• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نئی بیٹری، منٹوں میں چارج

شائع October 19, 2014
سائنسدانوں نے بیٹریوں کے آہستہ چارج ہونے کا حل ایسی بیٹری کی صورت میں نکالا ہے جو دو منٹ میں 70 فیصد چارج ہوسکتی ہے — فوٹو بشکریہ rootfun,net
سائنسدانوں نے بیٹریوں کے آہستہ چارج ہونے کا حل ایسی بیٹری کی صورت میں نکالا ہے جو دو منٹ میں 70 فیصد چارج ہوسکتی ہے — فوٹو بشکریہ rootfun,net

ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ کبھی نہ کبھی ایسا ضرور ہوا ہوگا: گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ یا بریک ڈائون میں بیچارے موبائل فون کی بیٹری بھی ڈائون ہوگئی اور بجلی آتے ہی موبائل فون چارجنگ پر لگادیا۔ ابھی دس منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ بجلی پھر سے چلی گئی اور... آگے کا قصہ آپ خود ہی جانتے ہوں گے۔

اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کا معاملہ تو اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ ہنساتے کم اور رلاتے زیادہ ہیں۔ دیر سے چارج ہوتے ہیں اور جلدی ڈسچارج ہوجاتے ہیں۔ کچھ اور ساتھ میں ہو یا نہ ہو، چارجر ضرور ساتھ رکھنا پڑتا ہے کہ نہ جانے کس گلی میں ’’موبائل کی بیٹری ڈائون‘‘ ہوجائے۔

خیر! چارجنگ کے ماروں، بے چاروں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اب سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی (این ٹی یو) کے انجینئروں نے ایک ایسی نئی لیتھیم آئن بیٹری تیار کرلی ہے جو صرف دو منٹ میں 70 فیصد تک چارج ہوجاتی ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ اس بیٹری کو اسمارٹ فون سے لے کر بجلی سے چلنے والی کاروں (الیکٹرک کارز) تک کےلیے ضرورت کے حساب سے چھوٹا یا بڑا بنایا جاسکتا ہے۔

مزید یہ کہ اس میں دس ہزار مرتبہ تک چارج/ ڈسچارج سائیکلز جھیلنے کی صلاحیت بھی ہے۔ یعنی اگر آپ دن میں پانچ مرتبہ بھی اس کی چارجنگ کریں گے، تب بھی یہ ساڑھے پانچ سال تو آرام سے نکال لے گی۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ یہ پاکستان میں وولٹیج کے جھٹکوں کو برداشت کرسکے گی یا نہیں۔ بہرحال اس کی یہ صلاحیت، مارکیٹ میں دستیاب دوسری لیتھیم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہے۔

اس نئی بیٹری کے بارے میں دو اچھی خبریں اور ہیں: پہلی یہ کہ اسے صنعتی پیمانے پر تیار کرنے کےلیے وہی مشینیں اور فیکٹریاں کافی ہوں گی جو آج کل اسمارٹ فون بیٹریز بنانے میں استعمال ہوتی ہیں؛ اور دوسری یہ کہ اگلے چند سال تک یہ بیٹری مارکیٹ میں دستیاب بھی ہوگی۔ لیکن ابھی اس کی قیمت طے نہیں کی گئی ہے۔ البتہ میرا اپنا اندازہ ہے کہ شروع شروع میں یہ دوسری اسمارٹ فون بیٹریوں سے ذرا مہنگی ہوگی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔ ارے بھئی! اسی کو تو Trickle Down Effect کہتے ہیں۔

صرف موبائل انڈسٹری ہی کو نہیں بلکہ بجلی بھری کاریں (الیکٹرک کارز) بنانے والی کمپنیوں کو بھی اس بیٹری کا شدت سے انتظار ہے۔ اسمارٹ فون اور بجلی سے چلنے والی کاروں کا مسئلہ بالکل ایک ہے: دونوں کی بیٹریاں چارج ہونے میں بہت وقت لگاتی ہیں۔ الیکٹرک کاروں کے اب تک مقبول نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ان کی بیٹریوں کو پوری طرح چارج ہونے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ چارجنگ پوری ہوجانے کے بعد یہ گاڑیاں 100 سے 150 کلومیٹر تک کا سفر کرسکتی ہیں۔ تین سال پہلے مٹسوبشی کی i-MiEV الیکٹرک کار نے ایک ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران، شہر میں چلانے پر ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔

یعنی اگر یہ بیٹری آگئی اور الیکٹرک کاروں کےلیے کمرشلائز بھی ہوگئی تو امید کی جاسکتی ہے کہ پیٹرول پمپ کی طرح ’’الیکٹرک پمپ‘‘ بھی بننے لگیں گے جہاں کاروں کی بیٹریاں، منٹوں میں چارج کی جاسکیں گی۔ پاکستان میں نہ سہی لیکن امریکہ، انگلینڈ اور جاپان وغیرہ میں شاید یہ خواب پورا ہوجائے۔

آخر میں تھوڑی سی ٹیکنیکل بات۔ لیتھیم آئن بیٹریوں میں اینوڈ کے طور پر گریفائٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن این ٹی یو کے انجینئروں نے اس کی جگہ ٹیٹانیئم ڈائی آکسائیڈ نینوٹیوبز والے، جیلی جیسے مادّے (gel) پر مشتمل اینوڈ استعمال کیا ہے... اور اس پوری کہانی میں اصل خبر بھی یہی ہے۔

ٹیٹانیئم ڈائی آکسائیڈ اگرچہ بہت سستا ہے اور ’’ٹیٹانیا‘‘ کے نام سے بہ آسانی مل بھی جاتا ہے، لیکن پہلے اس سے نینوٹیوبز (یعنی نینومیٹر جسامت والی نلکیاں) بنانا اور پھر ان نینوٹیوبز کو ایک جیلی دار مادّے کی شکل میں لاکر بیٹری اینوڈ کی حیثیت سے استعمال کرنا، یہ واقعی بہت مشکل کام ہے۔ ایسے ہی کاموں کو ’’ٹیڑھی کھیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن این ٹی یو کے انجینئروں کو سلیوٹ کہ جنہوں نے آخرکار یہ ٹیڑھی کھیر، سیدھی کر ہی لی۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئی بھی ’’فیوچرسٹک‘‘ خبر دینے میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بہت سے لوگ یقین ہی نہیں کرتے۔ تو اے میرے پیارے پیارے پڑھنے والو! اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں، تو ’’ایڈوانسڈ مٹیریلز‘‘ نامی ریسرچ جرنل میں چھپنے والی رپورٹ خود ہی دیکھ لیجیے۔ اب حیران ہونا چھوڑیے اور یہ سوچنا شروع کیجیے کہ کیا ہمارے دماغوں میں کوئی کمی ہے جو یہ خیال ہمارے یہاں کے انجینئروں کو نہیں آیا؟

علیم احمد

علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

منظر وحید Oct 20, 2014 02:22pm
بہت ہی عمدہ. آپ کی مزید تحریروں کا انتظار رہے گا.
عامر شہزاد Oct 21, 2014 12:14am
کہیں یہ ڈسچارج بھی منٹوں میں تو نہیں ہو گی :)
انیس Oct 22, 2014 09:45am
بہت خوب جناب امید کرتا ہوں کہ آپ کی مزید تحاریر یہ پڑھنے کو ملیں گی۔ بہت ہی ہلکے پھلکے انداز میں مشکل چیزیں بھی بیان کردی ہیں آپ نے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024