• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

دربدری جب مقدر بن جائے

شائع September 28, 2014
لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردینے سے شناخت اور کمیونیٹی چھن جاتی ہے، جس سے معاشرہ کمزور اور ناکام ہوجاتا ہے۔
لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردینے سے شناخت اور کمیونیٹی چھن جاتی ہے، جس سے معاشرہ کمزور اور ناکام ہوجاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 69 واں اجلاس گذشتہ ہفتے شروع ہوا۔ بالکل آخری دن مزدوروں نے رینوویشن کے بعد جنرل اسمبلی ہال کی فنشنگ کی۔ نیا کارپیٹ، نیا بیک ڈراپ، اور نئی ڈیسکیں اس رینوویشن کی خاص بات ہیں، اور اس سب پر صرف 2 ارب ڈالر کا خرچہ آیا۔

لیکن ایک ایسے وقت میں جب عالمی لیڈر قیمتی اور نفیس لباس پہن کر دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں لگے ہیں، تو ایسے وقت میں دنیا کے بڑے حصے میں لوگ استحکام، اور گھر واپسی کی امید میں زندگی جی رہے ہیں۔

گذشتہ بدھ کے روز Norwegian Refugee Council کے Internal Displacement Center کی اقوام متحدہ کے تعاون سے تیار کردہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا، کہ دنیا بھر میں تقریباً دو کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو سال 2013 میں موسمی آفات کی وجہ سے دربدری جھیلنی پڑی۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ان آفات کی وجہ سے دربدر ہونے کا خطرہ پچھلے 40 سالوں کے دوران دو گنا ہوگیا ہے، جس کی وجہ متاثرہ ممالک میں بڑھتی ہوئی شہری آبادی ہے۔ متاثرہ ممالک میں دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ ان دو کروڑ بیس لاکھ لوگوں میں سے تقریباً ایک کروڑ نوے لاکھ کا تعلق ایشیا سے ہے۔

اگر قدرتی آفات کی وجہ سے دربدری کی خبریں زیادہ اہم نہیں، تو تنازعات کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ بھی ایک بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے تھوڑا پہلے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین، UNHCR نے شام میں جاری حالات کے بارے میں اپنی تازہ ترین رپورٹ پیش کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق شام کی اندازاً آدھی آبادی دربدر ہوچکی ہے۔ تقریباً 30 لاکھ لوگ ہیں جو ترکی، لبنان، اردن، اور دیگر پڑوسی ممالک کے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ اب کبھی بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکیں گے، کیونکہ تنازعہ اتنا شدید ہے، کہ اس نے ان کی سرزمین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان اور لوگوں کی دربدری کا پاکستان کی تخلیق کے وقت سے ہی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود بھی ہم نے بے گھر ہوجانے والے لوگوں کے مسائل کا حل کرنے کے لیے کوئی پلاننگ نہیں کی ہے۔ اپنے آرامدہ گھروں سے بے گھر ہونے کی تازہ ترین مثال فاٹا میں آپریشن ضربِ عضب کے بعد ہونے والی نقل مکانی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً دس لاکھ لوگوں کو آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑی ہے، جبکہ حکومت نے دس لاکھ لوگوں کے لیے 6 پناہ گزین کیمپ قائم کیے ہیں۔

یہ تو ہوئی ان لوگوں کی بات، جو تنازعات کی زد میں آئے۔ ان لوگوں کا کیا، جنہیں قدرتی آفات کی وجہ سے اپنے گھروں کو خیر باد کہنا پڑا؟ ملک میں حالیہ سیلاب نے اب تک 200 لوگوں کی جانیں لی ہیں، جبکہ کم از کم 27،000 لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان ہزاروں لوگوں میں سے کئی لوگ تو اتنے خوش قسمت تھے، کہ سیلاب کی تیز لہروں سے ان کے گھر بہہ جانے سے صرف کچھ لمحے پہلے ہی انہیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے چھت سے ریسکیو کر لیا گیا۔

بعد کے دنوں میں مقامی "معززین" نے ان متاثرہ اور برباد علاقوں کا دورہ کیا۔ فوٹو شوٹ ہوئے، ٹی وی پر مصافحے ہوئے، گلے ملا گیا، اور جلد ہی ہمیشہ کی طرح سب کچھ بھلا دیا جائے گا۔

