• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

انصاف کا تقاضہ، اور دوسری بحثیں

شائع September 12, 2014
کئی لوگوں کو دھرنوں میں ہونے والی ان جارحانہ تقاریر پر اعتراض ہوا لیکن انہیں ناانصافی کے گھناؤنے واقعات نظر نہیں آئے۔
کئی لوگوں کو دھرنوں میں ہونے والی ان جارحانہ تقاریر پر اعتراض ہوا لیکن انہیں ناانصافی کے گھناؤنے واقعات نظر نہیں آئے۔

مشہور تاریخ دان ابن خلدون نے "مقدمہ" میں ایک طاقتور اور انصاف پسند اتھارٹی کی موجودگی پر زور دیا ہے، تاکہ وہ ایک مہذب ریاست میں شہریوں کو طاقتور شہریوں کے ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ زیادتی اور ہوس انسانی فطرت میں موجود ہیں۔ چودھویں صدی کے اس مؤرخ کی یہ دلیل پاکستان کے آج کے حالات سے اس سے زیادہ مماثلت نہیں رکھ سکتی۔

کاغذی طور پر تو پاکستان کے ادارے اپنی مجموعی ذمہ داریوں کی بناء پر طاقتور اور انصاف کرنے والے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم عوام کو زندگی کے مخلتف شعبوں میں انصاف فراہم کرنے کی اداروں اور حکومت کی ناکامی کا عملی مظاہرہ دیکھ رہے ہیں، چاہے بنیادی حقوق کی بات ہو، یا سماجی، قانونی، اور شہری حقوق کی بات ہو۔ ادارے اور حکومت ان طاقتور لوگوں سے نمٹنے میں پوری طرح ناکام رہے ہیں، جو قانون کی بالادستی کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجوہات میں یہ بات بھی شامل ہے، کہ ان لوگوں نے انہی اداروں کو کرپٹ کر دیا ہے، جو ان کا احتساب کر سکتے ہیں۔ غیر مستحق لوگوں کو ذمہ داری اور اختیار دے دیا گیا ہے، جنہیں بہکانا نہایت آسان ہوتا ہے۔ کمزور لوگوں کے لیے انصاف نہیں ہے۔ انہوں نے اب خاموشی سے ظلم سہنا، اور دعاؤں کا سہارا لینا سیکھ لیا ہے۔ لیکن اب ایسا مزید نہیں ہوگا۔

پچھلے 3 ہفتوں میں پاکستان میں ہونے والے واقعات کی ملکی سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عوام کے دو گروپوں کو جب قانونی طریقے سے انصاف فراہم نہیں کیا گیا، تو وہ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوئے، اور پر امن، مگر بلند آواز میں انصاف کا مطالبہ کیا۔ ایک کو حکمران جماعت سے شکایت ہے، تو دوسرے کو پورے سسٹم سے۔ جب ان کو انصاف کی فراہمی سے انکار کر دیا گیا، تو اس کے بعد وہ کس طرح انصاف کا مطالبہ کریں، اور کس سے منصفی چاہیں؟

دونوں گروپوں نے اپنا کیس پاکستان کے عوام کے سامنے رکھا، اور عہد کیا کہ وہ انصاف کی فراہمی تک واپس نہیں جائیں گے۔ بدقسمتی سے دونوں کی صداؤں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کئی لوگ اپنی سیاسی وابستگیوں میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں، اور اپنے ضمیر کی آواز سے محروم ہیں۔ ان لوگوں کو ان جارحانہ تقاریر پر اعتراض ہوا، لیکن انہیں ناانصافی کے وہ گھناؤنے واقعات نظر نہیں آئے۔

کئی لوگوں نے ان کی انصاف کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو غیر جمہوری قرار دیا۔ ایک بے تکی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ کسی کو بھی پارلیمنٹ کے باہر اپنی رائے کا اظہار کرنے اور انصاف کا تقاضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

سامنے موجود مسائل اور ان نا انصافیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے بحث کا رخ اس بات کی طرف موڑ دیا گیا، کہ اگر اس طرح کے مظاہرے کیے بھی جائیں، تو اس کے لیے مناسب جگہ کون سی ہے۔ اپنے پچھلے ظلم و تشدد پر نادم نا ہوتے ہوئے حکومت نے ایک بار پھر طاقت کا بے جا استعمال کیا، جس کی وجہ سے کئی لوگوں کی جانیں گئیں اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔

