• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟

شائع October 17, 2014
ضیا دور میں کوڑوں کی سخت سزائیں بھی پارٹی کارکنوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور نہ کرسکیں — فوٹو بشکریہ www.ahmerjamilkhan.org
ضیا دور میں کوڑوں کی سخت سزائیں بھی پارٹی کارکنوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور نہ کرسکیں — فوٹو بشکریہ www.ahmerjamilkhan.org

ضیاء الحق کے مارشل لا لگانے اور ذوالفقارعلی بھٹو کے احمد رضا قصوری پر مبینہ قاتلانہ حملے (جس میں وہ بچ گئے اور ان کے والد ہلاک ہوئے) کے مقدمے میں گرفتار ہونے کے بعد سے وقتاً فوقتاً یہ سوال ملک کے دانشوراور سیاسی حلقوں میں گردش کرتا رہتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟ لاتعداد بار پیپلز پارٹی کے خاتمے کی سرگوشیاں سننے میں آتی رہی ہیں۔ اس سوال کا جواب عموماً ہاں میں نکلتا ہے، اور سرگوشیوں پر بھی سنجیدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ مگر وقت آنے پر حقائق ہمیشہ یکسر مختلف رہے ہیں۔

فوجی آمر ضیاء الحق اور اس کا ساتھ دینے والوں کو بھی بھٹو کے جیل میں ہونے کے بعد یہ خوش فہمی لاحق تھی کے قیدی بھٹو کمزور ہوتا جائے گا مگر ان کی یہ خوش فہمی زیادہ دن تک برقرار نہ رہ سکی کیونکہ ملک میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ہمدرد سختیوں اور کوڑوں کی سزاؤں کے باوجود "جئے بھٹو" کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کے ڈر سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو تالے لگائے جا رہے تھے۔ جہانگیر بدر نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پورے ملک میں وہ شخص تھا جسے سب سے پہلے کوڑوں کی سزا ہوئی اور وہ ہر کوڑے پر "جئے بھٹو" کا نعرہ لگاتا رہا، اور بعد میں تھوڑی ہی دوری پر کھولی میں قید ذوالفقارعلی بھٹو نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ یہ کوڑے تمہارے جسم پر نہیں، مجھ پر برس رہے ہیں۔

جس وقت ملک میں بھٹو کی مقبولیت میں کمی کے دعوے کیے جا رہے تھے، تو اس دوران 7 فروری 1979 کو نیو یارک ٹائمز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "بھٹو فوجی بغاوت سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں"۔

ذوالفقارعلی بھٹو نہ صرف پاکستان میں ایک مقبول ترین لیڈر تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی مقبولیت کو تسیلم کیا جاتا تھا جس کی مثال "فار ایسٹرن اکنامک ریویو" کے 16فروری 1979 کے اس اداریے سے لی جا سکتی ہے جس میں وہ امریکا کے 41 ویں نائب صدر نیلسن راکفیلر کے ایک جملے کا حوالہ دیتے ہیں کے نیلسن نے بھٹو کے بارے میں کہا تھا "خدا کا شکر ہے کہ میرا کسی انتخاب میں ان سے مقابلہ نہیں ہوا"۔

اس کے باوجود بھی ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کے سکڑنے کی خبریں گردش کر رہی تھیں اور پیپلز پارٹی کے مخالف یہ سمجھ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ختم ہونے کو ہے، اسی وجہ سے بھٹو کو سزائے موت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی مخالفین نے مٹھائیاں بانٹنا شروع کر دی تھیں۔

لیکن ان سب گردشی خبروں کے برعکس بین الاقوامی میڈیا بھٹو کی مقبولیت میں اضافے کی خبریں اور اداریے چھاپ رہا تھا۔ 16 فروری 1979 کو "ایشیا ویک" کی رپورٹ کے مطابق پاکستان قومی اتحاد میں شریک ایک اہم مذہبی جماعت کے کارکن بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر مٹھایاں بانٹ رہے تھے اور شکرانے کے نوافل ادا کر رہے تھے، مگر اس کے دو دن بعد 18 فروری کو لندن کے مقبول جریدے گارجین نے لکھا تھا کہ پاکستان میں "ایسے انتخابات کبھی نہیں ہوں گے کہ جس میں بھٹو کو آزادانہ طور پر مسترد کردیں، یہ بھوت کبھی دفن نہ ہو گا"۔

