مسلم معاشروں میں سوشل کونٹریکٹ کی بحث
کیا مسلم معاشروں میں جاری سیاسی انتشار اور بے چینی تبدیلی کی خواہش کا نتیجہ ہے؟ دوسرے الفاظ میں کیا مسلم معاشرے نئے سوشل کونٹریکٹ (عمرانی معاہدوں) کی تلاش میں ہیں؟
عسکریت پسندانہ جدوجہد مکمل طور پر موجودہ سماجی معاہدوں کو اسلامی ضابطہ حیات سے تبدیل کرنے کے لیے کی جارہی ہے ، عدم تشدد کے حامی اور روایتی مذہبی و سیاسی طاقتیں دونوںاپنے اپنے معاشروں کی دوبارہ تشکیل اور آئین میں اسلامی تصورات کی مطابقت پیدا کرنے کے اسلامائزیشن کے ایجنڈے کو لے آگے بڑھ رہے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ اسلامی طاقتیں اپنے اپنے ممالک میں جمہوریت، کنٹرول جمہوریت یا بادشاہت کے نظام سے مطمئن نہیں، کیا واقعی مسلم معاشروں میں موجود سوشل کونٹریکٹ میں مسئلہ موجود ہے یا یہ کوئی اور دباﺅ ہے جس کا مسلم معاشرے اس انداز میں جواب دے رہے ہیں؟
ترقی پذیر یا ترقی یافتہ معاشروں میں انتشار کی نشاندہی کرتے ہوئے محققین عموماً تیزی سے فروغ پاتی گلوبلائزیشن کے دباﺅ اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی خواہشات جیسے عناصر کو عموماً پیش کرتے ہیں، ایسا غیر یہودی برادریوں تک حد تک ٹھیک ہوسکتاہ ے، جبکہ دیگر سماجی ساخت، مذاہب، سیاسی روایات اور ان معاشروں کے رویے کو بیان کرتے ہیں، جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں بدلاﺅ کی رفتار سے مطابقت نہیں رکھتے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی تبدیلیاں ہماری روزمرہ کی زندگی پر مثبت یا منفی انداز سے اثرانداز ہوتی ہیں۔
نئے متوسط طبقے کا ابھرنا بھی اس بحث کا ایک اور پہلو ہے، متوسط طبقات اپنے معاشروں میں سیاسی اختیار چاہتے ہیں، مسلم معاشروں میں طرز حکمرانی کے مسائل اور روایتی ڈیلیوری سسٹم کی عدم فعالی ایک اور پہلو ہے۔
یہ اور دیگر عناصر مسلم معاشروں میں ان کی ریاستوں اور دستور کے بارے میں ناراضگی بڑھا رہے ہیں۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ عناصر یعنی ساخت، داخلی یا گلوبل وغیرہ موجودہ سماجی معاہدوں یا آئین میں تخریب کاری یا تبدیلی کی ضرورت کو بڑھا رہے ہیں؟
ایک سماجی معاہدے میں کسی معاشرے میں ہم آہنگ سماجی اقتصادی اور سیاسی توازن کو یقینی بنایا جاتا ہے اور حکومت اور قوانین کی تشکیل اور ان کے عملدرآمد کے لیے ایک فریم ورک فراہم کیا جاتا ہے۔
عرب بہار کی تحریک نئے سماجی معاہدوں کی تشکیل کے حوالے سے متعدد ممالک میں کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔
معاشرے کے تمام طبقات میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکامی نے مصر کو ایک بار پھر آمرانہ حکومت کی جانب دھکیل دیا، تیونس نئے سماجی معاہدے کے حوالے سے اہم مثال پیش کرتا ہے جہاں مصر کے اخوان المسلون کے برعکس اسلام پسند حرکة النھضة نے آئین کی تیاری کے دوران شریعت کے نفاذ پر اصرار نہیں کیا اور سیکیولر جماعتوں کے ساتھ ایک اتحاد بنالیا۔
یمن کو نئے سماجی معاہدے کی تشکیل کے حوالے سے ایک مختلف چیلنج کے تجربے کا سامنا ہے جہاں کے آئین میں قبائلی اور جغرافیائی نمائندگان کے بڑھتے سوالات کا جواب دینا ہے، انڈونیشیاءاور پاکستان مسلم ممالک میں نمایاں ہیں جہاں آئینی اصلاحات کا عمل جاری ہے اور اقلیتی برادریوں کو ریاست کے سائے تلے اکھٹا اور باندھ کر رکھا گیا ہے۔
یہاں تک کہ ان ممالک کے مسلم مذہبی حلقے بھی اپنے آئینی اور جمہوری طریقہ کار کے تسلسل کے حق میں ہے، اسلام آباد میں ممتاز مذہبی علماءکے ایک حالیہ اجلاس میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ پاکستان کا آئین قومی سطح کا سماجی معاہدہ ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے جس کی ہر پاکستانی کو تابعداری کرنا چاہئے۔
علماءنے اس بات پر بھی زور دیا کہ قومی سطح کے تنازعات اور جھگڑے جو کہ کسی مخصوصی مذہبی فرقے یا برادری کی بجائے سب کے مشترکہ ہیں، کو اکثریتی رائے کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہئے، اقلیتوں کو اکثریت پر اپنی رائے تھوپنے کا حق نہیں دیا جانا چاہئے۔
