آرمی چیف کو بطور گواہ پیش کرسکتے ہیں؟ سپریم کورٹ کا سوال
اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی پٹیشن دائر کرنے والے درخواست گزار کو اس وقت حیران رہ گئے، جب سپریم کورٹ نے منگل کے روز ان سے سوال کیا کہ عدالت کو درست نتیجے تک پہنچنے میں مدد دینے کے لیے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو ان کی گواہی دینے پر رضامند کرنے پر تیار ہوجائیں گے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم تین ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ کے ایک رکن جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ ’’اس تنازعہ میں اہم نکتہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان بند کمرے میں ملاقات ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یہ بینچ تین ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔ یہ درخواستیں پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی، مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور ایڈوکیٹ گوہر نواز سندھو کی جانب سے دائر کی گئی تھیں، جس میں سپریم کورٹ سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ چونکہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران 29 اگست کو مبینہ طور پر جھوٹ بولا تھا کہ موجودہ سیاسی تعطل کے خاتمے کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اور حکومت کے درمیان فوج کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے حکومت نے گزارش نہیں کی تھی۔
جمعرات کے روز عدالت نے پی ٹی آئی وکلاء ونگ کے نائب صدر کے نمائندگی کرنے والے گوہر سندھو کی درخواست کی سماعت کی۔
جسٹس دوست محمد نے کہا کہ جب تک کوئی ٹھوس ثبوت اس معاملے کے حوالے سے پیش نہ کیا جائے تو عدالت کے لیے فیصلہ کرنا نہایت مشکل ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس مقدمے میں بنیادی ثبوت آرمی چیف کی گواہی یا کم از کم ان کا حلف نامہ ہے، اس لیے کہ وہی ایک ایسی شخصیت ہیں جو درخواست گزار کے نکتہ نظر کی تصدیق یا تردید کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ وزیراعظم خود اس مقدمے میں مدعا علیہ ہوں، اور ان کی ہی نااہلی کے لیےدرخواست دی گئی ہو۔
جسٹس دوست محمد نے کہا کہ عدالت کا کام آئین کا اطلاق کرتے ہوئے انصاف کرنا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس مقدمے میں بنیادی نکتہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان بند کمرے میں ہونے والی ملاقات ہے۔
ایڈوکیٹ گوہر نواز سندھو نے نشاندہی کی کہ فوج کے ایک ترجمان نے بیان دیا تھا کہ حکومت آرمی چیف سے کہا تھا کہ وہ احتجاجی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں۔
لیکن جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ اہم نکتہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے وزیراعظم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے سوال کیا کہ اگر وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا، اس لیے کہ وہ ایک جھوٹ بولنے کے بعد صادق اور امین نہیں رہے تو پھر قومی اسمبلی اور سینٹ کے دوسرے اراکین کا مقدر کیا ہوگا،جنہوں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
ایڈوکیٹ گوہر سندھو نے آئین کے آرٹیکل 227 کا حوالہ دیا، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنائے جائیں گے، اور یہ تقاضہ کرتا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو ایماندار ہونا چاہیے اور انہیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔
جسٹس دوست محمد نے کہا ’’اگر ہم آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر سختی سے عمل کریں جس انتخابات سے پہلے اور بعد میں اراکین کی اہلیت کے بارے میں ہدایات موجود ہیں تو پھر پوری پارلیمنٹ نااہل قرار پائے گی، اس لیے کہ اسلامی احکامات میں سود کے خاتمے پر زور دیا گیا ہے اور ہم بطور سرکاری ملازم اور پارلیمنٹیرین اپنی تنخواہیں سود پر مبنی مالیاتی نظام کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔‘‘
وکیل نے کہا کہ عدالت کو کسی انتہائی اقدام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، یہاں تک کہ آسمان ہی کیوں نہ گرجائے۔
جسٹس مشیر عالم نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ آئین میں دی گئی پابندیوں پر غور کریں جس کے آرٹیکل 63(پی) کے تحت اراکین کا تحفظ کیا گیا ہے، اور انہوں نے کہا کہ کسی رکن کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ اسے قانون کی مجاز عدالت مجرم نہیں قرار دے دیتی۔
انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ اگر یہاں ایسا کوئی قانون ہے کہ جو ایک رکن کی نااہلی پر متوجہ کرتا ہو، اگر اس کو قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے بھی مسترد کردیاگیا تھا۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا ’’ایک رکن کو نااہل قرار دینے سے اسپیکر کے انکار کے بعد آپ کے پاس کیا ترکیب ہوگی؟‘‘
عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ ایک ترمیمی درخواست پیش کرنے پر غور کریں، اس لیے کہ ان کے تمام حوالہ جات اٹھارویں ترمیم سے پہلے کی دفعات سے حاصل کیے گئے ہیں۔
اب اس مقدمے کی سماعت 16 اکتوبر کو ہوگی۔
اسپیکر کی رولنگ:
اس معاملے سے متعلقہ ایک پیش رفت میں ایڈوکیٹ محمد اظہر صدیقی کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی، جس میں 25 ستمبر کو قومی اسمبلی کےاسپیکر کی اس رولنگ کو چیلنج کیا گیا تھا، جس کے تحت انہوں نے وزیراعظم کی نااہلی کے ایک ریفرنسر کو مسترد کردیا تھا۔
درخواست گزار نے یہ دلیل دی تھی کہ یہ رولنگ قانون اور آئین کے خلاف تھی، چنانچہ آئین کے آرٹیکل 62(ون ای) اور عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء کے سیکشن 99کے تحت وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ آرٹیکل 66(1) کی تشریح کی جائے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالا تر نہیں ہے اور کسی کو بھی اس سے مستثنٰی نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اپنی رولنگ میں اسپیکر نے بیان کیا تھا کہ 29 اگست کو قومی اسمبلی میں جاری بحث سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ ریفرنس میں لگائے گئے الزامات حقیقتاً غلط تھے اور آرٹیکل 66(ون) تقاضہ کرتا ہے کہ ایک رکن کے کسی بھی بیان پر اندرونی کارروائی کے لیے کہا جائے۔
رولنگ میں کہا گیا تھا کہ یہ شق ایک رکن پارلیمنٹ جانب سے پارلیمنٹ کے ایوان پر کچھ بھی کہنے پر کسی بھی کارروائی سے ان کا تحفظ کرتی ہے۔