پاکستان کی تخلیق کی کہانی میں دربدری کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس میں اہم بات یہ مانی جاتی ہے کہ جو لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، وہ دوبارہ اپنے گھروں کو لوٹ کر ایک نئی زندگی کی شروعات بھی کرسکتے ہیں۔

اس میں اس بات کا پرچار بھی کیا جاتا ہے کہ ایک معاشرہ نئے آنے والے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے، ان کے لیے جگہ بناتا ہے، اور آہستہ آہستہ انہیں اپنے اندر ضم کر لیتا ہے۔ لیکن آزادی کے بعد ہونے والی ہجرت، اور آپریشن، تنازعات، یا قدرتی آفات کی وجہ سے دربدر ہونے والے لوگوں کے کیسز میں یہ بات سچی معلوم نہیں ہوتی۔ ہر جگہ صوبائی اور زبانی بنیادوں پر اختلافات کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ اور یہ بات خون میں شامل ہے، جس کی مثال اگر آزادی نہیں تو خودمختاری کے مطالبات ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے، کہ دنیا بھر میں، اور مقامی تصورات میں دربدری کو ایک تکنیکی، اور کم مدت کے مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس میں کیمپوں، خیموں، اور شیلٹروں سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ بالکل، یہ چیزیں فوری ضرورت کی چیزیں ہیں، اور جن لوگوں کے سر چھتوں سے محروم ہوگئے ہیں، انہیں شیلٹر فراہم کیا جانا چاہیے، لیکن بڑے پیمارے پر نقصان ان کمیونیٹیز کو ہوتا ہے، جن کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں میں، جہاں حکومت سیکیورٹی، سوشل سروس، تعلیم، اور دوسری بنیادی سہولیات کی مد میں بہت کم ہی کچھ فراہم کرتی ہے، وہاں اس طرح کی دربدری کی وجہ سے سماجی رشتے اور اسٹرکچر بہت بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اردن کے ایک پناہ گزین کیمپ میں شامی خاندان اپنی 12 سال تک کی چھوٹی بچیوں کی شادیاں کررہے ہیں، کیونکہ انہیں کیمپوں میں بچیوں کے تحفظ کی فکر لاحق ہے۔ بچوں کی کم عمری میں شادی کے اپنے الگ مسائل ہیں، اور اس سے صرف جنسی صحت کے مسائل نہیں، بلکہ جنسی استحصال کا مسئلہ بھی جنم لیتا ہے۔ کمیونیٹی کے اندر کنٹرول نا ہونے کی بنا پر معاشرہ کمزور ہوتا ہوتا آخر تباہ ہوجاتا ہے۔

لوگوں کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کردینے سے شناخت، اور کمیونیٹی چھن جاتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ کمزور اور ناکام ہوجاتا ہے۔ اس بات کا سب سے برا اثر پاکستان جیسے ممالک میں پڑتا ہے، جہاں کمیونیٹی اور سماجی تعلقات شخصی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ریاست، ہمیشہ سے کمزور، نازک، اور اشرافیہ کے زیر اثر رہی ہے۔ یہ استحکام نا لاسکی ہے، اور نا ہی ان حالیہ دربدریوں کے بعد استحکام لاسکے گی۔ ہاں زیادہ سے زیادہ اتنا ضرور ہوگا، کہ ظاہری طور پر کچھ مالی امداد فراہم کردی جائے گی۔

پاکستانی اپنا زیادہ تر وقت اپنے مسائل کے بارے میں سوچتے ہوئے بتاتے ہیں، خواتین اور بچوں پر، کمزوروں اور غریبوں پر ظلم و ستم پر پریشان ہوتے ہیں۔ یہ سب مسائل کچھ بھی نہیں، صرف کمیونیٹیز کے تباہ ہونے کی علامات ہیں۔ کمیونیٹی وہ واحد گوند ہے، جو سب چیزوں کو ساتھ جوڑے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

KASHIF Sep 29, 2014 06:09pm
In my opinion, for betterness of our society, we need to do best reform in the education sector. Because, the students will be our next society and that will be our new Pakistan. If we do reform now, result will come after 10 or years later.
Ali Tahir Sep 29, 2014 10:10pm
@KASHIF: Betterness??? LoL

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024