• KHI: Fajr 5:15am Sunrise 6:32am
  • LHR: Fajr 4:47am Sunrise 6:08am
  • ISB: Fajr 4:52am Sunrise 6:15am
  • KHI: Fajr 5:15am Sunrise 6:32am
  • LHR: Fajr 4:47am Sunrise 6:08am
  • ISB: Fajr 4:52am Sunrise 6:15am

!مڈل کلاسیئے

شائع June 14, 2013

 عوام کا اپنی قوت خرید بڑھانے سے مطلب ہے --- رائٹرز فائل فوٹو
عوام کو اپنی قوت خرید بڑھانے سے مطلب ہے --- رائٹرز فائل فوٹو

انسانوں نے اپنے آپ کو جن طبقات میں تقسیم کر رکھا ہے اس میں غریب، امیر اور مڈل کلاس شامل ہیں. بیچارے غریب کا تو کوئی پرسان حال نہیں کیوں کہ ہمارے ملک میں تو بیچارہ اپنی غربت میں 'دن دگنی اور رات چوگنی' ترقی کر رہا ہے-

حکومت کی جانب سے بھی 'غربت نہیں غریب مٹاؤ' کے تحت بننے والی پالیسیاں نت نئے طریقوں سے اسے ختم کرنے کے درپے ہوتی ہیں لیکن یہ بیچارہ اپنے فقروفاقہ میں خوش، زندگی میں مگن رہتا ہے اور صرف اپنے حالات کا دکھ اٹھائے پھر رہا ہوتا ہے.دوسری طرف امیر طبقہ ہے.

ذکر اگر ہمارے ملک کے مذکورہ طبقے کا ہو رہا ہو تو اسکے ساتھ 'بہت' کا سابقہ لگ جاتا ہے. انکا ذکر کرنے کی کیا ضرورت یہ ہماری اور آپکی 'پہنچ' سے اوپر کی چیز ہیں.یہ بھی ہمارا موضوع نہیں ہیں!

ہم جس طبقے کی بات کرنے جا رہے ہیں وہ ہم اور آپ جیسے لوگ ہیں، تنخواہ دار اور کروڑ روپے کا ذکر سن کر اسکے صفر گننے والے کیونکہ انکا کبھی ان سے 'اکٹھا' پالا نہیں پڑا ہوتا.

یہ مڈل کلاسیے بیچارے سب سے مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں کیوں کہ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنی زندگی کھینچ تان کر گزارا کر رہا ہوتا ہے اور ساتھ میں اسکی حالات کے ساتھ ایک مسلسل جنگ بھی چل رہی ہوتی ہے اپنی 'مڈل کلاسی' کا بھرم رکھنے کا یہ کیونکہ کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اسی لئے ہمارے ملک میں ان پر اتنا بوجھ لادا جا رہا ہے کہ یہ ایک دن کڑچ کر کے ٹوٹ جائیں.

کسی بھی ملک کی معیشت میں اس طبقہ کی قوت خرید معیشت کی بڑھوتری میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے. ایسے میں ہر نئے بجٹ کی آمد انکے لئے سوہان روح ہوتی ہے اور یہ اس حساب کتاب میں جڑ جاتے ہیں کہ اگلی پہلی پر جب مہینے کا راشن خریدا جائے گا تو کتنے پیسوں کا 'ٹیکا' اخراجات میں منہ چڑھائے گا. اسکے حالات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر غربت کی تعریف میں ذرا فیاضی دکھائے جائے تو ان میں سے ایک بڑی تعداد کی اپنے سے نچلی کلاس میں تنزلی ہو جائے.

نئے بجٹ کا شور اتنا ہے کہ کان دکھنے لگے ہیں میڈیا پر بیٹھے لوگ تبصروں پر تبصرے فرما رہے ہیں کہ کسکا فائدہ ہوا اور کسکا نقصان. کس چیز پر کتنا ٹیکس لگ گیا وغیرہ وغیرہ.

میرے نزدیک 'مڈل کلاس' طبقہ سب سے زیادہ معصوم ہوتا ہے کیونکہ یہ نہ چاہتے ہوے بھی اپنی سے نچلی اور اپنے سے اوپر والے طبقات کا بوجھ ڈھو رہا ہوتا ہے اور ہر بجٹ میں اس پہ نئے ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر اسکی کمر کو 'ٹیسٹ ' کیا جاتا ہے.