پی این اے کے سربراہ مفتی محمود نے بھٹو کو پھانسی ہونے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "پاکستان پیپلز پارٹی بھی بھٹو کے ساتھ مر گئی" لیکن اگر ایسا تھا تو بھٹو خاندان کی دو عورتیں کیوں رہا نہیں کی جا رہی تھیں؟ اور 27 اپریل 1979 کی "فار ایسٹرن اکنامک ریویو" کی رپورٹ نے مفتی محمود کے پیپلز پارٹی کی موت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ "محمود کے دعوے کے برعکس عوام میں پیپلز پارٹی کی حمایت اب بھی برقرار ہے"۔

غور و فکر کرنے والے ہمدردوں کو یقین ہے کہ اگر غیر متوقع طور پر پی پی پی کے رہنما اور کارکن رہا کر دیے جاتے ہیں اور 17 نومبر کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے تو یقینی طور پر پارٹی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ جائے گی"۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مختلف اوقات میں یہ دعوے سننے کو ملتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ہے یا سکڑ رہی ہے، لیکن تاریخی طور پر ایسے دعوے ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوتے آئے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو کی جلا وطنی میں بھی ایسی ہی سرگوشیاں سننے کو ملتی تھیں اور مشرف کا ساتھ دینے والے کئی سیاسی وڈیرے اس قسم کے دعوے کرتے ہوئے نظر آئے مگر 18 اکتوبر 2007 کو جب بینظیر بھٹو وطن واپس لوٹیں تو لاکھوں کے مجمعے نے سیاسی پنڈتوں کے پیپلز پارٹی کے انتم سنسکار کی خواہش کو ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ اور پیپلز پارٹی کا ختم قرار دیا جانے والا باب پھر سے کھل گیا۔

پیپلز پارٹی کے سکڑنے اور علاقائی پارٹی میں تبدیل ہونے کے دعوے آج بھی ہماری سیاسی فضا میں موجود ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے غیر ممکنہ شکست کے بعد سے ایسی سرگوشیوں نے زور پکڑا اور تحریک انصاف کے دھرنوں کے بعد ان میں مزید تیزی آئی۔ جبکہ بلاول بھٹو ذرداری کے معافی نامے سے کئی سیاسی مخالفین کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔

اس معافی نامے کا مقصد اگر کوئی سمجھتا ہے کہ باغی کارکنان کو اسٹاپ کا اشارہ دینے کی ناکام کوشش ہے تو وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ میرے خیال سے یہ معافی نامہ پیپلز پارٹی کے کارکنان میں صور پھونکنے کے مترادف ہے۔ ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے کارکنان کو یہ اشارہ دینا ہے کہ میں میدان میں آ گیا ہوں۔

دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری کا لاہور میں ڈیرے ڈالنا اور پارٹی کے مقامی رہنماؤں سے ملاقاتیں اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کی واپسی اور پارٹی کو متحرک کرنے میں سنجیدہ ہو گئی ہے۔ کیونکہ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی اہم اور سینئر رہنماؤں کو گزشتہ دور میں نظر انداز کیے رکھا اور اب وہ اپنی غلطی کو درست کرنے میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں، کیونکہ پارٹی کی قیادت جانتی ہے کہ پنجاب میں حمایت حاصل کرنے کے سوا اقتدار ممکن نہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں اپنا پتہ پھیکنے کی مکمل تیاری بھی کر لی ہے اور یہ پتہ پیپلز پارٹی کے لیے یقیناً کارگر ثابت ہو گا۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کے خاتمے کا سوال ہے تو وہ اس کے بانی نے اپنی حیات میں ہی شاید یہ الفاظ پیپلز پارٹی کے خاتمے اور بھٹو کی گمنامی کی خبروں کی گردش کو ہی سامنے رکھتے ہوئے کہے تھے کہ "میں موت کی کوٹھری میں مرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا"۔

