ایک سے زائد شادیوں کے مسائل
کچھ لوگ اسے پریشان حال خواتین کے مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اگر ہر شخص چار شادیاں کر لے، تو تمام خواتین کو ایک مرد سرپرست مل جائے گا، جو انہیں سپورٹ کرے، ان کی حفاظت کرے۔
لیکن ایک سے زائد شادیوں کی حقیقت نہ اتنی سادہ ہے، اور نہ ہی اتنی ستھری۔ گذشتہ ہفتے امارات کے ایک صفِ اول کے جریدے دی نیشنل نے ایک ریسرچ کے بارے میں خبر شائع کی، جس کے مطابق زیادہ شادیوں کی وجہ سے خواتین کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچتا ہے، ان میں منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں، اور جس کی وجہ سے ان کی صحت مند اور جذبات سے بھرپور زندگی ان سے چھن جاتی ہے۔
امریکن یونیورسٹی آف شارجہ کی انگلش کی پروفیسر ڈاکٹر رعنا رداوی نے 100 ایسی عرب خواتین کا سروے کیا، جن کے شوہروں نے ایک سے زیادہ شادیاں کر رکھی تھیں۔ سروے کے نتائج کے مطابق ان میں سے کئی خواتین نظرانداز کیے جانے پر افسردہ، اور حسد کا شکار تھیں، جس سے ان کی زندگی اور ذہنی صحت کو نقصان پہنچا تھا۔ اپنے خاندان میں موجود کئی ایسی خواتین کو دیکھ کر انہوں نے ایک سے زائد شادیوں کے جذباتی نتائج پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا، جو ان کے نزدیک اس سے پہلے کسی تحقیق میں نہیں کیا گیا۔
مذہب اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایک سے زائد شادیاں کرنے کی صورت میں بیویوں کے درمیان انصاف کیا جائے، لیکن ڈاکٹر رداوی نے اپنی تحقیق میں پایا، کہ زیادہ تر مرد اس معاملے میں انصاف نہیں کرتے۔ سروے میں حصہ لینے والی کئی خواتین نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے شوہروں کو کئی کئی روز تک نہیں دیکھتیں، جب کہ وہ ان کی مالی ضروریات بھی پوری نہیں کرتے۔
کئی کیسز میں مردوں کے پاس اتنے وسائل موجود نہیں تھے، کہ وہ ایک سے زیادہ گھرانے چلا سکیں، نتیجتاً ایک عورت کو کتنا خرچہ ملے گا، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اس کا اپنے شوہر کی نظر میں کیا مقام ہے، اور ان کے باہمی تعلقات کتنے اچھے ہیں۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے ڈپریشن، غصہ، ہسٹیریا، اور دیگر ذہنی اور جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
ڈاکٹر رداوی کی تحقیق صرف خواتین پر زیادہ شادیوں کی وجہ سے ہونے والے جذباتی اثرات کا جائزہ لیتی ہے، لیکن 2010 میں ملائیشین گروپ سسٹرز ان اسلام کی تحقیق اس حوالے سے وسیع پیمانے پر ہونے والے مسائل پر توجہ دیتی ہے۔
سسٹرز ان اسلام نے یہ تحقیق اس لیے کی کیونکہ جب کبھی بھی خواتین کے حقوق کے کارکن اور تنظیمیں اس مسئلے پر آواز اٹھاتیں، تو انہیں ثبوت پیش کرنے کے لیے کہا جاتا۔ اور کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں فوراً دعویٰ کر دیا جاتا کہ ان تمام مسائل کا تعلق صرف کچھ انفرادی کیسز میں ہے، یا وہاں جہاں پر زیادہ شادیوں کے حوالے سے دینی تعلیمات پر عمل نہیں کیا جاتا۔
ملائشیا کی 12 ریاستوں میں 1500 افراد سے سوالنامہ حل کرایا گیا، اور اس طرح سسٹرز ان اسلام کی تحقیق اس مسئلے پر کی گئی آج تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔
اس کے نتائج انتہائی تشویشناک تھے۔ نتائج کے مطابق ایک سے زائد شادیوں نے نہ صرف خواتین کی صحت پر برے اثرات ڈالے، بلکہ اس طرح کے رشتوں سے جنم لینے والے بچوں کی بھی صحت متاثر ہونے کے ثبوت ملے۔ کئی بچوں نے شکایت کی، کہ ان کے والد نے دوسری شادی کرنے کے بعد انہیں نظرانداز کر دیا ہے۔
