• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:28pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:28pm

ہٹ دھرم ذہنیت

شائع October 9, 2014
نوازشریف  یہ سمجھنے سے قاصر ہیں آخر کیوں لوگ ان کے خلاف احتجاج کررہے ہیں یا اس وقت انہیں ہٹانے کے خواہش مند ہیں۔
نوازشریف یہ سمجھنے سے قاصر ہیں آخر کیوں لوگ ان کے خلاف احتجاج کررہے ہیں یا اس وقت انہیں ہٹانے کے خواہش مند ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف وقت میں منجمد ذہنیت سے اس وقت بے وفائی کردی جب انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں آخر کیوں لوگ ان کے خلاف احتجاج کررہے ہیں یا اس وقت انہیں ہٹانے کے خواہش مند ہیں جب وہ اپنے اقتدار کی تیسری مدت کا آغاز ہی کررہے ہیں۔

پی ٹی آئی پاکستان پر حکمرانی کے لیے طاقت کے حصول کے قابل ہے یا اپنی باتوں کے مطابق تبدیلی لاسکتی ہے وہ ایک الگ چیز ہے اور نواز شریف کو متواتر الزامات کے ذریعے نیچے جھکانا دوسری۔

وکٹر نے ایک دفعہ کہا تھا "کوئی بھی چیز اس وقت تک ایک خیال سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتی جب تک وقت نہیں آجاتا"، اور نواز کے لیے بدقسمتی یہ ہے کہ " گو نواز گو" ان سے چپک گیا ہے۔

عوام کے جاگنے کے حوالے سے سائنسی طور پر کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی، کیا پورا فرانس اس وقت اسلحہ لے کر اٹھ گیا تھا جب فرانس میں انقلاب کا ظہور ہوا؟ کیا مجموعی امریکی ضمیر نے پلیسی بمقابلہ فرگوشن (1896) میں اس تصور ' علیحدگی اور برابر' کے تصور کو قبول کیا تھا یا صرف چھ دہائیوں بعد براﺅن بمقابلہ تعلیمی بورڈ کو غیرآئینی قرار دینے پر اسے مسترد نہیں کردیا تھا؟ کیا امریکا کو اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکار یاد ہیں جو مارٹن لوتھر کنگ سے پہلے سامنے آئے تھے؟ کیا مشرف کا انخلاء اور ججز کی بحالی اس لیے ممکن ہوئی کہ پورا پاکستان یعنی شہری اور دیہی قانون کی حکمرانی کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تھا؟

جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا احتجاج شریکف حکومت کے لیے سنجیدہ خطرہ نہیں کیونکہ شہری رجحانات کو تمام تر عوامی حلقے سراہے نہیں، احتجاج کی بنیاد پر تبدیلی کوئی ریفرنڈم نہیں ہوتی، اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں ہاں کے ووت کو شکست ہوئی، مگر ہوسکتا ہے کہ 45 فیصد آزادی کے حامی اسکاٹش باشندے حکومت تشکیل دینے کے قاب نہ ہو مگر یہ بات یقینی ہے کہ وہ کسی بھی حکومت کو تباہ کرسکتے ہیں اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو، باالفاظ دیگر حکومتوں کے خاتمے کے لیے نمبروں کی تعداد اسے تشکیل دینے کے مقابلے میں کم بھی ہو تو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔

دوسری بات یہ کہ احتجاج کے دوران عزم کی شدت لوگوں کی تعداد جتنی ہی اہمیت رکھتی ہے، پی پی پی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پرجوش و سرگرم جیالوں کو تشکیل دیا(جو غیرمشروط طور پر بھٹو اور بھٹو ازم سے جڑے ہوئے ہیں) جن پر یہ پارٹی مشکل وقتوں میں انحصار کتی ہے، گزرے برسوں میں ان جیالوں کی تعداد کم ہوئی اور عزم کی شدت بھی پہلے جیسی نہیں رہی، مسلم لیگ نواز ایک اور مرکزی جماعت ہے جس کے پاس کبھی بھی پرجوش حامی نہیں رہے جو غیرمشروط پر اعلیٰ قیادت کے پارٹی تصور (یا کرشمہ) سے جڑے رہیں۔

پی ٹی آئی نئی مرکزی جماعت ہے جس نے پی پی پی کی طرز پر جوشیلے کارکنوں کو تشکیل دیا ہے جو دنوں میں واپس آسکتے ہیں۔

ان کے جوش و ولولے کی وجہ عمران خان کا وہ پیغام ہے جو ہر اوسط پاکستانی کے دل میں تبدیلی کے حوالے سے موجود ہے اور اسی چیز نے لوگوں کو پی ٹی آئی کو اسمبلیوں میں بھیجنے کے لیے مجبور کیا۔

کسی انتخابات میں یہ سوچنا کہ ن لیگ یا پی پی پی عمران خان کی طرح لوگوں کو باہر لے آئیں حماقت سے کم نہیں، پی پی پی اور ن لیگ کے پاس اس کی کمی ہے جو پی ٹی آئی سربراہ کے پاس موجود ہے یعنی گرمجوش تعاون، روٹنگ سسٹم جس کا عمران خان دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری جماعتوں پر شکوک کا فائدہ بھی ان کو ہی مل رہا ہے۔

