• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ایک سے زائد شادیوں کے مسائل

شائع October 6, 2014
ایک سے زائد شادیوں کی صورت میں انصاف کر پانا انسانوں کے بس کی بات نہیں، جس سے ذہنی پریشانی اور دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔
ایک سے زائد شادیوں کی صورت میں انصاف کر پانا انسانوں کے بس کی بات نہیں، جس سے ذہنی پریشانی اور دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔

کچھ لوگ اسے پریشان حال خواتین کے مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اگر ہر شخص چار شادیاں کر لے، تو تمام خواتین کو ایک مرد سرپرست مل جائے گا، جو انہیں سپورٹ کرے، ان کی حفاظت کرے۔

لیکن ایک سے زائد شادیوں کی حقیقت نہ اتنی سادہ ہے، اور نہ ہی اتنی ستھری۔ گذشتہ ہفتے امارات کے ایک صفِ اول کے جریدے دی نیشنل نے ایک ریسرچ کے بارے میں خبر شائع کی، جس کے مطابق زیادہ شادیوں کی وجہ سے خواتین کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچتا ہے، ان میں منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں، اور جس کی وجہ سے ان کی صحت مند اور جذبات سے بھرپور زندگی ان سے چھن جاتی ہے۔

امریکن یونیورسٹی آف شارجہ کی انگلش کی پروفیسر ڈاکٹر رعنا رداوی نے 100 ایسی عرب خواتین کا سروے کیا، جن کے شوہروں نے ایک سے زیادہ شادیاں کر رکھی تھیں۔ سروے کے نتائج کے مطابق ان میں سے کئی خواتین نظرانداز کیے جانے پر افسردہ، اور حسد کا شکار تھیں، جس سے ان کی زندگی اور ذہنی صحت کو نقصان پہنچا تھا۔ اپنے خاندان میں موجود کئی ایسی خواتین کو دیکھ کر انہوں نے ایک سے زائد شادیوں کے جذباتی نتائج پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا، جو ان کے نزدیک اس سے پہلے کسی تحقیق میں نہیں کیا گیا۔

مذہب اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایک سے زائد شادیاں کرنے کی صورت میں بیویوں کے درمیان انصاف کیا جائے، لیکن ڈاکٹر رداوی نے اپنی تحقیق میں پایا، کہ زیادہ تر مرد اس معاملے میں انصاف نہیں کرتے۔ سروے میں حصہ لینے والی کئی خواتین نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے شوہروں کو کئی کئی روز تک نہیں دیکھتیں، جب کہ وہ ان کی مالی ضروریات بھی پوری نہیں کرتے۔

کئی کیسز میں مردوں کے پاس اتنے وسائل موجود نہیں تھے، کہ وہ ایک سے زیادہ گھرانے چلا سکیں، نتیجتاً ایک عورت کو کتنا خرچہ ملے گا، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اس کا اپنے شوہر کی نظر میں کیا مقام ہے، اور ان کے باہمی تعلقات کتنے اچھے ہیں۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے ڈپریشن، غصہ، ہسٹیریا، اور دیگر ذہنی اور جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

ڈاکٹر رداوی کی تحقیق صرف خواتین پر زیادہ شادیوں کی وجہ سے ہونے والے جذباتی اثرات کا جائزہ لیتی ہے، لیکن 2010 میں ملائیشین گروپ سسٹرز ان اسلام کی تحقیق اس حوالے سے وسیع پیمانے پر ہونے والے مسائل پر توجہ دیتی ہے۔

سسٹرز ان اسلام نے یہ تحقیق اس لیے کی کیونکہ جب کبھی بھی خواتین کے حقوق کے کارکن اور تنظیمیں اس مسئلے پر آواز اٹھاتیں، تو انہیں ثبوت پیش کرنے کے لیے کہا جاتا۔ اور کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں فوراً دعویٰ کر دیا جاتا کہ ان تمام مسائل کا تعلق صرف کچھ انفرادی کیسز میں ہے، یا وہاں جہاں پر زیادہ شادیوں کے حوالے سے دینی تعلیمات پر عمل نہیں کیا جاتا۔

ملائشیا کی 12 ریاستوں میں 1500 افراد سے سوالنامہ حل کرایا گیا، اور اس طرح سسٹرز ان اسلام کی تحقیق اس مسئلے پر کی گئی آج تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔

اس کے نتائج انتہائی تشویشناک تھے۔ نتائج کے مطابق ایک سے زائد شادیوں نے نہ صرف خواتین کی صحت پر برے اثرات ڈالے، بلکہ اس طرح کے رشتوں سے جنم لینے والے بچوں کی بھی صحت متاثر ہونے کے ثبوت ملے۔ کئی بچوں نے شکایت کی، کہ ان کے والد نے دوسری شادی کرنے کے بعد انہیں نظرانداز کر دیا ہے۔

