• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:49pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:49pm
شائع October 4, 2014

عید قرباں، مویشی منڈیاں اور حیرت انگیز جانور

سعدیہ امین اور فیصل ظفر

سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لئے ملک بھر کی مویشی منڈیوں میں گہما گہمی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ خریدار اور بیوپاری دونوں ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نالاں نظر آرہے ہیں، تاہم سال بہ سال جانورں کی قیمتوں میں اضافے نے قربانی کے فریضے میں تو کمی نہیں کی تاہم مہنگائی کے باعث اجتماعی قربانی کی روایت میں اضافہ ضرور کر دیا ہے۔

چونکہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا اس لیے کہیں کوئی خریدار بکروں کے دانت پرکھتا دکھائی دے رہا ہے تو کسی کی تمام تر توجہ اس کے وزن اور خوبصورتی پر ہے، خریدار تگڑے جانور دیکھ کر خوشی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن جب ان کی قیمتیں سنتے ہیں تو ساری خوشی کافور ہوجاتی ہے۔

مگر بیوپاریوں کو بھرپور توقع ہے جیسے جیسے عید قریب آئے گی خریداروں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی وہ یہ دلاسہ بھی دیتے ہیں آخری چند روز میں قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔

ساڑھے چھ سو ایکڑ سے زائد رقبے پر قائم کی گئی ایشیاء کی سب سے بڑی عارضی مویشی منڈی یعنی کراچی میں ڈیڑھ لاکھ گائے اور چالیس ہزار بکرے لائے جا چکے ہیں، مگر ہوشربا قیمتوں کے باعث اکثر لوگ صرف انہیں دیکھ کر ہی گزارا کر رہے ہیں۔

منڈی میں زیریں پنجاب اور بالائی سندھ کے اضلاع سے خوبصورت اور صحت مند مویشی فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔

بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے چارے اور مہنگے کرایوں کے باعث سستا بیچنا ممکن ہی نہیں اور اگر نہیں بکا تو مال واپس لے جانے کو ترجیح دیں گے، دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے جانوروں کے باعث اس سال سنت ابراہیمی کی پیروی مشکل ثابت ہو رہی ہے۔

مگر یہ بات ضرور ہے کہ سہراب گوٹھ میں واقع یہ مویشی منڈی رات بھر میلے کا منظر پیش کرتی ہے کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد وہاں کا رخ کرتی ہے اور صرف مرد نہیں خواتین اور بچے بھی وہاں لگتا ہے کہ پکنک منانے کے لیے آتے ہیں اور ننھے فرشتے تو والدین سے اپنے پسند کے جانور خریدنے کی فرمائش کرتے نظر آتے ہیں۔

مگر بات سہراب گوٹھ تک ہی محدود نہیں کراچی کی شاید ہی کوئی سڑک یا محلہ ایسا ہو جہاں فروخت کے لیے گائے بکرے موجود نا ہوں، شاہراہوں اور سڑکوں پر قربانی کے جانوروں کی فروخت کا کام انتظامیہ کی ناک کے نیچے ان کی مرضی سے ہو رہا ہے۔

کوئی ایک بکرے کی رسی تھامے گاہک کا منتظر ہے تو کسی نے تین چار بکرے فروخت کرنے ہیں، خواتین بھی جانوروں کی فروخت میں پیش پیش ہیں، کسی نے سڑک کنارے باقاعدہ باڑہ قائم کر دیا ہے جہاں اعلی نسل کے جانور برائے فروخت ہیں۔

خریداروں کا کہنا ہے کہ مرکزی منڈی اور سڑک کنارے منڈیوں میں قیمتیں ایک جیسی ہیں مگر وقت اور کرایہ مد نظر رکھیں تو گھر کے قریب منڈیوں سے سودا برا نہیں، تاہم کراچی کے عوام کو ملیر کی مویشی منڈی نے زیادہ متوجہ کیا ہے، ملیر کی جوکھیو مویشی منڈی جو شہر کے مضافات میں ہونے کے باوجود محفوظ اور سستے جانوروں کی خریداری کے حوالے سے شہریوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

