آصف زرداری کے ترجمان کی سول فوجی قیادت کے خفیہ مذاکرات کی تجویز
اسلام آباد : اس وقت جب احتجاجی دھرنوں کے محاصرے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو پیر کے روز ایک ہفتہ مکمل ہوگیا، ایک سینیٹر جو عام طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ترجمانی کرتے ہیں، نے پارلیمانی سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان خفیہ مذاکرات کی تجویز پیش، تاکہ "مستقل کشمکش" کا حل تلاش کیا جاسکے۔
یہ خیال سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے آیا کہ یہ خفیہ مذاکرات دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹیوں برائے دفاع کے ذریعے ہو تاکہ موجودہ بحران کو حل کرنے کے لیے" پیشرفت" کی جاسکے جو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے گزشتہ پچیس روز سے اسلام آباد میں جاری دھرنوں کی وجہ سے نواز شریف حکومت کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے موجودہ بحران کے حل کے لیے چھ نکاتی فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا" ہمیں سول قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کے درمیان دوبدو ان کیمرہ مذاکرات کا انعقاد کرنا چاہئے"۔
انہوں نے مسلم لیگ ق کے رہنماءمشاہد حسین سید یا پیپلزپارٹی کے لیڈر رضاربانی کا نام دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر تجویز کرتے ہوئے کہا" فوجی قیادت سے سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات ہونے چاہئے تاکہ پاکستان کی تخلیق کے بعد سے دونوں اطراف کے درمیان جاری کشمکش کا مستقل حل نکالا جاسکے"۔
انہوں نے موجودہ بحران کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا جس نے پنجاب سے قومی اسمبلی کے صرف چار حلقوں میں پی ٹی آئی کے آڈٹ کے مطالبے اور سترہ جون کو لاہور میں پولیس کی فائرنگ سے پی اے ٹی کے چودہ کارکنوں کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تھا، جبکہ حکومتی وزراءکی جانب سے غرور کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کی موجودہ پالیسی کے تحت وزیراعظم کی حمایت اور مظاہرین کے جانب سے انتخابی دھاندلی کی عدالتی تحقیقات کے دوران کم از کم ایک ماہ کے لیے استعفے کے مطالبے پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مظاہرین کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اپنی پہلی تجویز میں انہوں نے کہا کہ ایوان ایک قراردد کے ذریعے غیر سیاسی اور غیرآئینی مطالبات کرنے والے دھرنوں کی مذمت کرے جو سویلین قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں۔
دیگر نکات میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جولائی میں جاری اس نوٹیفکیشن سے دستبردار ہوجائے جس کے تحت عدالتی نظرثانی کے بغیر فوج کوآرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں طلب کیا گیا، اسی طرح بامقصد انتخابی اصلاحات اور ان چار شقوں پر عملدرآمد کرایا جائے جن پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان 2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے سول فوجی تعلقات پر بات کرتے ہوئے دو ستمبر سے پارلیمنٹ میں موجودہ سیاسی بحران کے مبینہ گمنام اسکرپٹ رائٹرز کی بحث کا حصہ بنتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہپارلیمنٹ ان اسکرپٹ رائٹرز کو سامنے لائے۔
میڈیا دفاتر اور عملے پر حملوں کے حوالے سے سینیٹر فرحت اللہ بابر کے چھ نکات میں سے ایک میں نجی چینی جیو ٹیلیویژن کی شکایات پر ایک قرارداد کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین کافی دن کی غیرحاضری کے بعد ایوان میں آئے جن کے بارے میں یہ رپورٹس آرہی تھیں کہ پی ٹی آئی کے تیس سے زائد اراکین رکن قومی اسمبلی کے بعد ایم کیو ایم کے اراکین بھی مستعفی بھی ہوسکتے ہیں، اس جماعت کے سینیٹر بابر خان غوری نے ایوان پر زور دیا کہ وہ موجودہ بحران کے حوالے سے فوج یا کسی اور قومی ادارے پر الزامات سے گریز کریں اور انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ڈیڈلاک کے خاتمے کے لیے تحمل کا مظاہرہ کرے۔