• KHI: Zuhr 12:33pm Asr 4:15pm
  • LHR: Zuhr 12:04pm Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 3:29pm
  • KHI: Zuhr 12:33pm Asr 4:15pm
  • LHR: Zuhr 12:04pm Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 3:29pm

نائنٹیز کا پاکستان - 8

شائع October 24, 2014
عمران خان -- فائل فوٹو
عمران خان -- فائل فوٹو
بینظیر بھٹو اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ہمراہ — فائل فوٹو
بینظیر بھٹو اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ہمراہ — فائل فوٹو

یہ اس بلاگ کا آٹھواں حصہ ہے۔ پہلے، دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے، اور ساتویں حصے کے لیے کلک کریں۔


وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے 26 ستمبر 1996ء کو طے پانے والی لغاری-نواز ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقتدر قوتیں ان کی حکومت اور جمہوریت کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے والد اور بھائیوں کی موت کی ذمہ دار قوتیں ان کو بھی زندہ نہیں دیکھنا چاہتیں۔

اس دوران وہ برطانیہ اور امریکا کے دورے پر روانہ ہو گئیں۔ 20 اکتوبر کو وزیر اعظم نے صدر کے مقرر کردہ پراسیکیوٹر کے آگے پیش ہونے کا عندیہ ظاہر کیا اور اسی روز وزیر مملکت برائے قانون نے پندرہویں آئینی ترمیم کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جس کے مطابق سرکاری عہدے پر فائز کوئی بھی شخص کرپشن میں ملوث ہونے کی صورت میں سزا کا حقدار ہو گا۔ نجم سیٹھی کے اداریے کے مطابق وہ ترمیم پیش کرنے کی وجہ احتساب کی خواہش نہیں بلکہ صدر اور عدالت عظمیٰ کے ججوں کو نکیل ڈالنے کا منصوبہ تھا۔ اگر وہ ترمیم منظور ہو جاتی تو وزیر اعظم کی مرضی کے مطابق صدر پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کے ارکان کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا سکتا تھا۔

27 اکتوبر کے روز جماعت اسلامی کے ارکان نے قومی اسمبلی کے باہر حکومت کے خلاف احتجاج کیا جس پر لاٹھی چارج ہوا اور آنسو گیس استعمال کی گئی۔ 29 اکتوبر کو نواز شریف نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس طلب کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ احتجاج کے طور پر اسمبلیوں سے استعفیٰ دیا جائے گا اور اس کے بعد ملک گیر ہڑتال منعقد کی جائے گی۔

5 نومبر کو صدر لغاری نے اپنی ہی جماعت کی حکومت برطرف کر دی اور تازہ انتخابات کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کے اس دور میں قومی اسمبلی نے صرف ایک قابل ذکر قانون پاس کیا جبکہ 335 صدارتی احکامات جاری کیے گئے۔ گزشتہ حکومت کے ترقیاتی کاموں جیسے موٹروے کے منصوبے کی تکمیل میں روڑے اٹکائے گئے۔ اپنے سیاسی حریفوں کو غیر پارلیمانی القابات نوازنے کا کام محترمہ نے بخوبی انجام دیا اور کبھی مہاجروں کو ’بزدل چوہے‘ تو کبھی اپوزیشن جماعتوں کو ’کمینے‘ کہا گیا۔

صدر فاروق لغاری سے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کروایا گیا جس کے تحت مخصوص علاقوں میں پولیس کی زیر نگرانی دیے گئے بیانات کو عدالت میں قابل قبول قرار دیا گیا۔ پولیس کے زیر نگرانی بیان کیسے لیے اور دیے جاتے ہیں، اس سے تو آپ واقف ہوں گے۔ اقتصادی پالیسی کے میدان میں محترمہ کے مشیران ذاتی اناؤں کے بھینٹ چڑھتے رہے اور ملک دیوالیے کی سطح پر پہنچ گیا۔

شمالی پنجاب کے اضلاع (گوجرانوالہ، شیخوپورہ، نارووال، شکر گڑھ، گجرات) میں امن و امان کی صورت حال ایک موقعے پر اس حد تک بگڑ گئی کہ کئی علاقوں میں مسلح گروہوں کے خلاف پولیس کی کارروائی ناکام ثابت ہوئی اور بہت سے دیہات ’نو گو ایریا‘ بن گئے۔ مہران بینک سے 1990ء میں خفیہ ادارے مستفید ہوئے تو 1994ء میں اسی مہران بینک کی مالی امداد کے توسط سے آفتاب شیر پاؤ، سلیم سیف اللہ اور زرداری صاحب نے سرحد اسمبلی میں ’جوڑ توڑ‘ کی سیاست کی۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بر خلاف پنجاب میں بلدیاتی نظام کو بحال نہیں کیا گیا۔ پاکستان سٹیل مل کے معاملات میں ’دولہا بھائی‘ اور ملک میں چاول کی تقسیم میں بی بی کی جانب سے بے جا مداخلت کے باعث ملکی خزانے کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان بیت المال کی جانب سے وزیر داخلہ کے نام جاری کردہ بیشتر چیک جعلی تھے اور مستحق افراد کے نام پر حکومتی جماعت کے ارکان عیش کرتے رہے۔ ملک میں موبائل فون کی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی لیکن حکومتی عہدہ داروں کے علاوہ اس کو استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