یہاں جانوروں کی خریداری کیلئے آئے عوام کا کہنا ہے کہ یہاں شہر کی دیگر منڈیوں کے مقابلے میں قربانی کے جانور سستے ہیں، ملیر کی مویشی منڈی میں چار دیواری اور سیکیورٹی کے مناسب انتظامات بھی عوام کے اطمینان کا باعث ہیں منڈی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ سہراب گوٹھ منڈی کے مقابلے میں یہاں جانوروں کی قیمتیں پچاس فیصد کم ہیں۔

عید قرباں کی مناسبت سے قصائیوں کی بھی چاندی ہوگئی ہے نہ صرف منہ مانگے ریٹ وصول کر رہے ہیں بلکہ ان کے نخرے بھی آسمان پر ہیں۔

عیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کیلئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں بکرا منڈی قائم کی گئی ہے،عید میں کچھ ہی روز باقی رہنے کے باوجود بکرا منڈی میں ابھی خریدار کم اور بیوپاری حضرات زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ جو خریدار منڈی میں آرہے ہیں وہ بھی جانوروں کی زیادہ قیمتوں کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب بیوپاری حضرات مہنگے جانوروں کی وہی پرانی وجوہات بتاتے ہیں کہ انہیں پیچھے سے ہی جانور مہنگے مل رہے ہیں تاہم کچھ بیوپاری منڈی کے ٹھیکیدار کو بھی مہنگائی کا الزام دیتے ہیں، منڈی میں ہر طرح کے بکرے، دنبے، بیل اور گائے عید قرباں پر فروخت کیلئے لائے گئے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر مویشی منڈی کا کنٹرول سی ڈی اے نے سنبھال لیا ہے اور ٹھکیدار کا کردار ختم کر دیا گیا ہے، ڈائریکٹر میونسپل ایڈمنسٹریشن سی ڈی اے کا کہنا ہے کہ کسی بھی بیوپاری یا خریدار سے منڈی آنے کی فیس وصول نہیں کی جائے گی، تمام بیوپاریوں کو بلا معاوضہ اسٹالز فراہم کردیے جائیں گے۔ ڈی ایم اے نے کہا کہ منڈی میں پرائس کنٹرول ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوگی، سی ڈی اے کا کام صرف سہولیات اور جگہ فراہم کرنا ہے۔

ملک بھر کی طرح کوئٹہ میں بھی مویشی منڈیاں سج گئی ہیں لیکن ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مویشیوں کی نقل و حمل پر پابندی کی وجہ سے منڈیوں میں جانور نہ ہونے کے برابر ہیں مالداروں کا مطالبہ ہے کہ حکومت پابندی فوراًختم کرے۔

کوئٹہ میں اگرچہ جانوروں کی ایران اور افغانستان اسمگلنگ اور ضلع بندی کے باعث جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے جس کے باعث لوگوں کو قربانی کے لیے جانور خریدنے میں مشکلات کا سامنا ہے مگر وہیں محکمہ لائیو سٹاک کی جانب سے عوام کو ارزاں نرخوں پر جانوروں کی فراہمی کیلئے کوئٹہ میں سرکاری مویسشی منڈی لگادی گئی، جہاں تین سو پچاس روپے فی کلوگرام کے حساب جانور فروخت کیے جا رہے ہیں۔

سرکاری مویشی منڈی میں محکمہ لائیو سٹاک کے صوبے بھر کے فارمز سے مویشی لائے جا رہے ہیں جو صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ مناسب قیمتوں پر عوام کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔

مویشی منڈیوں میں جانوروں کی ادائیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں، خریدار کو لبھانے کے لئے بیوپاریوں کی اپنی جانوروں سے متعلق دلچسپ کہانیاں بھی ہیں، خاص طور شیرو بادشاہ نامی دنبہ تو شیر کی طرح چلتا ہے اور کسی سے نہیں ڈرتا، یہاں تک کہ بڑے بڑے بیلوں سے بھی ٹکر لینے سے نہیں گھبراتا۔


اسی طرح کراچی کی مویشی منڈی میں گینی نسل کی چھوٹی چھوٹی گائیں بچوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں مگر ان نایاب گایوں کی قیمتیں ان کے قد سے کہیں زیادہ بلند ہیں۔



اسلام آباد کی مویشی منڈی میں آیا ہے لحیم شحیم جھولے لال، جس کے مالک نے نخرے اٹھائے ہیں کمال، اب سال بھر کی کمائی کا ہے اس کو انتظار، پوری منڈی میں اڑتیس من سترہ کلو وزنی جھولے لال کا کوئی جوڑ نہیں۔



