• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

سول سروس کی تعمیر نو

شائع October 29, 2014
ہمارا ریگولیٹری نظام ان پٹ پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں اور آﺅٹ پٹ اور نتائج کی مخالفت کرتا ہے۔
ہمارا ریگولیٹری نظام ان پٹ پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں اور آﺅٹ پٹ اور نتائج کی مخالفت کرتا ہے۔

اس کالم میں ہم سول سروس اصلاحات پر اپنی بحث مکمل کریں گے جسے میرے گزشتہ کالم (سول سروس میں اصلاحات تیس ستمبر) میں شروع کیا گیا تھا۔

ہمارے معاشی ترقی کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اس میں متوسط طبقے کو بھی ترقی کے آزاد متحرک پراسیس کا حصہ بننے کا موقع نہیں ملتا بلکہ اسے سرکاری شعبے میں ملازمت کے مواقعے پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ معاشرہ بظاہر اقتصادی ترقی کو ریاستی سرپرستی کے بغیر دیکھ نہیں پاتا، اور وہ ریاست کو ایسی طاقتور پدری ہستی سمجھتا ہے جو تمام تر خطرات سے تحفظ فراہم کرے اور مواقعے فراہم کرے، چنانچہ حکومتیں اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی احتسابی عمل سے بالاتر ہوکر خدمت کی بجائے صرف حکمرانی ہی کرتی ہیں۔

ہمارا ریگولیٹری نظام ان پٹ پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں اور آﺅٹ پٹ اور نتائج کی مخالفت کرتا ہے، علاوہ ازیں متعدد ریگولیٹرز حالیہ ضروریات کو مدنظر رکھنے کی بجائے اس سے متضاد اور غیر متعلق سوچ اپنائے ہوئے ہیں، جبکہ معیار اور اصول فرسودہ ہونے کے ساتھ یا تو واضح نہیں یا ان کا معیار اتنا اونچا ہے کہ انہیں عبور کرنا مشکل ہوجاتا ہے خاص طور پر ایسی مارکیٹ میں جس کی صلاحیت محدود ہے اور وہ اضافی اخراجات اٹھانے سے قاصر ہے۔

ان بے ڈھنگے اسلوب کار اور لامحدود اصولوں نے حکومتی اداروں کو بہت زیادہ اختیارات دے دیئے ہیں جو ان انتظامات کو صرف اس لیے ترجیح نہیں دیتے کہ اس سے انہیں اضافی اختیارات ملیں گے بلکہ اس لیے بھی کیونکہ اس سے انہیں کمانڈ حاصل ہوجاتی ہے، وہ لطیف یا اچھے رویے کے بارے میں کچھ زیادہ سمجھ بھی نہیں رکھتے۔

ان کے ریگولیٹری کردار میں کمی سے معاشرے کے لیے ان کے ناقابل برداشت کردار کی بھی روک تھام کی جاسکتی ہے، جبکہ نجی شعبے کی افادیت اور ثمرآوری کو بڑھایا جاسکتا ہے، کیونکہ کاروباری طبقےت کو اپنے آپریشنز پر توجہ دینے کے لیے زیادہ وقت مل سکے گا۔

بدقسمتی سے ڈونرز کی جانب سے بھی یکساں مشورے ہی فراہم کیے جاتے ہیں، قرض دینے والے تمام ممالک میں حجم اور مقامی ثقافت سے قطع نظر ایک جیسے اداروں کو تشکیل دیا جاتا ہے، جن میں تقرریاں بھی میرٹ پر نہیں ہوتیں۔

اس مضمون میں کی جانب والی بحث کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے حکومتی کردار کے بارے میں دوبارہ سوچنے اور وضاحت کیے جانے کی ضرورت ہے،عوامی خدمت کے لیے اس کے حجم، مہارت، زرتلافی اور سول سروس کی تربیت وغیرہ پر توجہ دی جانی چاہئے۔

اس حوالے سے بہترین وضاحت ان مثالوں سے ممکن ہے، جیسے سب سے پہلے تو اسے ریٹیل آﺅٹ لیٹس، بینکوں اور فضائی کمپنیوں اور دیگر کے انتظام سے دوری اور مالی معاونت فراہم نہ کرے، دوسری چیز یہ کہ اسے صرف دفاع، خارجہ پالیسی، مالی و زری پالیسیوں، انصاف، امن و امان اور فزیکل و سوشل انفراسٹرکچر کی مخصوص کیٹیگریز کی فراہمی اور مالی تعاون فراہم کرے جو مارکیٹ اور نجی شعبے فراہم نہیں کرسکتے، تیسری چیز یہ کہ حکومت ادائیگیاں تو کریں مگر انتظام سنبھالنے سے دور رہے۔

ان شعبوں اور خدمات کی نشاندہی ہونی چاہئے جنھیں حکومت فنڈز تو فراہم کرے مگر ان کے انتظامی معاملات سے دور رہے، جو کہ کافی مشکل ہوگا، تاہم مندرجہ ذیل مثالوں سے اس نکتے کی اہمیت کو ثابت کیا جاستکا ہے۔

یہ ریاست کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو مفت، معیاری ابتدائی تعلیم فراہم کرے، جس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ حکومت کو تعلیم پر لازمی خرچ کرنا چاہئے مگر اس مطلب یہ نہیں کہ حکومت یہ خدمات خود فراہم کرے۔

