سُدھار کی گنجائش اب بھی ہے
1977 میں جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برطرف کر کے ملک میں مارشل لاء لگایا تھا تب میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ موصوف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کے تمام سیاہ و سفید کے مالک ہونے کےعلاوہ پاکستان بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن کے بھی چیف پیٹرن تھے۔
اسکول کی سکاؤٹ ٹیم کا حصہ ہونے کی وجہ سے مجھے جنرل ضیاء سے متعدد بار بالمشافہ ملنے اور ان سے ہاتھ ملانے کا "شرف" حآصل ہوا۔ شاید اسی لیے ان کی سیاست اور کردار سے میری دلچسپی ہمیشہ برقرار رہی۔
"اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے" والا مشہور تکیہ کلام انہی کا ایجاد کیا ہوا تھا جسے ان کے شاگرد آج بھی انتہائی عقیدت سے دھراتے ہیں۔ وہ بے شمار اقوال زرین کے بھی موجد تھے۔ انہی اقوال میں سے ان کا ایک زرین قول آج بھی مجھے یاد ہے جس نے پاکستانی معاشرے پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کیے۔ موصوف بڑے فخر سے فرمایا کرتے تھے کہ " ہم پہلے مسلمان ہیں اس کے بعد پاکستانی"۔
شاید کسی کومجھ سے اتفاق نہ ہو لیکن میرے خیال میں امیرالمومنین کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے ان الفاظ نے پاکستانی قومیت کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔ گو کہ اس سے قبل بھی پاکستان کے مختلف حصوں یا صوبوں میں رہنے والوں کے درمیان اس قربت اور یگانگت کا تصور مفقود تھا جو وسیع پیمانے پر ایک قوم کا خاصہ ہوتا ہے۔
تب بھی چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان اور سندھ کو "بڑے بھائی" پنجاب سے کافی شکایتیں تھیں لیکن سب کسی نہ کسی سطح پر اپنے آپ کو پاکستانی ہی تصور کرتے تھے خصوصاَ تمام مذاہب اور عقائد کے پیروکار پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرویا ہوا محسوس کرتے تھے۔ اور شاید یہی وہ وجہہ مشترک یا common factor تھا جو پاکستان کے تمام طبقات کو برابری کا احساس دلاتا تھا۔
ایسے میں امیرالمومنین موصوف کے اس ارشاد نے پہلے تو پاکستان کی غیر مسلم آبادی کوایک مسلمان ملک میں دوسرے درجے کے شہری اور alien ہونے کا احساس دلایا پھر مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں بھی اس بات کا "شعور" اجاگر کیا کہ وہ پہلے سنی یا شیعہ ہیں اس کے بعد پاکستانی۔ سلسلہ یہی پہ رکتا بھی تو کوئی بات تھی، لیکن آہستہ آہستہ سب کو یہ احساس دلایا گیا کہ وہ دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث بھی ہیں۔
اس آگہی کے بعد نہ صرف تقسیم در تقسیم کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا بلکہ مختلف فرقوں کے درمیان ملک پر اپنا مسلک مسلط کرنے کی ایک دوڑ لگ گئی۔
یوں مسالک کے نام پر گروہ بننے لگے جو سینہ تان کر ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہوئے۔ دوسری طرف لسانی گروہوں کی بھی بھرپور سرپرستی کا سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ عوام کے مختلف طبقات کو آپس میں لڑا کر ان کی توجہ ملک کے بنیادی مسائل سے ہٹائی جاسکے۔ لہٰذا پولرائزیشن کو بڑھاوا دینے اور حکومت کے مخالفین کی ماورائے عدالت سرکوبی کے لیے ایسے گروہوں کی مکمل حوصلہ افزائی کی گئی۔
اس نیک مقصد کی خاطر بلوچستان میں بھی جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ایسے لسانی، قبائلی گروہوں اورمسلح جتھوں کی سرپرستی کی گئی جنہوں نے معاشرے میں نفرت اور تشدد کی سیاست کو اس کےعروج پر پہنچا دیا۔
ضیاء الحق ہی کے دور میں ایک منظم پالیسی کے تحت ملک کے حساس اداروں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کو انتہا پسندی کی طرف مائل کیا گیا تاکہ جہادی کلچر کو فروغ دے کر امریکی مفادات کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے۔
جنرل ضیاء کی اس پالیسی کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی انہیں چھیڑنے یا سدھارنے کی جرآت نہیں کی۔ حد تو یہ کہ عوامی اور سیکولر جماعت ہونے کی دعویدار پیپلز پارٹی نے بھی نہ صرف اپنے پیشرو جنرل ضیاء کی اسی پالیسی پرعمل جاری رکھا بلکہ دو چار قدم آگے بڑھ کر طالبان کی تشکیل کا کارنامہ بھی سرانجام دیا تاکہ ان کی مدد سے افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ نہ سہی کم از کم فرماں بردارملک ہی بنایا جاسکے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا اورہو رہا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ آج ہم دہشت گردی کے جس آہنی شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں وہ ہمارا ہی تیار کردہ ہے۔