کراچی کی مویشی منڈی سات فٹ لمبے لمبو بیل، رحیم یار خان کے گلو بٹ نامی بیل اور گوجرانوالہ کا ٹو ان ون ڈھولو بکرا شہریوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔



مگر ان تینوں میں سب سے دھوم تو ڈھولو کی ہی ہے جو آدھا کلو دودھ پیتا ہے اور اتنا ہی دیتا بھی ہے اور اس کی قیمت پانچ لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔



دودھ دینے والے بکرے سے ہٹ کر شیر سیالکوٹ نامی بکرا تو بیلوں کا بھی مقابلہ کر رہا ہے آخر اس کا وزن پانچ من جو ہے، اس بکرے کی روزانہ کی خوراک 4 کلو دانہ اور دس کلو دودھ ہے۔



لاہور میں بھی عید الاضحیٰ کی تیاریاں جاری ہیں جہاں کی مویشی منڈی میں قربانی کے لیے دو جانور لائے گئے ہیں جن کے نام ’رستم پنجاب‘ اور ’شیر پنجاب‘ ہیں۔ جانوروں کے مالکان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان جیسے جانور پورے پاکستان میں موجود نہیں۔



مگر لاہور میں گلو بٹ کے نام کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے تاہم یہ گلو بہت شریف قسم کا بیل ہے جس کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کا رش روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔



گلو کے ساتھ لاہور میں بلو بٹ نے بھی کافی تہلکہ مچایا ہوا ہے، اس کی ادائیں اور نخرے تو کسی حسینہ عالم سے بھی کم نہیں اور منوں وزنی اس بیل کی قیمت بھی نو لاکھ روپے ہے جسے سن کر ہی لوگوں کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے مگر اس کی فلمبندی ضرور عروج پر ہے۔



پشاور میں شیرو نامی بیل نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ رکھی ہے۔



اسی طرح جانوروں کی سجاوٹ بھی پورے عروج پر پہنچ گئی ہے خاص طور پر بچے تو اپنے بکروں یا بیلوں کو سجا سنوار کر اپنے دوستوں میں اپنی ناک اونچی کرنے کے خواہش مند ہیں، شہریوں کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو سجانے سنوارنے کا عمل ایثار کے جذبے کا اظہار ہے۔


عیدالاضحیٰ محض چند دن کی دوری پر ہے اور ایسے وقت میں کانگو وائرس سے کچھ ہفتوں میں دو افراد کی ہلاکت کے بعد ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں متعدد امراض کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید فیصل محمود نے کہا کہ اس بیماری سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ویکسین نہ ہونے کی صورت میں خصوصاً جانوروں کی منڈی کا رخ کرتے وقت احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ وبائی مرض نہیں بلکہ یہ کسی جانور میں موجود کیڑے کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتا ہے، یہ دکھنے میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں جب بھی جانور خریدنے کے لیے جائیں تو بہتر ہے کہ مکمل آستینوں والی قمیض پہنی جائے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Sandhir R K Oct 07, 2014 12:15pm
Eid is an auspicious occasion to celebrate the sacrifice of a son for the good of humankind. One cannot earn salvation by sacrificing poor animals to earn brownie points with the almighty. If anything, Allaha will be angry with such persons!
Mazhar Oct 07, 2014 02:40pm
پاکستان میں عید قرباں 2014 ، چھٹیاں ، تخافر ، دکھاوا ، ڈھنڈورا ، بچوں کی تفریح و خوشی ، باربی کیو ، معاشرتی دباو، خود نماي ، تجارت ، گندگی ، تعفن ، بیماریاں ، بسار خوری ، نا جایز منافع خوری ، استحسال ، کھالوں کا دھندہ ، اور ان سب کے ساتھ ساتھ سنت ابراھیمی کی ادایگی کر کے ثواب حاصل کیا اورجنت بھی کمالي واقعی ھم عظیم قوم ھیں!
Abu Salim Oct 08, 2014 04:35am
People have forgotten the purpose of Qurbani. It is sacrifice of your loved one in the path of Allah ST. Not just buying animals and sacrificing them. This is not Qurbani this is animal slaughter. In true qurbani you must keep the animal from its child hood and develop a bond of love with the animal. Now when you sacrifice the animal you will receive the actual reward like you sacrificed some one of your own.