ایسا نظر نہیں آتا کہ نواز شریف پی ٹی آئی کے جذبات کو سمجھ پارہے ہیں، اگرچہ آج کے پاکستان کو درپیش مسائل کی ذمہ دار مکمل طور پر ن لیگ نہیں جیسا عمران خان نمایاں کرتے ہیں، یعنی وہ کہتے ہیں شریف برادران اور دیگر سیاسی کھلاڑی اس بکھرے ہوئے نظام سے فائدہ اٹھانے والے اور ملزم ہیں تاکہ اپنی لوٹ مار کو چھپا سکیں، عمران اس معاملے میں بہت کامیاب ثابت ہوئے ہیں(اپنی ناخوشگوار مگر پرجوش خطابت کی مدد سے) اور انہوں نے نواز شریف کو گزشتہ 68 برس کی تمام تر ناکامیوں کی علامت میں تبدیل کردیا ہے۔

دوسری چیز یہ کہ پی ٹی آئی کے پاس اپنے وعدے کے مطابق تبدیلی کو لانے کا کوئی قابل اعتبار منصوبہ موجود نظر نہیں آتا مگر نئے لوگوں کے ہاتھوں بیوقوف بننا زیادہ پسند کریں گے بانسبت کہ باربار پرانے لوگوں کے۔

تیسری بات یہ کہ پی ٹی آئی کے متعدد باشعور حامی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے گوناگوں مسائل شریف برادران کے جانے سے حل نہیں ہوجائیں گے، مگر عوام یہ جاننے کے باوجود کہ انہیں انصاف یا ان کے مسائل فوراً حل نہیں ہوسکتے، وہ جذبات کا اظہار چاہتے ہیں، گو نواز گو ان عام لوگوں کو اپنے مصائب اور ان تجربات جو ریاستی ناکامی کے باعث انہیں روزمرہ کی بنیادوں پر پیش آتے ہیں، کے مقابلے میں انہیں جذباتی تسکین فراہم کررہا ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ جتنے طویل عرصے سے پی ٹی آئی پی اے ٹی شریف برادران کے فوری روانگی کا مطالبہ کررہے ہیں اس لگتا ہے کہ انہیں خفیہ ہاتھوں کی حمایت حاصل ہے، متعدد افراد سول ملٹری صفوں میں کشیدگی دیکھ رہے ہیں، جس سے نواز شریف کے لیے ہمدردی پیدا ہورہی ہے، ایک بار جب فوجی مداخلت کا موقع(شارع دستور پر خونریز تصام کے دوران) ابھرا اور گزر گیا، جس سے ایک احساس پیدا ہوا کہ اگر اسکرپٹ رائٹرز بھی اس مارچ کی حمایت کرکے شریف کے انخلاءکا منصوبہ خالی مداخلت کے ذریعے بنارہے تھے، مگر اب یہ منصوبہ ختم کردیا گیا ہے، سول ملٹری صفوں میں بے معنی کشیدگی سے نواز شریف اور ان کے طرز حکومت کے لیے کچھ ہمدردی پیدا ہوئی۔

دیگر الفاظ میں متعدد افراد غیرجمہوری طاقتوروں سے جمہوری اقتدار کے تسلسل کو خطرے میں دیکھ کر نواز شریف کی حمایت کررہے ہیں، مگر مگر اب یہ خاکی وردی والے اس مساوات سے نکل گئے ہیں اور کھیل کا میدان لگتا ہے کہ شریف کے حق میں چلا گیا ہے، جو ریاستی مشینری، وسائل اور سرپرستی کے ساتھ چیلنجر عمران خان کے سامنے کھڑے ہیں۔

وزیراعظم ہاﺅس اور پارلیمنٹ کے باہر ہجوم اکھٹا کرنا یقیناً پاکستان کا بہترین جمہوری لمحہ نہیں مگر خفیہ ہاتھ حقوق کے خواہشمند پرجوش ہجوم کو پی ٹی آئی کے کراچی، لاہور اور میانوالی کے جلسوں میں لانے کے پیچھے نہیں۔ مسلم لیگ ن لگتا ہے کہ اب پاکستان کے عام لوگوں میں موجود غصے اور مخالفت کی زد میں ہے، اور اس کے نتیجے میں حالات اب سخت لگنے لگے ہیں، اور اب ہم اپنے اعلیٰ طبقے کے استحقاق کے پرغرور احساس کے بارے میں عوامی حقارت کا مشاہدہ کررہے ہیں۔

عمران خان ہماری سیاسی اشرافیہ کے غیرمنصفانہ آسائشات اور نادانیوں پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں، مگر یہ کچھ وقت تک ہی رہ سکتی ہے کیونکہ عوامی توجہ دیگر معاملات کی جانب جاسکتی ہے جیسے ہماری اشرافیہ یعنی جنرلز، ججز، بابوز وغیرہ کی طاقت، پروٹوکول، دھن دولت کی بہتات اور عیاشیاں۔

عمران خان عوامی ناراضگی کو بھڑکنے سے روک نہیں سکتے، خاکی وردی والے مداخلت نہیں کرسکتے، ججز حکومت کو تبدیل کرنے کی ترغیب نہیں دے سکتے اور نواز شریف مستعفی نہیں ہوسکتے، ہم ایک بند گلی میں پھنس گئے ہیں، مگر بدترین امر وہ ہوگا جب ن لیگ ایسے کام کریں جیسے اسے نتائج کی پروا ہی نہیں، اسے ایسا رویہ اپنانا چاہئے جو روٹھی ہوئی عوام پر اس کا اعتماد بحال کرے، عوامی بے قراری میں اضافہ اور حکومت کا کسی خول میں بند ہوکر رہنا ناقابل برداشت ہے، اسے کچھ نہ کچھ دینا ہوگا۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

بابر ستار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024