بیویوں اور بچوں کی تعداد بڑھنے سے وسائل، توجہ، اور محبت میں کمی واقع ہوئی۔ ایسے کیسز میں جہاں ایک مرد کے دو یا دو سے زیادہ بیویوں سے 10 سے زیادہ بچے تھے، بچوں نے شکایت کی کہ ان کے والد اکثر انہیں پہچان نہیں سکتے، یا اسکول کی فیس اور جیب خرچ مانگنے پر ان سے ان کی ماں کا نام پوچھتے ہیں۔

اس کے علاوہ بچوں کے اپنی ماؤں سے تعلقات بھی متاثر ہوئے، جو ان کی نظر میں ان کے والد کی بہ نسبت کافی کمزور اور توجہ سے محروم تھیں۔ کیونکہ بچے سب سے زیادہ قریب اپنی ماں کے ہوتے ہیں، اس لیے وہ اکثر اپنے والد کی جانب سے عدم توجہی کا ذمہ دار اپنی ماؤں کو ہی ٹھہراتے۔

کئی بچوں پر اس بات کا بھی برا اثر پڑا، کہ ان کے والد بسا اوقات ان کی ماؤں کو خرچہ نہیں دے پاتے، جس کی وجہ سے انہیں سلائی یا ٹیچنگ وغیرہ جیسے کام کرنے پڑتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرسکیں۔

حالیہ کچھ سالوں میں ایک سے زائد شادیاں پاکستان کے ازدواجی کلچر میں نارمل حیثیت اختیار کرتی جارہی ہیں، اور انہیں کئی سماجی برائیوں کے حل کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے، جب کہ کچھ انتہائی جذباتی ٹی وی ڈراموں میں انہیں رومینٹک انداز میں پیش کیا جاتا ہے، اور ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ ایک فیمینسٹ تحریک کی عدم موجودگی کی صورت میں یہ کلچر بڑھتا ہی جائے گا، کیونکہ اسے مذہبی لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔

اس وجہ سے پاکستانی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ نکاح نامے میں موجود ایک سادہ سی شرط، جو ایک سے زائد شادیوں کو روک سکتی ہے، کا استعمال کریں۔ شادیوں کی خوشیوں کے دوران ایسا سوچنا شاید اتنا خوشگوار نہ لگے، لیکن اس خوشی کے موقعے پر تھوڑا سا غور کرنے کے آنے والے سالوں میں شادی شدہ زندگی اجیرن ہونے سے بچ سکتی ہے۔

جب بھی ایک سے زائد شادیوں کا ذکر کیا جاتا ہے، تو ایک آئیڈیل تصویر پیش کی جاتی ہے جہاں ایک پارسا اور حد سے زیادہ انصاف پسند شوہر کئی بیویوں اور ان کے بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، اور ایسا کرنے میں وہ اپنے تمام وسائل اور توجہ کو انصاف کے ساتھ بیویوں کو فراہم کرتا ہے۔

دوسری جانب خواتین کے لیے تصور کیا جاتا ہے کہ ان کی صرف مالی ضروریات ہیں، جن کو پورا کرنا مطلب تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ لیکن ملائیشیا اور عرب امارات میں کی گئی یہ تحقیقیں کچھ الگ ہی حقیقت بیان کرتی ہیں، جس میں نظرانداز کرنا، برا سلوک، ڈپریشن، اور حسد شامل ہیں۔

وہ لوگ جو خواتین کی بھلائی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، ان کو قائل کرنے کے لیے ایک سے زائد بیویوں کے بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائیاں، مقابلے، اور حسد دلیل کے طور پر پیش کیے جاسکے ہیں۔ ایک سے زائد شادیوں پر ہونی والی تحقیقوں سے یہی پتہ چلتا ہے، کہ مکمل انصاف کرنا خطاکار انسانوں کے بس میں نہیں ہے، اور اسی لیے یہ نہ صرف مسائل پیدا کرتی ہے، بلکہ ایسے رشتے میں بندھے تمام لوگوں کے لیے نقصاندہ ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 01 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (13) بند ہیں