یہ مصنف پہلے بھی اپنے ان کالموں میں دکھا چکا ہے کہ بہتر معیاری تعلیم سرکاری اسکولوں کی بجائے نجی اسکولوں کے ذریعے بھی چار سو روپے فی بچہ کے حساب سے فراہم کی جاسکتی ہے (جو کہ سرکاری اسکولوں کے نظام پر ایک بچے کی تعلیم پر آنے والی لاگت کا نصف ہے)، اس مالی معاونت کو بچے کی کارکردگی سے مشروط کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہا جاچکا ہے کہ موجودہ ریگولیٹری فریم ورک کے بڑے حصے میں حکومتی کردار زیادہ شفاف نہیں، جس میں ایسی صلاحیتوں کو ملازمت کے مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں جن کی مارکیٹ میں مانگ نہیں اور نہ ہی وہ فائدہ مند ہوتی ہیں، نئی مصنوعات اور انسٹرومنٹس ادارہ جاتی انتظامات اور اصولوں کے نفاذ کے لیے زیادہ بہتر متبادل اور موثر میکنزم فراہم کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر صوبائی بوائلر ایکٹس 1923 اس بات کی امید کرتا ہے کہ گریڈ 11 کا بوائلر انسپکٹر بوائلرز بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسے سیمنز کے کام کی تصدیق کرے گا، مگر جدید ترین ٹیکنالوجی والے بوائلرزکے معاملے میں یہ پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے عاری انسپکٹرز ریگولیٹری ٹاسک کو پورا کرنے کے لیے اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔

اسی طرح حکومت کے پاس بلڈنگ اور الیکٹرک سٹی انسپکٹرز موجود ہیں جن کی ذمہ داری عوامی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی نجی عمارات جیسے سینما ہاﺅسز میں لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، یہ نگران افراد بوائلرز اور عمارت کے معاملے میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں اور انہیں جامع طور پر انشورس سے کور کیا جاسکتا ہے، اس طرح مالکان ان سرکاری ملازمین کی جانب سے اکثر دوروں یا چھاپوں سے بچ سکیں گے، انشورنس کمپنیاں ان بوائلرز اور عمارات میں عوام کی سیکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنائیں گی۔

یہ مثالیں مقاصد کے حصول کے حوالے سے ریگولیٹری آلات کے جواز پر سوالات اٹھاتی ہیں کہ ان کے مقابلے میں مارکیٹ میں دستیاب دیگر ادارہ جاتی انتظامات اور آلات وغیرہ زیادہ موثر اور افادیت فراہم کرتے ہیں، دیگر الفاظ میں حکومتی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کے کردار اور کاروبار کے لیے اس کے طریقہ کار کا دوبارہ تعین کیا جائے۔

اسی طرح بھی متعدد خدمات کے انتظامات میں سستی تجاویز پر کام ہونا چاہئے، مثال کے طور پر حکومتی دفاتر میں روزانہ کی بنیاد پر صفائی کا کام سرکاری کلینرز کی فوج کی بجائے کمپیوٹرائزڈ سی اے ڈی سروسز کی مدد سے بھی سرانجام دیا جاسکتا ہے جو کہ نجی شعبے میں دستیاب ہے۔

سرکاری اداروں میں رائٹ سائزنگ(اٹھارویں ترمیم کے تحت) بھی حکومتی کارکردگی کو بہتر کرسکتی ہے، بس سرکاری ملازمین کی تعداد کو مختلف تہوں کے طریقہ کار سے گزار کر کم کرنا ہوگا، مزید کامیابیاں بھی غیرضروری ٹاسکس ، قریبی یکساں فنکشنز، وسائل اور ذمہ داریوں کی صفائی یا اخراج سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

بحث کا اختتام اس بات پر کرتے ہیں کہ حکومت کو جدید گلوبلائز معیشت کی طلب سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سوچ میں اختراع کی ضرورت ہے، تاکہ نجی شعبہ مسابقتی میدان میں اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے عالمی سطح پر تسلیم کی جانے والی ٹیکنالوجیز، پروڈکشن تیکنیکس اور انتظامی مشق کو اپناسکیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت جس کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ نجی شعبے کے آپریشنز کو سہولت فراہم کرے گی اور اس کے رنگ ڈھنگ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالے گی، مگر نظر ایسا آتا ہے کہ وہ اپنی صلاحٰتوں اور کام کے طریقے کار میں بھٹک کر رہ گئی ہے۔

یہ بڑا تضاد یقیناً ناقابل برداشت ہے، اور یہی وہ اہم عنصر ہے جو بیوروکریسی کی فیصلہ سازی کے خراب معیار کا باعث بن رہا ہے، ادارہ جاتی اسٹرکچر اور طریقہ کار میں جدت کو نظرانداز کرنا اقتصادی شرح نمو کی رفتار میں اضافے کی اشد ضرورت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

اس پر بیوروکریسی کے حجم اور صلاحیت کی بنیاد میں ردوبدل کے بغیر قابو پانا ممکن نہیں، جس کے 45 فیصد اراکین مسابقتی دنیا کی ضرورت سے ہم آہنگ فنکشنز سے ناواقف اور صلاحیت میں تبدیلی کے لیے غیرموزوں ہیں۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024