اسلام آباد میں گرفتاریوں پر پی ٹی آئی مظاہرین کا غصے کا اظہار
راولپنڈی/اسلام آباد : مظاہرین اس وقت دارالحکومت کی سڑکوں پر پاگلوں کی طرح بھاگنے لگے جب پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی) کے خلاف کریک ڈاﺅن میں پکڑے گئے درجنوں افراد کو اسلام آباد ضلعی عدالتوں میں پیش کیے جانے کا امکان سامنے آیا۔
یہ لوگ جو گرفتار کیے گئے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے جمع ہوئے تھے، نے پرتشدد رویہ اپنا لیا جس کے باعث پولیس کو سابق سینیٹر اور پی ٹی آئی کے رہنماءاعظم خان سواتی سمیت متعدد اہم لیڈرز کو حراست میں لینا پڑا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلعی عدالت کے باہر پی ٹی آئی ورکرز نے احتجاج کرکے اپنی گرفتاری اور زخمی ہونے کا خطرہ مول لیا مگر معروف ڈی جے بٹ کے سوا ان کی جماعت کے کسی رکن کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ایف ایٹ میں ضلعی عدالتوں میں ان افراد کو پیش کیا گیا جنھوں نے ڈبل سواری کی پابندی کی، جبکہ گرفتار کیے جانے والے سیاسی کارکن تاحال دارالحکومت کے مختلف تھانوں میں قید ہیں۔
ان افراد کو ایف آئی آر نمبرز 132 اور 250 کے تھت حراست میں لیا گیا ہے جو بنی گالا اور بہارکہو تھانوں میں درج کی گئی تھیں، ان ایف آئی آرز میں پولیس نے کہا ہے کہ ان تمام ملزمان کو ڈبل سواری کی پابندی کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں احتجاجی ہجوم نے گرفتار افراد کو عدالت لے کر جانے والے ایک پولیس گاڑی پنکچر کردی اور عندلیب عباس سمیت مخصوص پی ٹی آئی اراکین نے گاڑی پر دھاوا بول کر کیمروں کے سامنے حکام کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس نے پی ٹی آئی رہنماﺅں اعظم خان سواتی، فراز خان شلبی، سید رضا علی شاہ، علی اعوان، فوزیہ قصوری، عندلیب عباس، نفیسہ خٹک اور سابق بیوروکریٹ روائیداد خان سمیت ڈیڑھ سو دیگر اراکین کے خلاف ضلعی عدالتوں کے باہر ہجوم اکھٹا کرنے پر مقدمات رجسٹر کرلیے۔
ان لوگوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی متعدد دفعات جن میں 148، 149، 188، 186، 224، 341، 351، 427 اور 511 شامل ہیں، کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
مگر ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کے خالف مقدمات درج کرنے کے معاملے میں پولیس کچھ زیادہ ہی آگے چلی گئی یہاں تک کہ فوزیہ قصوری جو اس وقت ملک میں موجود ہی نہیں، کا نام بھی ایف آئی آر میں درج کرلیا گیا ہے، اس حقیقت کے سامنے آنے ہفتے کی رات پر پولیس فورس میں بیشتر چہرے شرم سے سرخ نظر آئے۔
ہفتہ کی دوپہر قیدیوں کی آمدورفت کے لیے استعمال ہونے والی دو گاڑیاں قیدیوں کو ریمانڈ کے لیے عدالت لے کر آئیں، ، تاہم اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں پیش کیے گئے افراد سیاسی کارکن نہیں تھے۔
پی ٹی آئی کے مشتعل کارکن جو عدالتوں کے باہر جمع ہوکر گاڑیوں سے قیدیوں کو آزاد کرانے کی کوشش کررہے تھے، عدالتی احاطے سے نکل گئے، جس سے اس جگہ حالات معمول پر آگئے۔
جب مظاہرین احتجاج کررہے تھے تو انسپکٹر جنرل اسلام آباد طاہر عالم خان ذاتی طور پر عدالت پہنچے اور پی ٹی آئی رہنماﺅں سے بات چیت کی کوشش کی۔
آئی جی نے اعظم سواتی کو سیلوٹ کرتے ہوئے کہا"میں آپ کو سیلوٹ کرتا ہوں کیونکہ آپ سابق سینیٹر ہیں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس جگہ سے نکل جائیں"۔