بیویوں اور بچوں کی تعداد بڑھنے سے وسائل، توجہ، اور محبت میں کمی واقع ہوئی۔ ایسے کیسز میں جہاں ایک مرد کے دو یا دو سے زیادہ بیویوں سے 10 سے زیادہ بچے تھے، بچوں نے شکایت کی کہ ان کے والد اکثر انہیں پہچان نہیں سکتے، یا اسکول کی فیس اور جیب خرچ مانگنے پر ان سے ان کی ماں کا نام پوچھتے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کے اپنی ماؤں سے تعلقات بھی متاثر ہوئے، جو ان کی نظر میں ان کے والد کی بہ نسبت کافی کمزور اور توجہ سے محروم تھیں۔ کیونکہ بچے سب سے زیادہ قریب اپنی ماں کے ہوتے ہیں، اس لیے وہ اکثر اپنے والد کی جانب سے عدم توجہی کا ذمہ دار اپنی ماؤں کو ہی ٹھہراتے۔
کئی بچوں پر اس بات کا بھی برا اثر پڑا، کہ ان کے والد بسا اوقات ان کی ماؤں کو خرچہ نہیں دے پاتے، جس کی وجہ سے انہیں سلائی یا ٹیچنگ وغیرہ جیسے کام کرنے پڑتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرسکیں۔
حالیہ کچھ سالوں میں ایک سے زائد شادیاں پاکستان کے ازدواجی کلچر میں نارمل حیثیت اختیار کرتی جارہی ہیں، اور انہیں کئی سماجی برائیوں کے حل کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے، جب کہ کچھ انتہائی جذباتی ٹی وی ڈراموں میں انہیں رومینٹک انداز میں پیش کیا جاتا ہے، اور ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ ایک فیمینسٹ تحریک کی عدم موجودگی کی صورت میں یہ کلچر بڑھتا ہی جائے گا، کیونکہ اسے مذہبی لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس وجہ سے پاکستانی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ نکاح نامے میں موجود ایک سادہ سی شرط، جو ایک سے زائد شادیوں کو روک سکتی ہے، کا استعمال کریں۔ شادیوں کی خوشیوں کے دوران ایسا سوچنا شاید اتنا خوشگوار نہ لگے، لیکن اس خوشی کے موقعے پر تھوڑا سا غور کرنے کے آنے والے سالوں میں شادی شدہ زندگی اجیرن ہونے سے بچ سکتی ہے۔
جب بھی ایک سے زائد شادیوں کا ذکر کیا جاتا ہے، تو ایک آئیڈیل تصویر پیش کی جاتی ہے جہاں ایک پارسا اور حد سے زیادہ انصاف پسند شوہر کئی بیویوں اور ان کے بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، اور ایسا کرنے میں وہ اپنے تمام وسائل اور توجہ کو انصاف کے ساتھ بیویوں کو فراہم کرتا ہے۔
دوسری جانب خواتین کے لیے تصور کیا جاتا ہے کہ ان کی صرف مالی ضروریات ہیں، جن کو پورا کرنا مطلب تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ لیکن ملائیشیا اور عرب امارات میں کی گئی یہ تحقیقیں کچھ الگ ہی حقیقت بیان کرتی ہیں، جس میں نظرانداز کرنا، برا سلوک، ڈپریشن، اور حسد شامل ہیں۔
وہ لوگ جو خواتین کی بھلائی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، ان کو قائل کرنے کے لیے ایک سے زائد بیویوں کے بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائیاں، مقابلے، اور حسد دلیل کے طور پر پیش کیے جاسکے ہیں۔ ایک سے زائد شادیوں پر ہونی والی تحقیقوں سے یہی پتہ چلتا ہے، کہ مکمل انصاف کرنا خطاکار انسانوں کے بس میں نہیں ہے، اور اسی لیے یہ نہ صرف مسائل پیدا کرتی ہے، بلکہ ایسے رشتے میں بندھے تمام لوگوں کے لیے نقصاندہ ہے۔
لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 01 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (13) بند ہیں