پولیس کے تشدد کی اس شدت اور وسعت کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، اور ان لوگوں کا جرم بھی کیا تھا؟ ٹی وی پر اس تشدد کو دکھائے جانے پر ان لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ گیا، جنہوں نے کبھی طاقتور سیاستدانوں سے انصاف مانگنے کا سوچا ہو گا۔ حکومت کی نظر میں اپنے شہریوں کی جان کی قدر و قیمت کیا ہے، یہ مناظر دیکھ کر اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ریاستی ادارے، جن کے ذمے انصاف کی فراہمی ہے، خاموش رہے۔

اس کے بعد طاقت کے ایوانوں میں موجود حکمرانوں اور اسٹریٹیجک جگہوں پر موجود ان کے ترجمانوں کی بحث اس بات کی طرف منتقل ہو گئی، کہ دھرنوں اور مظاہروں میں لوگ کتنے تھے۔ اس بات سے فرق نہیں پڑتا۔

ہمارے اندھے حکمرانوں پر یہ بات کبھی بھی نہیں کھلی، کہ اگر پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس صرف ایک عمر رسیدہ عورت بھی حکومت سے انصاف کا تقاضہ کرے، تو یہ اتنی طاقتور آواز ہو گی کہ اس کی راہ میں کوئی ٹک نہیں سکتا، لیکن یہ تب ہو جب ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز موجود ہو۔

پھر بحث پارلیمنٹ میں منتقل ہو گئی۔ جمہوریت میں انصاف کی فراہمی کی اہمیت پر کوئی تقریر نہیں کی گئی۔ ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے باہر انصاف مانگنے والے لوگوں کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تحفظ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ ان لوگوں کے خلاف متحد ہوگئے، جو ممکنہ طور پر ان کی طاقت چھین سکتے ہیں۔

ارکان پارلیمنٹ کو صرف ملک میں انصاف کی فراہمی سے خطرہ تھا۔ الیکشن کا آڈٹ صرف کچھ ارکان کے لیے تو مشکلات پیدا کر سکتا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے لیے نہیں۔ پارلیمنٹ کے تقدس پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، لیکن ارکان اپنے اپنے تقدس کے خود ذمہ دار ہیں۔

کیا ارکان پارلیمنٹ اپنے حاصل کردہ ووٹس کی آڈٹ کرانے، اور الیکشن سے پہلے جمع کرائے گئے اپنے حلف ناموں کی تصدیق کے لیے تیار ہیں؟ پارلیمنٹ میں موجودگی صرف اس وقت موزوں ہو سکتی ہے، جب ارکان دونوں طرح کی جانچ کے لیے تیار ہوں۔ لیکن اس کام میں ان کا انکار اپنی غلطی تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

انصاف کے مطالبوں پر توجہ نہیں دی جارہی۔ پارلیمنٹ کے اراکین انصاف کے بجائے "اسٹیٹس کو" کی حمایت کر رہے ہیں۔ پاکستان کو ابن خلدون کی طاقتور اور انصاف پسند اتھارٹی کا انتظار ہے، تاکہ اس کے پریشان حال شہریوں کو طاقتور شہریوں کی زیادتی سے تحفظ مل سکے۔

آئین نے واضح طور پر اداروں کی ذمہ داری کا تعین کر دیا ہے، لیکن کیا ان اداروں میں موجود لوگ اپنی سیاسی وابستگیوں، جانبداری، اور تعصب سے بالاتر ہو کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے؟ وقت ہی بتائے گا کہ آیا ہم ایک مہذب اور انصاف پسند معاشرہ ہیں، یا ایک اپنے کمزور اور پسے ہوئے لوگوں کا تحفظ کرنے کے لیے ہمیں کسی انقلاب کی ضرورت ہے۔ انتخاب ہمارا ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار میں 9 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

محمد زبیر خان

لکھاری سابق وزیر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

akn Sep 12, 2014 08:37pm
.. . . Great things in simple words
Yameen Sep 13, 2014 05:59pm
السلام علیکم، آج پہلی مرتبہ آپ کا کالم پڑھا، بہت پسند آیا، آپ نے قلم کی طاقت کو حق کی آواز کے طور پر استعمال کیا، جس پر نہایت خوشی ہوئی، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کرپٹ حکمرانوں اور جعلی جمہوریت سے نجات بھی دے، اور گھروں سے نکل کر حقیقی قیادت کا دست و بازو بن کر پاکستان کو حقیقی جمہوریت سے ہمکنار کرنے کی توفیق بھی دے۔ آمین

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024