ڈاکٹر سلام کا خط، ملالہ کے نام
پیاری ملالہ
جو کچھ بھی ہوا، اس کے باوجود میں نے ہمیشہ امید کا دامن تھامے رکھا ہے۔ وہ مجھے پاکستان کا واحد نوبل انعام یافتہ کہتے تھے، میرا اصرار تھا کہ مجھے 'پہلا' کہا جائے۔
میں سنتوخ داس نام کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا، جو آپ کی خوبصورت وادی سوات جتنا حسین نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ ایک اچھی جگہ تھی۔ میں جھنگ میں پلا بڑھا، جس کو اب خطرناک تنظیموں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
میرے والد پنجاب حکومت کے محکمہ تعلیم میں افسر تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے والد کو ان کی شخصیت ضرور پسند آتی۔
آپ ہی کی طرح مجھے پڑھائی میں بے حد دلچسپی تھی۔ مجھے انگلش اور اردو ادب سے بہت لگاؤ تھا، لیکن میتھمیٹکس میں میری کارکردگی بہت اچھی تھی۔ بہت ہی کم عمری میں میں نے اپنے میٹرک کے امتحان میں اتنے مارکس حاصل کیے، جو مجھ سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیے تھے۔
لیکن میری تعلیم آپ کی تعلیم کی طرح مشکلات سے پر نہیں تھی۔
مجھے نہ ہی اسکولوں کو دھماکوں سے اڑاتے طالبان کا سامنا کرنا پڑا، اور نہ ہی تعلیم پر کسی پابندی کا۔ لیکن آپ کی راہ میں جو بھی روڑے اٹکائے گئے، آپ نے کامیابی کے ساتھ ان کو اپنی راہ سے ہٹا دیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اپنی ہر سانس کے ساتھ ان لوگوں کو شکست دیے جارہی ہیں۔
پڑھئے: ملالہ یوسفزئی ۔ امید کی ایک چھوٹی مگر روشن کرن
آپ کو نوبل پرائز ملنے پر سب سے زیادہ غصے میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ پر حملہ کر کے آپ کی زندگی کا خاتمہ کردینا چاہا تھا۔ اس غصے میں آپ کے کئی ہموطن بھی شریک ہیں۔
اس سب سے گزرنے کے لیے بہت ہمت درکار ہوتی ہے، اور میں جانتا ہوں کہ آپ کے پاس ہمت کی کوئی کمی نہیں ہے۔
اس ملک میں زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ آپ کا مذاق اڑایا گیا، آپ کو اجنبی اور غیر قرار دیا گیا، جبکہ آپ کی کوئی غلطی بھی نہیں تھی۔
میں اس بارے میں جانتا ہوں۔
بحیثیت قوم ہم خوشیاں حاصل کرنا نہیں چاہتے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر رحم کیا جائے۔
یہ لوگ تب تک خوش تھے، جب تک آپ متاثر ہونے والی ایک اور مقامی لڑکی تھیں۔ لیکن آپ نے پھر متاثر ہونے کے لیبل کو جھٹک کر خود کو پوری دنیا میں لڑکیوں کے لیے امید کی کرن کے طور پر منوایا۔ اور یہی وہ مقام تھا جہاں آپ نے انہیں کھو دیا۔
ملالہ، ہمیں ہیروز پسند نہیں ہیں۔
ہمیں صرف متاثر اور پسے ہوئے لوگ پسند ہیں جنہیں ہم دکھاوے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔
ہم صرف اور صرف برِصغیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی سچی جھوٹی کہانیاں بنا کر بیرونی طاقتوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرے، کہ اقبال نے جو جنت تصور کی تھی، اس کو بیرونی سازشوں نے نقصان پہنچایا ہے، لیکن جو اندرونی عناصر اس میں ملوث رہے ہیں، ان کے کردار پر ہم کوئی بات نہیں کرتے۔
ہم اپنے اندر موجود نفرت انگیز رویوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ میں اس کا مزہ لے چکا ہوں۔
مجھے اس بات کا اندازہ تب نہیں ہوا تھا جب مجھے نوبل انعام ملا۔ خالص مغربی لباس میں ملبوس دوسرے لوگوں کے درمیان جب میں روایتی پنجابی پگڑی سر پر سجائے نوبل انعام وصول کر رہا تھا، تو مجھے اپنے ملک کی نمائندگی کرنے پر فخر تھا، لیکن میرے ملک کے لوگوں کو اس بات سے کچھ خاص خوشی نہیں پہنچی تھی۔
جانئے: ڈاکٹر عبدالسلام: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
مجھے برا بنا کر پیش کیا گیا، اور بعد میں میرے مذہبی عقائد کی وجہ سے مجھے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ کئی یونیورسٹیوں میں تشدد کے خطرے کی وجہ سے میرے لیکچر دینے پر پابندی عائد کردی گئی، میرے کام کو میرے لوگوں نے ذرہ برابر بھی اہمیت نہ دی۔
میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی اجنبی ملک میں اجنبی بن کر رہنا اور کام کرنا اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر رہنے اور کام کرنے سے بہتر ہے۔ لیکن میرے اس فیصلے نے مجھ پر ملک سے غداری کا لیبل لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ملالہ، اب آپ کی باری ہے۔
اب آپ نئی غدارِ وطن ہیں۔
اب آپ پر یہ ذمہ داری ہے کہ آپ اس ملک میں امن اور فخر اور خوشیاں لائیں، جو یہ سب کچھ نہیں چاہتا۔
لیکن ایک نافرمان بچہ چاہے کتنی بھی نافرمانی کرے، ایک ماں اس کو کبھی بھی نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح یہ لوگ آپ کو بھی قبول نہیں کریں گے۔ لیکن امید کرتا ہوں کہ ایک دن سمجھ جائیں گے۔
کوئز: آپ ملالہ کو کتنا جانتے ہیں؟
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں اس ملک کا پہلا نوبل پرائز ونر ہوں۔ اب ایک سے دو ہوچکے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ گنتی بڑھتی ہی جائے گی۔
فقط آپ کا۔
عبدالسلام
تبصرے (24) بند ہیں