اگرچہ مذہبی علماءمکمل طور پر جمہوریت کو مثال طرز حکومت تسلیم نہیں کرتے تاہم ان میں سے بیشتر کا ماننا ہے کہ یہ معاشرے میں مختلف لسانی، معاشرتی اور ثقافتی مفادات کو پرامن انداز سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کارآمد اور موثر طریقہ کار ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ علماءاس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر حکمران زیادہ ٹیکسز کا نفاذ کرکے عوام کو بغیر کسی قانونی جواز کے ان کی ادائیگی پر مجبور کرتے ہیں، تو لوگوں کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ ریاست کے خلاف کھڑے ہونے کی بجائے اپنے دفاع کے لیے پرامن راستے اختیار کریں۔
عسکریت پسندوں کی رائے مختلف ہے اور وہ اسلامی ریاست کے اپنے تصور کا نفاذ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چاہتے ہیں، آئین عسکریت پسندوں، مذہبی انتشار پسندوں، کٹر قوم پرستوں یا لسانی عزائم رکھنے والوں کے خلاف ڈھال فراہم کرتا ہے، جو معاشرے میں عدم توازن پیدا کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
مسئلہ اس وقت ابھرتا ہے جب سیاسی طاقتیں آئین سے ماورا حل پر یقین رکھنے لگتی ہیں جس سے یقیناً عسکریت پسندوں اور انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، جبکہ ان کا آئین و جمہوریت مخالف موقف مضبوط ہوتا ہے، خاص طور پر ایسے ممالک جیسے پاکستان کے تناظر میں جہاں فوجی مداخلت اور سیاسی اداروں میں فوج کی بالادستی کی طویل تاریخ رہی ہے، اس طرح کی روایات عسکریت پسندوں کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔
طاقتور اداروں اور اشرافیہ کے درمیان آئین سے ماورا اقتدار کی جدوجہد سے ایک سماجی معاہدے کے بنیادی تصور کے حوالے سے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے، عسکریت پسند اس الجھن سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں اور وہ اسے ملک کے اندر اپنی سپورٹ بیسز کو توسیع دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
عسکریت پسندوں کے دلائل کا تجزیہ کرنے سے انکشاف ہوتا ہے کہ وہ موجودہ طاقت کے اسٹرکچر میں موجود خامیوں کی بنیاد پر متبادل نظام کا مطالبہ کررہے ہیں، پنجابی طالبان کا مرکزی لیڈر عصمت اللہ معاویہ جس نے حال ہی میں دہشت گردی سے منہ موڑنے کا اعلان کیا، نے ان ہی وجوہات کی بناءپر القاعدہ اور طالبان میں شمولیت اختیار کی۔
معاویہ نے 2013 کے عام انتخابات سے پہلے میڈیا کو خطوط ارسال کیے جمہوری نظام کے بارے میں سوالات اٹھائے، جن کے بارے میں اسے لگتا تھا کہ یہ عام آدمی کو ریلیف فراہم نہیں کرتا، پاکستان میں تشدد کی کارروائیاں نہ کرنے کے اعلان کی ایک وجہ مذہبی عالمی کے درمیان مختلف معاملات جیسے پرتشدد جدوجہد، آئین، جمہوریت اور اسلام کے بارے میں چل رہی بحث بھی ہے، جس نے عسکریت پسندوں کے اندر ایک دانشورانہ چیلنج پیدا کیا ہے۔
عام طور پر جب سیاسی عناصر طاقت شیئرنگ میں اپنا حصہ لینے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو وہ براہ راست آئین پر حملہ کرتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے کے لیے ماورائے آئین اقدامات کی تجاویز پیش کرتے ہیں جن کا بنیادی طور پر آئین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس کے ساتھ ساتھ طاقتور ادارے، جو کہ پاکستان میں فوج ہے تاہم عدلیہ نے بھی تاخیر سے خود کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، سماجی معاہدے کو سبوتاژ کردیتے ہیں۔
طاقت کے توازن میں تخریب کاری ان کے مفاد میں ہوتا ہے مگر طویل المعیاد بنیادوں پر یہ ساختی مسائل کا سبب بنتا ہے، اور یہی متعدد مسلم ممالک کے زوال کا بنیادی عنصر ہے۔
مسلم ممالک خصوصاً پاکستان اپنے آئین میں تخریب کاری کا متحمل نہیں ہوسکتے، کیونکہ سماجی عدم توازن، تشدد اور انتہا پسندی میں اضافے نے صورتحال کو مکمل طر پر تبدیل کردیا ہے، جس کا اظہار بنیاد پرستوں نے اظہار بھی کیا ہے کہ وہ بغیر کوئی بڑی قیمت ادا کیے بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
لکھاری ایک سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں۔