زرداری صاحب حکومت کی برطرفی کے وقت لاہور کے گورنر ہاؤس میں منظور وٹو کی حکومت ختم کرنے کی سازباز میں مصروف تھے اور وہیں سے انہیں گرفتار کیا گیا۔ صدر لغاری نے پیپلز پارٹی کے سابقہ رکن ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم کا عہدہ سونپا۔ کابینہ میں صاحبزادہ یعقوب علی خان،عابدہ حسین، شاہد جاوید برکی اور فخر الدین جی ابراہیم شامل تھے۔ نجم سیٹھی کو نگران وزیر اعظم کا خصوصی مشیر برائے احتساب مقرر کیا گیا۔ سندھ میں ممتاز بھٹو کو قائم مقام وزیر اعلیٰ جبکہ پنجاب میں خواجہ طارق رحیم کو گورنر مقرر کیا گیا۔ 18 نومبر 96 کو صدر کی جانب سے کرپشن اور بدعنوانی کی روک تھام کے لیے احتساب آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔

تحریک انصاف کا ظہور 97-1996

ان حالات میں پاکستان تحریک انصاف ایک نئی اور شفاف سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اس جماعت کے اہم کارکنان میں ماحولیاتی قانون کے عالمی ماہر ڈاکٹر پرویز حسن، نسیم زہرہ، کراچی سے ناظم حاجی (جنہوں نے بعد میں پولیس اور شہریوں کے رابطے کی تنظیم CPLC قائم کی)، بلوچستان سے اویس غنی، پشاور سے عبدالمتین (پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر) اور سوات سے ڈاکٹر فاروق (سوات میں قائم ہونے والی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جنہیں طالبان نے شہید کیا) شامل تھے۔ جماعت کے ابتدائی ایجنڈے میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ، کرپشن کا خاتمہ، انتخابات سے پہلے احتساب، بیرونی قرضوں سے نجات اور امریکی غلبے کا خاتمہ شامل تھا (یاد رہے کہ ’انتخاب سے پہلے احتساب‘ کا نعرہ مودودی صاحب اور ان کے ہم خیال کئی دہائیوں سے بلند کر رہے تھے)۔

ان مسائل کے حل کے لیے جماعت نے آٹھ کمیٹیاں تشکیل دیں جو مسائل کا حل پیش کر سکیں۔ جب عمران نے اپنی جماعت قائم کرنے کا اعلان کیا تو محترمہ بینظیر نے کہا تھا: ’کیا عمران کی جماعت اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے قابل ہو گی؟‘۔ البتہ جب اپریل 1996ء میں شوکت خانم ہسپتال میں بم دھماکہ ہوا تو محترمہ نے خود ہسپتال کا دورہ کیا اور دہشت گردی کی مذمت کی۔ اس سے قبل ہسپتال کے لیے جگہ اور ڈھائی لاکھ ڈالر نواز شریف کی حکومت کی جانب سے خان صاحب کو دیے گئے تھے۔

صدر لغاری نے 3 فروری 1997 ء کو عام انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف نے پہلی دفعہ انتخابی کارروائی میں حصہ لیا۔ انتخابی مہم کے دوران کراچی میں خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے فرمایا کہ ان کی جماعت کے منشور میں تین اہم نکات ہیں: انصاف کی فراہمی، انسانی حقوق کی ترویج اور قومی خود مختاری کا تحفظ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نکات انہوں نے اسلام سے اخذ کیے ہیں اور پاکستان کا مستقبل اسی صورت روشن ہو سکتا ہے اگر یہاں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہو جائے۔ انتخابات سے قبل دسمبر 1996 میں جنون بینڈ نے ’احتساب‘ نامی گانا ریلیز کیا، جو کہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا حصہ بنا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات سے پہلے خود خان صاحب نے بھی کبھی ووٹ نہیں ڈالا تھا۔

عمران خان نے آٹھ نشستوں پر انتخاب لڑا لیکن ایک نشست بھی جیتنے میں ناکام رہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 48 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے اور مشترکہ طور پر جماعت نے لگ بھگ تین لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ ٹی وی پر انتخابی اشتہارات میں خان صاحب نے اپنے ووٹروں سے درخواست کی تھی کہ وہ انتخابات کے روز خود ہی انتخابی مرکز پہنچ جائیں کیونکہ ان کی جماعت کے پاس ابھی اتنا سرمایہ نہیں کہ وہ سب کو مراکز تک پہنچا سکیں۔ انتخابات سے قبل انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی یا نواز لیگ کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)


حوالہ جات

Pakistan in the Twentieth Century: A Political History. Lawrence Ziring. Oxford University Press

Constiutional and Political History of Pakistan. Hamid Khan. Second Edition. Oxford University Press

ISLAMIC PAKISTAN: ILLUSIONS & REALITY by Abdus Sattar Ghazali

From Blunderland to Plunderland and Back, Najam Sethi

The Princess and the Playboy: BBC Documentary

Hospital Blast In Pakistan; Political Feud Is Heating Up (http://www.nytimes.com/1996/04/15/world )/hospital-blast-in-pakistan-political-feud-is-heating-up.html Imran Khan: the myth and the reality by Badar Alam

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024