غیر ملکی سرمایہ کاری: حقیقت یا سراب؟
عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر نے پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا۔ نواز حکومت رونا رو رہی ہے کہ اس مجوزہ دورے میں کئی ارب کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہونے تھے جبکہ دھرنا دینے والوں کا کہنا ہے کہ وہ تو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے نہیں بلکہ مہنگے داموں قرضہ دینے آرہے تھے۔
پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست کسی بھی حکومت کا دہشت گردی کے خلاف کسی واضح موقف کا فقدان اور توانائی کا بحران شامل ہیں۔ موجودہ حکومت دونوں محاذوں پر ناکام نظر آتی ہے۔ حالانکہ نواز حکومت نے پچھلے سال اقتدار سنبھالتے ہی چین کا دورہ کیا اور بے شمار یادداشتیں سائن کیں جن کا رزلٹ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
مسلم لیگ نواز حکومت بنانے کے فوراً بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے اور ابھی تک ڈنگ ڈپاؤ سے کام چلایا جارہا ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کس حد تک کامیاب ہے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ ابھی تک اس آپریشن سے متعلقہ حقائق یکطرفہ ذرائع سے ہی آرہے ہیں۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ اس آپریشن پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاک فوج کی طرف سے روزانہ کئی درجن دہشت گردوں کے مارنے کی اطلاعات ملتی ہیں مگر ابھی تک کسی ایک کی بھی لاش نہیں دکھائی گئی۔ اس کے برعکس جب بھی ڈرون حملہ ہوتا ہے تو اس میں مرنے والوں کی شناخت بتائی جاتی ہے۔ افغانستان، عراق یا دنیا بھر میں جب بھی کوئی آپریشن ہوتا ہے تو مرنے والوں کی شناخت بتائی جاتی ہے یا لاشیں دکھائی جاتی ہیں۔ جبکہ طالبان کی تمام قیادت ایک محفوظ مقام پر بیٹھی ہے اور حسب معمول میڈیا کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے ۔ طالبان کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ پاکستان میں تبلیغ کریں گے اور افغانستان میں جہاد، اس آپریشن کے متعلق شکوک و شبہات بڑھا دیتا ہے۔
ڈان کے سنڈے میگزین کی رپورٹ کے مطابق سوات کے لوگوں نے طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جہادی تنظیموں حزب المجاہدین اور جیش محمد وغیرہ جو کہ بھارتی کشمیر میں سرگرم ہیں، نے اب سوات میں بھی اپنی سرگرمیاں اور بھرتیاں شروع کر دی ہیں۔ یاد رہے کہ سوات میں آپریشن کے بعد وہاں پاک فوج موجود ہے، مگر اس کے باوجود جہادی تنظیموں کی سرگرمیاں کئی سوال اٹھاتی ہیں۔ اس وقت صرف پنجاب میں چھ سے زائد دہشت گرد جماعتیں کھلے عام اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
جہاں تک توانائی کا مسئلہ ہے تو حکومت واضح طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔ اللہ ہی پاکستان کی اس بحران سے نکلنے میں مدد کرے گا۔ جبکہ دوسری طرف نندی پور پاورپراجیکٹ جو بڑی دھوم دھام سے شروع کیا گیا تھا، قومی خزانے پر ایک بوجھ بن چکا ہے۔ 27 ارب کا یہ منصوبہ اب 82 ارب پر جا پہنچا ہے مگر ہنوز دہلی دور است والا معاملہ ہے۔ پچھلے دور میں وفاقی حکومت نے اس منصوبے پر تکنیکی اعتراضات اٹھائے تھے جسے مسلم لیگ نواز نے پنجاب دشمنی سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی انتقام لینا چاہتی ہے۔
یہ کوئی 2009 کی بات ہے جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے پہلی دفعہ چین کے دورے پر گئے اور واپسی پر سینیئر اخبار نویسوں کو کھانے پر بلایا۔ وزیر اعلیٰ کے میڈیا مینیجروں نے ایک فائل تمام اخبار نویسوں کو تھمائی جس میں بتایا گیا تھا کہ شہباز شریف نے حالیہ دورہ چین میں کیا کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کھانے پر شہباز شریف نے تفصیل سے چین کے دورے کے متعلق بتایا اور کہا کہ انہوں نے درجن سے زائد ایم او یوز سائن کیے ہیں۔ اگلے کچھ ہفتوں تک لفافہ کالم نگاروں نے شہباز شریف کی کامیابیوں کے گن گائے اور بتایا گیا کہ اگلے چار پانچ سالوں میں پنجاب میں انقلاب آنے والا ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں وہ انقلاب کیا تھا؛
2009 میں سستی روٹی کے چکر میں پنجاب کے عوام کے تمام وسائل تندور میں پھونک دیئے گئے۔ 2010 میں سیلاب آگیا۔ بقول نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف وہاں وہاں گئے جہاں جہاں پانی گیا۔ 2011 میں شہباز شریف چین کا ایک اور بھرپور دورہ بھی کرآئے اور بتایا گیا کئی ارب روپے کے ایم او یوز سائن کر لیے گئے ہیں۔ اس دوران عمران خان نے لاہور میں ایک بھرپور جلسہ کیا اور تمام یوتھ کو ساتھ ملا لیا۔ شریف برادران کو فکر ہوئی اور یوتھ کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے 2012 میں لیپ ٹاپ دینے کی مہم شروع ہوئی اور بتایا گیا کہ اس سے تعلیم میں ایک انقلاب آجائے گا۔
اسی دوران انتخابات بھی قریب آرہے تھے اور شہباز حکومت نے پنجاب کے تمام وسائل لاہور میں میٹرو بس سروس پر لگا دیئے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ پنجاب کے چند بڑے شہروں کے علاوہ باقی اضلاع میں پسماندگی کا راج ہے۔ کسی بھی قدرتی آفت کے نتیجے میں یہ پسماندگی بے نقاب ہو جاتی ہے۔
اب نواز حکومت نے کئی ارب روپے سے راولپنڈی اسلام آباد میں میٹرو بس منصوبہ شروع کر رکھا ہے مگر عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں کوئی بھی ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کی وجہ سے لوگ شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں تو چند سالوں بعد میٹرو بس جیسے منصوبے بھی ناکافی ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ضلعے میں ترقیاتی کام کیے جائیں اور وہاں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ ان علاقوں سے عوام کی نقل مکانی بڑے شہروں میں رک سکے۔
ابھی تک جو نام نہاد سرمایہ کاری نظر آرہی ہے وہ سرمایہ کاری نہیں بلکہ حکومت نے عوام کے خزانے سے خدمات کو خریدا ہے۔ ایٹم بم اور میزائل بنانے والی قوم کا حال یہ ہے کہ وہ لاہور میں صفائی کا انتظام نہیں کرسکتی اور اسے ترکی کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے حالانکہ ضلعی حکومتوں کے دور میں لاہور میں صفائی کی صورتحال بہت بہتر تھی۔ تعلیم و صحت جیسے شعبوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ میٹرو بس یا ٹرین کو ترقی کا نام دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چمک دھمک والے پراجیکٹس پر اربوں روپے ضائع کرنے سے پہلے مضبوط سڑکیں تعمیر کی جائیں، جو پہلی بارش میں بہہ جانے سے محفوظ رہیں۔ تعلیم و صحت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے، تاکہ حقیقی معنوں میں مستحکم ترقی کی بنیاد ڈالی جاسکے۔
تبصرے (1) بند ہیں