حکومت دھرنوں کے اختتام تک پارلیمنٹ اجلاس جاری رکھنے کی خواہشمند
اسلام آباد : وزیراعظم نواز شریف منگل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں خاموشی سے اپنی حمایت کے عزم کو سنتے رہے تاکہ ان کی حکومت کے لیے خطرہ بننے والے دھرنوں کے خلاف طاقت کا اظہار کیا جاسکے۔
عام طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا سیشن ملتوی کردیا جاتا ہے کہ تاکہ اراکین گزشتہ ہفتے کی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے پیش نظر اپنے حلقوں میں جاسکیں۔
مگر اس بار ایسا نہیں ہوا کیونکہ حکومت اراکین کو اسلام آباد میں دیکھنا چاہتی ہے تاکہ مشکل میں گھرے وزیراعظم کی حوصلہ افزائی کی جاسکے جو کود پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کا ہیلی کاپٹرز کے ذریعے دورہ کررہے ہیں۔
منگل کو بھی اپنی حمایت میں چار مزید تقاریر سننے کے بعد بھی ایسا ہی کیا۔
اس وقت پارلیمنٹ کوئی پارٹی یا گروپ پاکستانی تاریخ کے سب سے طویل دھرنوں جو چھبیس دن سے جاری ہے، سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات نہیں کررہا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں گزشتہ ماہ اور دو ستمبر سے جاری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کسی میں بھی اس پر بات نہیں کی گئی۔
مگر مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے اسپیکر ایاز صداق اور حکومتی بینچز مزید تقاریر کو خوش آمدید کہیں گے جبکہ اس حوالے سے حکومتی الفاظ سیشن کے اختتام تک سامنے نہیں آسکیں گے۔
جیسا کہ نظر آتا ہے کہ حکومت تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ہزاروں مظاہرین کو تھکانے کی خواہشمند ہے جو کہ مسلسل پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جس کو آٹھ روز ہوگئے ہیں، پہلے ہی ملکی تاریخ کا سب سے طویل مشترکہ اجلاس بن چکا ہے اور یہ جمعے تک یا دھرنوں کے اختتام تک جاری رہ سکتا ہے جو کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، پی اے ٹی سربراہ طاہر القادری کی روزانہ کی تقاریر کا مقابلہ کیا جاسکے۔
قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے منگل کو اپنے خطاب کے دوران دھرنوں کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ اسلام آباد میں وفاقی حکومت کی رٹ "کہیں" نظر نہیں آرہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے نام پر مظاہرین کو لمبی رسی تھما دی گئی ہے جس سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
انہوں نے حکومت سے دو روز میں دھرنوں کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
حکومتی اتحادی مسلم لیگ فنکشنل سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مظفر حسین شاہ نے پارلیمنٹ کو متحرک اور آئین کی آٹھویں ترمیم کو دوبارہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا جس سے ان کے بقول" متعدد مسائل" کو حل کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے عمران خان اور طاہر القادری پر لوگوں کے فرسٹریشن کے استحصال کا الزام عائد کرتے ہوئے مظاہرین سے مذاکرات کے ذریعے انتخابی اصلاحات کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
سینیٹر عبدالرﺅف نے احتجاجی جماعتوں پر جمہوریت کو فاشٹ طریقوں سے ڈیل کرنے کا الزام لگایا جبکہ سینیٹر کلثوم پرویش نے وزیراعظم کو مظاہرین کے سامنے استقامت سے کھڑے رہنے کا کہا۔
بعد ازاں اجلاس بدھ کی صبح تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