بجٹ کے بعد دفتر سے تنخواہ لے کر نکلے تو سب سے پہلے اسے پتا چلتا ہے کے اسکی تنخواہ پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے، مطلب کہ اب اسکے ہاتھ میں کم پیسے آیا کریں گے. اس ضمن میں تو بیچارے کے پاس 'ٹیکس چوری' کا اختیار بھی نہیں ہوتا کیونکہ ٹیکس ہاتھ میں پیسے آنے سے بھی پہلے کاٹ لیا جاتا ہے.

پھر باہر نکلو تو اگر کوئی چھوٹی موٹی سواری ہے تو اس میں ڈلوائے جانے والے ایندھن کی بڑھی ہوئی قیمت یا رکشہ، ٹیکسی یا بس وغیرہ 'بجٹ آ گیا ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے سر جی' کے نام پر اپنا اپنا خراج وصول لیتے ہیں. دکان سے کچھ لینا پڑ جائے تو وہاں بھی 1 فیصد بڑھا ہوا GST اسکی محنت کی کمائی میں سے اپنے حصے کی بوٹی نوچ لیتا ہے.گھر پہنچے  تو بجلی غائب لیکن جب بل آئے تو یوں لگتا ہے بجلی گھریلو استعمال کے لئے نہیں بلکہ صنعتی مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جا رہا ہے.

غرضیکہ بجٹ چاہے مسلم لیگ ن کی حکومت کا ہو یا پھر پیپلز پارٹی کا ذرا ادھر ادھر کے بعد اسکی حالت کم و بیش ایسی ہی ہو گی کیونکہ خزانہ ان پارٹیز نے نہیں بھرنا بلکہ عوام نے بھرنا ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ خزانہ بھرنے کی ذمہ داری صرف 'مڈل کلاسیوں' پر ڈالی جائے اور کاروباری طبقہ اس سے جان بچا جائے.

RGST والا معامله بھی ابھی تک حل نہیں ہوا، اس سے ہمارے ملک میں ٹیکس چوری کا دھندا کافی حد تک کم ہو سکتا ہے جس سے دیگر الم غلم ٹیکسز کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے اور ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد میں خاصا اضافھ بھی کیا جا سکتا ہے. یہ ٹھیک ہے کہ ہر نیا  سسٹم اپنے اندر خامیاں بھی رکھتا ہے لیکن انکا سدباب بھی کیا جا سکتا ہے.

ذراعت ہمارے ملک کا ایک ایسا شعبہ ہے جو ٹیکس سے تقریباً مستثنیٰ ہے اسکی آمدنی پر بھی ٹیکس وصولی ہونی چاہیے. اسکے علاوہ بھی ہمارے ملک میں کئی ایسے پیشے ہیں جنھیں اس دائرہ کار میں لا کر ملکی معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے.

حالیہ بجٹ ہمیں پاکستان کی معاشی صورتحال کا اصل بھیانک چہرہ دکھا رہا ہے اور اسکی درستگی میں جیسے 'مڈل کلاسیے' اپنے حصّے سے بڑھ کر بوجھ اٹھا رہے ہیں ویسے ہی باقی تمام طبقات کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا.

دوسری طرف حکومت کو بھی مختلف شعبہ جات کو ٹیکس کے دائرہ میں لانے کے معامله میں 'ڈنڈی مارنے' سے پرہیز کرنا ہو گا. ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنے کے لئے نظام میں انقلابی تبدیلیاں بھی لانی ہوں گی، اسکی وصولیوں کو بہتر کرنے کے لئے ٹیم کی تشکیل کرنا ہو گی.

معیشت کا معامله اب بہت نازک مرحلے سے گزر رہا ہے جس کے لئے ذرا سی بھی بے احتیاطی نہایت خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ اگر صرف مڈل کلاس ہی یہ بار اٹھاتی رہی تو اندیشہ ہے کہ کہیں ایک دن یہ سب کچھ پھینک پھانک کر گریبان پکڑنے پر نہ اتر آئے...


  علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔

علی منیر

علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Jun 14, 2013 06:57pm
انسانوں میں کلاس ملاس نہیں هوتی یۂ صرف هماری ایجاد هے میرے رائے میں سب انسان برابر هیں اس میں درجۂ بندی کا قاتل نہیں
Ali Jul 23, 2013 08:11pm
koyi haal nahi hai aap ka! baat ho kiya rahi hai, and aap kaha hain!?

کارٹون

کارٹون : 17 اکتوبر 2024
کارٹون : 16 اکتوبر 2024