مصباح کے بعد کون؟
وہی ہوا کہ جس کا خدشہ تھا، پاکستان آسٹریلیا کے خلاف نہ صرف ون ڈے سیریز ہارا بلکہ ساتھ ہی ایک نئے بحران سے بھی دوچار ہوگیا، وہی بحران کہ جس کی جانب پہلے ہی اشارہ کردیا گیا تھا کہ اگر کپتان بدلنا ہے تو آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے پہلے ہی بدل دیا جائے بصورت دیگر موجودہ اور آنے والے دونوں کپتان "بہت بے آبرو ہوکر" نکالے جائیں گے۔
اب جبکہ ورلڈ کپ کے آغاز میں صرف چار مہینے رہ گئے ہیں، 2011ء کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ آخری بار بھی "مصباح یا آفریدی" کی بحث ورلڈ کپ سے پہلے ہی تمام ہوئی تھی اور قرعہ فال شاہد خان کے نام نکلا تھا جن کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح سیمی فائنل تک پہنچی اور حتمی چیمپئن ہندوستان کے ہاتھوں شکست کھا کر باہر ہوگئی۔
اب "واقعات و بیانات کی روشنی" میں ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ وہی اسکرپٹ دہرایا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں "گو مصباح گو" کے نعروں کے بعد مصباح کا پاک-آسٹریلیا سیریز کے تیسرے ون ڈے سے دستبردار ہونا اور فارم بحال نہ ہونے کی صورت میں عالمی کپ میں قیادت نہ کرنا جیسے بیانات یہی ظاہر کررہے ہیں۔
گو کہ 12 اکتوبر کی یہ ایک اور "بغاوت" مصباح کی خوش قسمتی سے کامیاب نہ ہوسکی اور پاکستان کپتان کی تبدیلی کے باوجود تیسرا ون ڈے نہ جیت سکا لیکن مصباح، شہریار خان اور شاہد آفریدی کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب موجودہ کپتان کے لیے حالات سازگار نہیں رہے۔
گزشتہ تین سالوں کی ملی جلی کارکردگی کے بعد دراصل یہ رواں سال کھیلے گئے 11 ون ڈے میچز ہیں جنہوں نے پورا منظرنامہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ورنہ یہی مصباح الیون تھی جس نے پچھلے سال ہندوستان اور جنوبی افریقہ کو انہی کے ملکوں میں سیریز ہرائیں اور رواں سال بھی ایشیا کپ کے فائنل تک پہنچا لیکن دورۂ سری لنکا اور اس کے بعد آسٹریلیا کے خلاف شکست نے مصباحی دورکا تقریباً خاتمہ ہی کردیا ہے۔
اب کیا ہوگا یا کیا ہونا چاہیے؟ جذبات اور کسی خاص کھلاڑی سے وابستگی کے بغیر دیکھا جانا چاہیے کیونکہ آگے ورلڈ کپ کا معاملہ ہے۔ اگر مصباح کا جانا طے ہوچکا ہے تو پاکستان کے لیے سب سے بہتر یہی ہوگا کہ یونس خان کو ایک روزہ کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا جائے۔
اس کی ایک وجہ تو یونس خان کا شاندار قائدانہ کیریئر ہے کہ وہ 2009ء میں پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کا عالمی اعزاز بھی جتوا چکے ہیں، لیکن وہ انتہائی تجربہ کار بھی ہیں اور مزاج آشنا بھی۔ ان کے بارے میں یہ تاثر بھی نہیں پایا جاتا کہ وہ "سازشی" ہیں بلکہ وہ ایک اصول پسند شخصیت کے طور پر معروف ہیں۔
اس لیے اگر ورلڈ کپ میں مصباح کے علاوہ کسی اور کو کپتان بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے تو اس کے لیے موزوں ترین امیدوار یونس خان ہی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز سے انہیں خارج کر کے جو بے وقوفی کی ہے اس کا خمیازہ تو پاکستان کو بھگتنا ہی پڑا ہے لیکن پاکستان عالمی کپ میں دوبارہ ایسی کارکردگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
پھر یہ بات بھی مدنظر رہے کہ اگر شاہد آفریدی کو دوبارہ ون ڈے کپتان بنایا جاتا ہے تو ان کے موجودہ ہیڈ اور وقار یونس کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ ماضی میں جب دونوں انہی عہدوں پر فائز تھے تو دورۂ ویسٹ انڈیز 2011ء میں ان کی چپقلش نہ صرف پاکستان کی شکست کا باعث بنی تھی بلکہ شاہد آفریدی کا اپنا بین الاقوامی کیریئر بھی داؤ پر لگ گیا تھا۔
وہ تو بھلا ہو کہ اعجاز بٹ کا عہد اور وقار یونس کی کوچنگ کا دور مکمل ہوا ورنہ شاہد آفریدی ابھی تک ٹیم سے باہر ہی بیٹھے ہوتے۔ اس ماضی کو نظر میں رکھیں تو شاہد آفریدی کو ایک مرتبہ پھر ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کا کپتان بنانا ہرگز ٹیم کے لیے فائدہ مند نہیں دکھائی دیتا۔
ورلڈ کپ سے صرف چار مہینے پہلے کپتان بدلنے کی حمایت کوئی ذی شعور نہیں کرسکتا، کیونکہ اب 15 فروری کو ہندوستان کے خلاف ایڈیلیڈ میں اپنے پہلے ورلڈ کپ میچ اور پاکستان کے درمیان صرف 7 ایک روزہ مقابلوں کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ لیکن اس وقت کپتان تبدیل کرنے کے غیر دانشمندانہ فیصلے کے مضر اثرات کو ایک اچھے فیصلے سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے اور وہ فیصلہ یونس خان کی تقرری کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
موجودہ صورت حال، بلکہ اسے ' بد صورت حال' کہنا زیادہ مناسب ہوگا، کو چند حلقے زوال کی اتھاہ گہرائی اور بحران کی آخری حد سے تعبیر کررہے ہیں تو کچھ کو امید کی کرن نظر آرہی ہے اور وہ اسے حالات کے سنبھلنے کا نقطہ آغاز سمجھ رے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب معاملہ پاکستان کرکٹ کا ہو تو کوئی بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ زمبابوے کے خلاف شکست کھانے کے ایک ہفتے بعد ہی عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ کو چاروں شانے چت کرنے والے پاکستان کے کھلاڑیوں سے کچھ بھی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ 29 مارچ 2015ء کو ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے والا پاکستان کا کپتان ہی ہو؟