Dastgeer Oct 06, 2014 11:49am
Holly Quran and the Life of our Holly Prophet (PBUH) is the best course for muslims . Because all the solution in Quran and Hadith .
Adeel Oct 06, 2014 03:08pm
I like dawn news and their writers...
Mohammed Sajid Oct 07, 2014 09:04am
Great. This is something very important issue to highlight. Congrats someone tried to quite logically
anas Oct 07, 2014 07:32pm
i like dawn news and thier writters
islamabadia Oct 07, 2014 08:12pm
islam allowed 4 weddings but under some islamic rules and you cant compare pakistani culture with UAE and malaysia and also unmatched and love marriages are creating health and mental illness issues.
نجیب احمد سنگھیڑا Oct 08, 2014 07:22pm
I ♥ dawn news coz it is very bold and neutral among all news sources of the Pakistan.
IMRAN AHMED Oct 08, 2014 07:41pm
1ST ONE MEDIA AND SOCHAL MEDIA RESPSBLE FOR IN ,,,,,,,,,,,,,,, LAST 10 YEARS I SEE ONE MAN ONE MARRIGE BUT 90 PERCENT WOMAN AFTER MARRIGE OF 3 OR 4 YEARS SEYS DIVOCE TO ME IN MANY CASES SOO PLZ ALL PARENTS SAYS TO DUGHTER DONT GO DREAM AND ENJOY UR LIFE WITH HASBAND
muhammad aqeel Oct 09, 2014 12:30am
@islamabadia: this is only privilege in some cases not order
Ateeq Oct 09, 2014 02:59am
۔ آ پ کے ساتھ اگر دوسرے لڑکیوں جیساں گینگ ریپ ہوجاءے تو اآپ کی آنکھیں کھل جاءگی۔ اسلام میں اگر چہ ایک سے زاید چار تک شادی کرنے کی اجازت ہے مگر ایپریشییٹ نہیں کیا گیا ہے،مگر بحالت مجبوری میں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے خلاف تجھ جیسے لڑکیا ں مہم چلاءیں۔ اس کا کویی فایدہ نہیں ہوگا، گارنٹی ہے۔ اگر کویی عورت نکاح نامہ میں دوسری شادی نہ کرنے کے خانے کا استعمال شروع کرے 95%لوگ ان سے شادی سے انکار کرے گی، کیونکہ عورت کا کیا پتہ بعد میں ان میں کویی خفیہ معذوری یا عقل کی بے پناہ کمی ہو، جوکہ 30%عورتوں میں عام ہے۔ تو ایسے میں پھر طلاق کی شرح زیادہ ہوگی جو کہ عورت کی زندگی کا عملی تباہ کن مقام ہے۔ جس کے بعد اس کے ساتھ یا تو کویی معذور، بوڑھا یا کویی اور کمی والا شخص شادی کرے گی۔ عورت ایک کمزور مخلوق ہے۔ جو کہ انتہایی احتیاط اور صبر کی ضرورت ہے۔ آپ نے تو ان ظالموں اور جاہلوں پر سروے تو کیا۔ لیکن ان عرب شیخوں کا سروے نہیں کیا جس میں ہر ایک بیوی کے لیے ایک نوکرانی رکھی ہو۔ ان کے ساتھ برابری کے مطابق ٹایم تقسیم ہیں اور ان کے لیے نوکرانی بھی اٹلی جیسے ملک سے لایے گیے ہوں۔ آپ نے تو ایسے ہزاروں لوگوں پر سروے کا سوچ بھی نہیں لیا جس نے ہر ایک بیوی کے لیے ان کے خواہش کے مطابق ایکاموڈیشن دیا ہوں۔ اور وہ اس کے ساتھ خوش ہیں۔ میں اس بات کے خود خلا ف ہوں کہ بغیر کسی مجبوری کے دوسری یا تیسرے چوتھی شادی کیا جاییے۔ کیو نکہ ْقرآن کریم میں یہ بھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنی بیویوں کے درمیا ن برابری نہیں کر پاووگے۔ اور ساتھ میں یہ بھی ذکر ہے کہ اگر بیوی کسی ایک چیز کی کمی ہو۔ تو اس کی اچھی والی خاصیت کو دیکھ کر کمز
منصور حیدر راجہ Oct 09, 2014 07:42am
مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادیوں کے تصور کو 1980 کے بعد پاکستان میں بڑی تیزی سے فروغ دیا گیا اور حال ہی میں پئجاب کے ایک عالم دین نے تو اپنی چھ بیٹیوں کی شادی ہی ان لوگوں سے کرانے کا اعلان کردیا جو پہلے سے شادی شدہ ھوں .. کثرت ازدواج کی یہ رسم عربوں میں آج بھی موجود ھے یہاں تک کہ بانی سعودی عرب کنگ عبد العزیز ابن سعود نے تقریبا 300 شادیاں کی جن میں سے 125 کے نام ملتے ہیں اور ویکیپیڈیا پر 45 ان بیویوں کا ذکر موجود ہے کہ جن کے بطن سے 80 میل بچے پیدا ھوے .. جو اس وقت سعودی شہنشاھیت کے اصل وارث ہیں .. اسلام چونکہ اسی خطے سے پھیلا اس لیے کثرت ازدواجکے تصور کو مذھبی تقدیس کے پردے میں لپیٹ کر بڑے منظم اور دلکش انداز میں پورے مسلم معاشرے کے اندر پھیلا دیا گیا ،، اب اس پر بات کرنا بہت مشکل ھو گیا ھے ایک تو پہلے ہی ھم نے خواتین کے بنیادی حقوق پر پہرے بٹھا رکھے ہیں اور مزید ستم یہ کہ جہاں بھی خواتین کا استحصال ھونے لگتا ھے وھاں ھمہیں مذہبی روایت کا سھارا لیکر ان کو غصب کرنے کا بہانا مل جاتا ھے . ایک سے زاید شادی کے فواید تو دور کی بات ھے موجودہ دور میں بیوی کو طلاق دینے یا فوت ھونے کے بعد اس کے بچوں کی موجودگی میں دوسری شادی کا جواز بھی مشکل ھو گیا ھے کہ ان حالات میں دوسری شادی کرنے سے پہلی بیوی کے بچوں پر منفی اثرات پیدا ھوتے ہیں .. اور جب دوسری بیوی کے بچے بڑے ھونے لگتے ہیں تو پہلی اور دوسری اولاد کے درمیان ایک نفسیاتی کشمکش شروع ھوجاتی ھے جو کہیں بڑے بڑے معاشی معاشرتی تقاضوں یا الجھنوں کا باعث بنتی ھے .. ان حالات میں ھمہیں اپنے گرد وپیش پر نظر ڈال کر مرتب ھونے وا
Hasan Arbab Oct 09, 2014 09:34am
مکمل طور پہ نہیں پڑه سکا. معذرت سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسا طریقہ اپنایا جائے جس سے ہمارے معاشرے میں موجود عورتیں گهر بیٹهے بیٹهے بوڑهی نہ ہوں بلکہ ان کی ایک انسانی ضرورت اخلاقی حد میں رہتے ہوئے احسن طریقے سے پوری ہو. آخر کس طرح ان والدین کی پریشانی ختم ہو جن کی کئی کئی بیٹیاں کنواری بیٹهی ہیں اور پهر ان والدین کا تو شاید دکه ختم ہی نہیں کیا جا سکتا جن کی بیٹیاں یا تو بیوہ ہو گئی ہیں یا پهر انہیں طلاق ہو گئی ہے. بطور خاتون کیا آپ یہ نہیں سمجهتیں کہ ایک خاتون اگر اپنا شوہر بانٹ لے تو وہ اپنی کسی بہن کہ ہی کام آ رہی ہے. بنیادی طور پر خواتین بهی ایک مجموعی معاشرتی رویے کا شکار ہیں کہ جو اپنے پاس ہے وہ کسی اور کے ساته بانٹنا تو دور کی بات بلکہ کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہیں لگنی چاہیئے. ہم لوگ تو اپنی خوشی کسی کے ساته بانٹ نہیں سکتے کہ شاید کوئی دوسرا بهی خوش نہ ہو جائے, شوہر بانٹنا دور کی بات ہے. پہلے ہمیں معاشرے میں بانٹنے کا رویہ پیدا کرنا پڑے گا, دینے کا رویہ پیدا کرنس پڑے گا پهر ضرور عورت اپنا شوہر بهی کسی دوسری عورت کو دے گی. ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال ہی معاشرے میں محبت امن اور سکون کی چابی ہے اور قربانی کے جذبات ہی افراتفری کے ماحول کو ختم کر سکتے ہیں.
safoora Oct 09, 2014 11:42pm
@Hasan Arbab: Anger ap ki bati ki shadi asy Adam say ho to ap kasa mahsoos ker gay or anger ap ki bati ka shoher doosari shadi kerta hai to kya ap apni bati ko ye bat samjha dey gay k ap k damad nay ak larki or us k ma bap. Ka dukh kum ker diya hai
safoora Oct 10, 2014 09:40am
ye ak haqeeqat hai k ek murd doosari shadi kerta hai to masail ziyada hotay hain kum nahi hotay or ager humary mazhab m ijazat hai to wo ayashi kay liy nahi hai wo is liy hai k ager mard kis ki kafalat k zima utha lay yani kis bewa or us kay bochoo ko sahara dey yani kisi bachoo wali bewa say shadi kery yan kisi talqyafta orat jis k bachay b magood hon us say shadi kery kiya jin loogo nay Rafiya ko galat kaha hai un ma say koi is tarh ker sakta hai or ager ker sakta hai to apnay batay or damd ki shadi kerwa day . koi b asa nahi kerta sub apni ayashi ko ALLAH KI IJAZAT Ka nam daytey hain or insaf shart hai doosari shadiki koi mard nahi ker sakta

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024