پاکستان اور لبرل ازم
اپنے قیام سے ہی پاکستان مذہبی اعتبار سے ایک قدامت پسند (کنزرویٹو) ملک رہا ہے جہاں مذہب نے سیاست کو شکل و صورت دینے، پالیسی سازی، اور معاشرے میں مخصوص رجحانات کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
لیکن عقل و دانش پر قدامت پسندی کے اس غلبے کے باوجود آزاد فکر رکھنے والا لبرل طبقہ بھی اقلیت میں موجود رہا ہے جس نے اظہارِ خیال کے اپنے حق کو زبانی اور قلمی طور پر کافی بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کا پرچار کیا ہے۔
لیکن پاکستان میں اب ایک مدت سے لبرلز کے لیے عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے، اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست اب زور پکڑتی جارہی ہے، جو خود پر سوال اٹھائے جانے کو بالکل برداشت نہیں کرتی۔
آپ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ پاکستان اور لبرل ازم کیوں ایک دوسرے سے اتنے تضاد میں ہیں، اور یہ بھی کہ کیوں معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے لبرلز کو گمراہ قرار دیا جاتا ہے۔
اصل میں یہ مقابلہ ملک کے طاقتور حلقوں کے درمیان ہے، جنہیں بالواسطہ یا بلاواسطہ ریاست کے اندر موجود کچھ عناصر استعمال کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے بیرونی جارحیت سے دفاع کے نظریے کا پرچار کیا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت یہ عناصر خود بھی خطرناک عزائم رکھتے ہیں، اور قومی اداروں کو اپنے انہی خطرناک مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مشرف اور ایوب دور کے علاوہ اگر دیکھا جائے، تو ریاست کے لیے سب سے پسندیدہ شہری وہ تھا، جو مذہبی طور پر قدامت پسند، انڈیا سے نفرت کرنے والا، اور ترقی کے بجائے سیکیورٹی چاہنے والا ہو۔
لیکن یہ سب چیزیں لبرل اقدار کے خلاف ہیں۔
تعلیم کو اہداف کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ کئی دہائیوں تک ملکی تعلیمی اداروں نے ایک ایسے مائنڈسیٹ کو بڑھاوا دیا ہے کی بنیاد پڑوسی ملک انڈیا سے نفرت پر قائم ہے۔
اس لیے جب ایک چوتھی کلاس کے بچے کی سوشل اسٹڈیز کی کتاب اسے برصغیر کی تاریخ "انڈیا کے پاکستان کے خلاف شیطانی عزائم" کہہ کر پڑھائے گی، اور اس کے ذہن میں اس بات کو راسخ کرے گی کہ کچھ ریاستی ادارے ہمیشہ درست ہیں بھلے آئین کچھ بھی کہتا ہو، تو کل اگر وہ بچہ انڈیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بات سن کر آپے سے باہر ہوجائے تو یہ بالکل بھی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ نہ صرف یہ کہ اس کے لیے یہ بات ابنارمل ہوگی، بلکہ وہ اسے گستاخی ہی سمجھ بیٹھے گا۔ پاکستان کے دفاعی رجحانات پر نظرِ ثانی غداری، اور سیکیولر اقدار کو پروان چڑھانا اسلامی جمہوریہ پر حملہ تصور کرے گا۔
جب تنقیدی سوچ کو قبول نہیں کیا جائے گا، اختلاف برداشت نہیں کیا جائے گا، اور ایک مخصوص نظریے کو میڈیا کی مدد سے نسل در نسل پروان چڑھایا جاتا رہے گا تو قدرتی طور پر کسی بھی قوم کی وہی حالت ہوگی جو ہماری آج ہے۔
لبرل خیالات گستاخی کہلاتے ہیں اور حالات کی صرف ایک مخصوص انداز میں تشریح کو ہی سچ قرار دیا جاتا ہے، اور اس تشریح کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے، چاہے وہ نظریہِ پاکستان ہو، متنازعہ آٹھویں آئینی ترمیم ہو، دوسری ترمیم ہو، یا ریاست کے اندر ملٹری کا اثر و رسوخ ہو، سچ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستانیوں کو خود کو یہ بات یاد دلانی ہوگی، کہ کنزرویٹو ہونے کو قبول کیا جاسکتا ہے، لیکن انتہاپسندی قابلِ قبول نہیں۔
لبرل ازم کی مخالفت انتہائی منظم ہے۔ ریاست نے یہ چاہا تھا، اور کچھ ہی وقت میں اس نے کنزرویٹو اقدار کو استعمال کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔
تو نتیجتاً کیا پاکستان طویل مدت میں صحیح سمت میں رہا ہے؟
ریاست کو انتہاپسندی کے خلاف جو داخلی جنگ درپیش ہے، اسے دیکھ کر تو لگتا ہے، کہ "نہیں"۔
تبصرے (2) بند ہیں