مگر اعظم سواتی نے انکار کردیا تو انہیں اور فراز خان شبلی کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا اور انہیں مارگلا پولیس سٹیشن لایا گیا جہاں سے انہیں بعد ازاں شالیمار پولیس سٹیشن منتقل کردیا گیا۔
پی ٹی آئی کے قیدیوں کو مظاہرین کے ہاتھوں نقصان پہنچنے والی وین کی متبادل گاڑی میں عدالتی احاطے میں پہنچایا گیا، ان گاڑیوں کو فیض آباد پر مطاہرین نے ایک بار پھر روکا مگر پولیس نفری کی کوشش سے وہ اڈیالہ جیل جانے میں کامیاب ہوگئیں۔
اس جگہ پر موجود ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ جن افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا انہیں ڈبل سواری کی پابندی پر حراست میں لیا گیا تھا اور ان کا گرفتار سیاسی ورکرز سے کوئی تعلق نہیں" ان لوگوں کو کوئی اندازہ نہیں کہ وہ کن کے لیے احتاجج کررہے ہیں اور انہیں حراست سے نکال کر آزاد کرانے کی کوش کررہے ہیں"۔
راولپنڈی میں کریک ڈاﺅن جاری
راولپنڈی کی پی ٹی آئی قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ ہفتے کی شب مقامی پولیس نے شہر کے مختلف مقامات سے ان کے ساڑھے چار سو کے قریب پارٹی ورکرز کو گرفتار کیا ہے۔
مگر پولیس اور مقامی انتظامیہ نے گرفتار شدگان کی تعداد ڈھائی سو بتائی ہے جنھیں ان کے بقول دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ ڈی سی او ساجد ظفر ڈل نے جمعے کی شب دفعہ 144 کا نفاذ کیا تھا"پولیس اپنی کارروائی اگلے چند روز تک جاری رکھے گی تاکہ شارع دستور پر سیاسی کارکنوں کی تعداد میں کمی لائی جاسکے"۔
اس نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے بیشتر افراد کو رات کے وقت اٹھایا گیا جب وہ اسلام آباد سے راولپنڈی واپس آرہے تھے۔
اس کا کہنا تھا کہ بیشتر افراد موٹرسائیکلوں پر سفر کررہے تھے۔
پی ٹی آئی کے ضلع راولپنڈی کے صدر عارف عباسی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس نے تحریک انصاف کینٹ کے صدر چوہدری مقرب اور ان کے دو مشیران سمیت متعدد پارٹی ورکرز کو گرفتار کای ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جہلم سے پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی کے سابق امیدوار مرزا محمود کو بھی حراست میں لے کر اڈیالہ جیل بھیجا گیا ہے۔
عارف عباسی نے کاہ کہ پارٹی پیر کے روز ان غیرقانونی گرفتاریوں کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔
دھرنے میں ہجوم بڑھ گیا
کارکوں کی گرفتاری کے بعد حراست میں لیے جانے کے خوف کے باعث بیشتر افراد نے ہفتے کو دھرنے سے واپس جانے کی بجائے وہیں قیام کو ترجیح دی۔
اس کے نتیجے میں شارع دستور میں دن کی روشنی میں بھی دھرنے میں کافی ہجوم دیکھا گیا جو کہ بہت کم ہوتا ہے کیونکہ بیشتر افراد وہاں رات کے وقت آتے ہیں، جبکہ دن میں وہاں پی اے ٹی کے حامیوں کو غلبہ نظر آتا ہے۔
گجرات کے رہائشی اور پی ٹی آئی کے حامی محمد اشرف نے ڈان کو بتایا کہ اس نے دو ہفتے جیل میں گزارے ہیں اور کافی بڑی رقم رشوت میں دے کر رہائی حاصل کی" میں دوبارہ گرفتار ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا، اس لیے میں نے دھرنے کے مقام پر ہی قیام کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ دھرنے کو چھوڑ کر اپنے ہوٹلوں کو واپس جانے والے بیشتر کارکن گرفتار کیے گئے ہیں"۔
پی ٹی آئی کے ایک اور حامی چوہدری محمد عظیم نے بتایا" میرا بھائی فلک شیر گرفتار ہوگیا ہے، میں اس بات کا قائل ہوگیا ہوں کہ پی ٹی آئی کارکن تاریخ میں اپنا نام درج کرا رہے ہیں، ہمارے ورکرز کا عزم اس طرح کی قربانیوں سے مزید مضبوط ہوگا"۔