فار ایسٹرن اکنامک ریویو نے 16 فروری 1979 کو لکھا تھا کہ " بھٹو پھانسی پر موت سے ہمکنار ہوں یا جیل میں گھل جائیں، مگر بھٹو ازم جاری رہے گا" اس کی یہ پشنگوئی ابھی تک صحیح ثابت ہوتی آرہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھٹو کی تلوار کا سایہ ابھی تک پاکستان پر منڈلا رہا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔

تنویر آرائیں

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

Sharminda Oct 17, 2014 06:54pm
Sorry to say but it's no more Bhuttos' people party. It's now zardaris' people party.
Yusuf Awan Oct 18, 2014 02:02am
Ab awam jaag chuki hai....1979 ke reference ab valid nahi.
Kiran Momin Oct 18, 2014 03:06am
بات تو سچ ھے مگر بات ھے رسوائی کی ! میں آپ سے بلکل متفق ہوں سر، اس تجزیے کے بعد آپ پر لفافہ صحافی ہونے کے الزامات ضرور لگیں گے. لیکن جو لوگ بھی آپ کو جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے. ایک ایسا موضوع جس سے آپ کی شخصیت پر سوال بھی اٹھ سکتے ہیں ایسے موضوع کے انتخاب پر آپ کو سلام. اللہ رب العزت آپ کی حفاظت فرماٰئے.
aajiz mahar Oct 18, 2014 09:54am
پیپلز پارٹی اب رھی کھاں ھے؟ یے تو "زرداری لیگ" ھے. پیپلز پارٹی بینزیر ساھبا کے ساتھ دفن ھو گئ.
Dr.Salim Haidrani Oct 18, 2014 11:57am
There are serious draw backs in this article about the popularity of PPP and the Bhuttos. Since 1976 and now, Pakistan, People as voters and the Bhuttos have moved on. For me, a progressive and enlightened PPP was an assett for Pakistan, but Bhutto had no courage to fulfil his election promises and changed his Socialistic policies to Religious and failed to address the central problem of Pakistan which it faced like poverty, justice and equality. He was hanged but remained popular because people of Pakistan had no alternative then and they waited for his daughter Benazir Bhutto. She indulged in corruption with Zardari Sahib and compromised with the military establishment about everything. At the end of her reign, she was running empty. Benazir was killed because she compromised with the establishment and gone. Today her son, Bilawal Bhutto is coming to enter politics through the doors of PPP and still people wait for change. No because see the Indian Dynasty has also come to an end in India and South Asia. The current PPP has no economic programme and no solution for mass poverty and how to tackle the influence of the army and establishment in public democracy. I welcome Bilawal into politics but elite and Bhuttos can not change Pakistan.
Majid Ali Oct 18, 2014 02:03pm
All references in this article apply to today's environment. There are references from 1976 but we are not in 1976 it is 2014 ... so many things ar changed ... Benazir came back but what she gave to peoples of Pakistan other than corruption and Zardari. Now Zardari is bringing his son to continue his corruption until the complete destruction of Pakistan. If peoples of Pakistan still like these corrupt media then they deserve to live in this miserable situation.
Akhter Oct 18, 2014 03:01pm
No more Bhutto Party,aik Policy kay tahit usay khutum ker dya gya or us ki aakhri iejt zardari nay lagaiee,ub to cash curanay ka waqut hay.Logou ko humesha ki tarah bay waqoof bunaya ja raha hay oor wo hun rahay hain,
Unknown Oct 18, 2014 03:07pm
Bhutto was off course a GREAT LEADER ... But please try to understand now they are not working on Bhutto's agenda . Its over a years ago . Now the game is in Zardari's hand and Bilawal is his SON . Everybody knows about Zardari and his SHE son .
MOUZZAM BALUCH Oct 18, 2014 06:35pm
we want performance only those success whose believe to serve their people so late Zulfiqar Bhutto live in the heart of poor people of Pakistan but last regime of PPP under the command of Zardari not deliver to public we are living in 2014 not 70s so your analysis not valid now a days kindly realistic approach ppp no more survive in Punjab

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024