مصباح الحق یا نواز شریف، کس کا استعفیٰ ضروری؟
ملک میں حالیہ سیاسی بحران کے عروج کے دنوں میں پاکستان کرکٹ بھی زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں تھا۔ گو کہ سیاسی بحران کا اونٹ اس وقت بھی کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دیتا، لیکن بے یقینی کی کیفیت میں ضرور کمی آئی ہے۔ جب "حکومت اب گئی، کہ تب گئی" والا معاملہ تھا تو انہی دنوں دونوں ٹیسٹ میچز اور اس کے بعد ون ڈے سیریز میں بری طرح شکست کھانے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم منہ چھپائے سری لنکا سے وطن واپس پہنچی تھی۔
ورلڈ کپ سے صرف چھ مہینے پہلے اس سے برا نتیجہ نہیں آ سکتا تھا۔ اگر ایک ون ڈے میں فواد عالم اور صہیب مقصود کی ناقابل یقین کارکردگی کو ہٹا دیں تو پاکستان کی مجموعی پرفارمنس صفر بٹا صفر رہی۔ پھر شکست تو بہرحال شکست ہی ہوتی ہے، اسے کوئی قبول کرنے اور اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا، یہاں تک کہ انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر ناکامیوں کا سامنا کرنے والے کپتان مصباح الحق بھی۔
مصباح الیون کی خوش قسمتی کہیے، یا پاکستان کرکٹ کی بدقسمتی، کہ بدترین کارکردگی کے بعد جب ٹیم وطن واپس آئی تو سیاسی بحران کی شدت کی وجہ سے اس کی کارکردگی کا ویسا محاسبہ نہیں ہوسکا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ سیاسی محاذ آرائی کے اس میدان میں کرکٹ کی شکست کو بھلا کون پوچھتا؟ اس وقت تو لوگوں کے بقول ملک داؤ پر لگا ہوا تھا۔
اب جبکہ سیاسی منظرنامے کی گرد آہستہ آہستہ بیٹھ رہی ہے اور سعید اجمل پر پابندی جیسی بڑی خبر نے سب کی توجہ دھرنوں سے ہٹا کر کرکٹ کی جانب کردی ہے، ٹیم کے مسائل بہت نمایاں ہو کر سامنے آ رہے ہیں جن میں سب سے اہم قیادت کا مسئلہ ہے۔ ایک جانب جہاں وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کے سخت مطالبات کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کہتے ہیں کہ صرف ایک سیریز کی کارکردگی پر مصباح الحق کو نہیں ہٹا سکتے۔
مزید پڑھیے: ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کو پھر زبردست دھچکا
حالانکہ 2013ء میں بھارت اور جنوبی افریقہ کو انہی کے میدانوں پر سیریز میں شکست دینے کے علاوہ پاکستان ماضی قریب میں کسی قابل ذکر ٹیم کو ون ڈے سیریز نہیں ہرا پایا۔ رواں سال بھی 8 سے زیادہ مہینے گزر چکے ہیں اور سوائے ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف ایک میچ جیتنے کے پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا، حتیٰ کہ ایشیا کپ بھی نہیں کہ جہاں فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں پاکستان کو شکست ہوئی۔
وجہ؟ دراصل پاکستان نے گزشتہ چند سالوں میں جو بھی مقابلے جیتے ہیں، یا پھر ہارے بھی ہیں، تو ان میں ایک بات یقینی ہوتی تھی کہ مصباح ضرور کارکردگی پیش کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ حلقے مصباح کو قیادت سے ہٹانے کی کوششوں کی مذمت کرتے آئے ہیں، گو کہ کپتان ٹیم کی اجتماعی کارکردگی اور نتائج کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے لیکن بیٹنگ میں مسلسل نمایاں کارکردگی دکھانے کی وجہ سے کپتان کو "اچھی لکھائی کے نمبر" تو ملتے ہی رہے۔ یہاں تک کہ ان کے بیٹ سے رنز اگلنا بند ہوگئے۔ یعنی مصباح کے ٹیم میں برقرار رہنے کا جو واحد جواز تھا، وہ بھی ختم ہوچکا اور اب ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ٹی ٹوئنٹی کی طرح ون ڈے کرکٹ کو بھی خیرباد کہیں اور اپنی خدمات کو ٹیسٹ تک کے لیے وقف کردیں۔
کیونکہ رواں سال کھیلے گئے 8 ون ڈے میچوں میں صرف 26 کے اوسط سے 210 رنز ظاہر کرتے ہیں کہ اب وہ تھک چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال انہوں نے 34 ون ڈے میچز میں تقریباً 55 کے اوسط کے ساتھ 1373 رنز بنائے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مصباح الحق ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ "وردی" نہیں اتاریں گے ۔ جس طرح محمد حفیظ نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء میں شکست کی ذمہ داری قبول کی اور باعزت انداز میں قیادت سے استعفیٰ دیا، بالکل اسی طرح مصباح الحق بھی دورۂ سری لنکا میں شکست کی ذمہ داری قبول کریں اور مستعفی ہوجائیں، کیونکہ یہ ایک معمولی دورہ نہیں تھا بلکہ بقول ہیڈ کوچ وقار یونس ورلڈ کپ کی تیاری کے سلسلے میں پہلا اور اہم قدم تھا۔
مزید پڑھیے: جب "لارڈز کا بھوت" دفنا دیا گیا
نئے کپتان کے اعلان کا بہترین وقت یہی ہے، بورڈ کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے لیے اسکواڈ کا اعلان کرتے ہوئے 40 سالہ مصباح کی جگہ کسی اور کو کپتان مقرر کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر نئے کپتان کو ورلڈ کپ سے پہلے دو سیریز کھیلنے کا موقع مل جائے تو اسے ٹیم کے مزاج سے کچھ آشنائی حاصل ہوجائے گی۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ یہ موقع گنوا دے گا۔
آسٹریلیا جیسی پائے کی ٹیم کے خلاف پاکستان کے جیتنے کے امکانات 30 فیصد بھی نہیں ہیں اور اس میں شکست کے بعد مصباح الحق کے پاس دنیائے کرکٹ سے شایان شان رخصتی کا آخری آپشن بھی ختم ہوجائے گا۔ اگر پھر بھی مصباح کی عالمی کپ میں کپتانی کی خواہش کا احترام کیا گیا تو ورلڈ کپ کے بعد "بہت بے آبرو ہوکر" نکالے جائیں گے بلکہ ان کے علاوہ دیگر کئی کھلاڑیوں کا مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا جیسا کہ ہمیشہ عالمی کپ کے بعد ہوتا رہا ہے۔
دوسری صورت میں اگر آسٹریلیا کے خلاف سیریز ہارنے کے بعد بورڈ کا ماتھا ٹھنکا اور اس نے نیا کپتان مقرر کرنے کی کوشش کی تو اس وقت انگریزی محاورے کے مصداق یہ "گرم آلو" کون تھامنے کو تیار ہوگا؟