کہتے ہیں کہ "خود کردہ راعلاجی نیست" لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غلطیوں کو سدھارنے کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے بشرطیکہ ان غلطیوں کا اگراعتراف نہیں تو کم از کم احساس ہی کیا جائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں میں پچاس ہزار سےزائد پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جن میں عام افراد کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ہیں جن میں کئی اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہیں۔ اس دوران ملک بھر میں انتہائی حساس مقامات کو نشانہ بنانے کی جو کوششیں کی گئی ان سے بھی ان دہشت گردوں کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ کئی دہائیوں بعد پاکستان کے مقتدر حلقوں بالخصوص افواج پاکستان کے لہجے میں تبدیلی نظرآئی جس کا اندازہ دسمبر 2012 میں متعارف کرائے گئے ان کے نئے ڈاکٹرائن سے لگایا جاسکتا ہے۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایکسپریس ٹریبیون نے 3 جنوری 2013 کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ "پاک آرمی نے ملک میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑاخطرہ قراردیا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر تھا کہ پاکستان آرمی نے کئی دہائیوں تک بھارت کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیے رکھا لیکن ملک میں بڑھتی انتہا پسندی نے انہیں اس بات پر مجبورکردیا ہے کہ وہ اپنی اسٹریٹجی پرنظرثانی کریں۔
جون 2014 میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کو بھی ہمیں اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا جب کئی مہینوں کی تیاری کے بعد شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر منظم حملوں کا آغاز ہوا۔ حالانکہ نواز شریف کی حکومت اس آپریشن کے سلسلے میں آخر تک تذبذب کا شکار نظر آئی۔
اطلاعات کے مطابق اس آپریشن کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد ملکی اور غیر ملکی دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ شمالی وزیرستان کے ایک بڑے حصے کو دہشت گردوں کے وجود سے پاک کیا جاچکا ہے جو یقیناَ ایک حوصلہ افزاء بات ہے۔
ہمارے ارد گرد حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے اندرونی معاملات پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ ہمیں اس خوش فہمی میں ہرگز نہیں رہنا چاہیے کہ ہمارا ملک مشرق وسطیٰ سے اٹھنے والی کالی آندھی آئی ایس یا داعش کے اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے کیونکہ ایسی خبریں عام ہیں کہ داعش جنگجوؤں کی صفوں میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹرمالک کا حالیہ انٹرویو آن ریکارڈ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بلوچستان میں داعش کی موجودگی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل وہ ستمبر 2013 میں بی بی سی کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان سے شدت پسند لڑنے کے لیے شام جا رہے ہیں۔
اسی طرح ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ داعش پاکستان میں اپنے قدم جمانے میں مصروف ہے جبکہ تحریک طالبان پاکستان کے کئی رہنماؤں نے بھی داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ان خبروں سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے لیکن یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ اگر اس مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا گیا تومستقبل میں ملک کوشدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان کو بدامنی کے دلدل میں دھکیلنے والے وہی لوگ ہیں جن کے سرپرکبھی ہم نے اپنا دست شفقت رکھا تھا لیکن جب وہ لوٹ کر آئے تو ہم پر ہی چڑھ دوڑے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی حکومت اور ریاستی اداروں کو اس بات کا احساس ہے کہ کل جب یہ شدت پسند مشرق وسطیٰ سے واپس لوٹیں گے تو ملک کی سلامتی اور امن و امان کے لیے کتنا بڑا خطرہ ثابت ہونگے؟
اس بات سے قطع نظر کہ ماضی میں پاکستان کی سیاست میں فوج کا کیا کردار رہا، یہ بات طے ہے کہ پاکستان فوج کا شمار دنیا کی بہترین پیشہ ور افواج میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ملکی معاملات میں بے جا مداخلت اور منتخب حکومتوں کا تختہ الٹتے رہنے کے باعث ان پرانگلیاں بھی اٹھتی رہتی ہیں اوران کی پالیسیوں سے اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے لیکن اس بات سے شاید ہی کوئی انکار کر سکے کہ فوج کا ادارہ اب بھی ملک کا منظم اورمضبوط ترین ادارہ ہے جس کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم سوات اورمالا کنڈ میں پہلے ہی کر چکے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور فوج مل کر پاکستان کو اس کے"سب سے بڑے دشمن" یعنی اندرونی دہشت گردوں سے نجات دلانے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دیں۔ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو سدھارنے کا وقت اب بھی موجود ہے بشرطیکہ ہم پڑوسیوں کے گھروں میں تاک جھانک کرنے کے بجائے اپنے گھر کی خبر لیں۔
تبصرے (3) بند ہیں