمی دیوی، رام سیتا اوراور ان کے سنگ ہنومان بھی براجمان تھے۔ شاپنگ مال میں گنیش مہاراج کا خاص درجہ ہے کہ یہ خوش حالی، ترقی اور طاقت کی علامت مانے جاتے ہیں۔
اس سیر کا لطف دریا چاؤفریا پر شاندار دومنزلہ جہاز نما کشتیوں میں ڈنر کے ساتھ اٹھایا جائے تو بات ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ دریا کی مچلتی لہروں پرشام کے ڈھلتے رنگ اور نیون ساِئن کی جلتی بجھتی روشنیوں میں اس شہر کے نظاروں میں کچھ اورہی رنگینی آجاتی ہے۔ بنکاک کا میٹروپولیٹن ایڈمنسٹریشن اور ٹرانسپورٹ کا سسٹم کافی ترقی یافتہ ہے۔ سب وے ٹرین، بسں اور گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ریور ٹرانسپورٹ یعنی واٹر بس سروس بھی لوگوں کو اپنی منزل پر پہنچانے کے لیے مستعد ہے۔
ہم سب چاؤفریا پورٹ پہنچے تو شاپنگ مالز اور راہداریاں رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگا رہی تھیں۔ غیر ملکی اور لوکل ایلیٹ سیاحوں کے درجنوں گروپ اپنے اپنےشاندار جہاز نما کشتی کا انتطار کر رہے تھے۔ درجنوں چھوٹی بڑی کشتیاں ساحل پر ڈگمگا رہی تھیں۔ آخر کار ہمارا جہاز ساحل سے لگا۔ یہ ہماری سیون اسٹار ٹریٹ تھی۔ چاند کی ٹھنڈی روشنی میں دریا کے سینے پر مپچلتی ڈولتی لہروں پر ریڈ کارپٹیڈ کشتیوں میں تھائی میزبان ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ سازندے اورموسیقاروں کے ساتھ ساتھ بوفے ڈنر کھانے کا اہتمام تھا۔ ہر سیاح اس سے بھرپور لطف اٹھانے کے موڈ میں تھا۔
ہم کچھ دیر کے لیےعرشے پر چلے گئے۔ دور محل اور مندروں کے کلس چمک رہے تھے۔ چمکتے دمکتے برج اور فلائی اوورز پر دوڑتی گاڑیاں اور ماڈرن مالز کی دمکتی سجاوٹ ایک انوکھا منظر پیش کررہی تھیں اور دل چاہتا تھا کہ یہ سیر کبھی ختم نہ ہو۔
پٹایا بنکاک سے صرف دیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ایک اچھا تفریحی ساحل ہے۔ شوقین لوگوں کے لیے مساج ، واٹر اسکینگ اور بنجی جمپنگ اورغوطہ خوری کا اہتمام بھی ہے۔ ہمارا من تو تھائی جزیروں یعنی کرابی اور فیفی آئی لینڈ میں بھی اٹکا ہوا تھا۔ مگر ہم نے اس کو اگلی دفعہ کے لیے چھوڑدیا تھا۔
تھائی لینڈ میں ہمارےچار دن بڑی تیزی سے گزر چکے تھے۔
تبصرے (1) بند ہیں