• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am

قصہ گوئی: سیکھنے اور سکھانے کا آزمودہ طریقہ

شائع October 10, 2014
قصہ گوئی کے طرح طرح کے فائدے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں ٹیچنگ میں اس تکنیک کا استعمال کرنا چاہیے۔  — فوٹو totalesl.com
قصہ گوئی کے طرح طرح کے فائدے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں ٹیچنگ میں اس تکنیک کا استعمال کرنا چاہیے۔ — فوٹو totalesl.com

حاکم آٹھ سال کا ہے۔ اس نے اپنی سائنس کلاس میں مائیکرواسکوپ استعمال کرنی سیکھی۔ مائیکرواسکوپ ایک ایسا آلہ ہے، جس میں لگے لینس کے ذریعے آپ ان چھوٹی چیزوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں، جو آنکھ سے نظر نہیں آسکتیں۔ مائیکرواسکوپ سے دیکھنے پر حاکم کو پتوں کے اندر موجود کلوروپلاسٹ دکھائی دیے۔

بورنگ ہے نا؟ مجھے لگتا ہے کہ زیادہ تر آٹھ سالہ بچوں کو یہ پہلا پیراگراف بورنگ لگا ہو گا۔

لیکن اگر اسی کہاںی کو ایک دوسرے انداز سے پیش کیا جائے تو؟

"ان تمام چیزوں نے جو آٹھ سال کے حاکم نے میٹل کی اس چیز جسے مائیکرواسکوپ کہتے ہیں سے دیکھیں، اسے بہت حیران کیا۔ وہ پتوں پر بلبلوں جیسے بڑے بڑے سوراخوں کو دیکھ رہا تھا، جو اسے عام آنکھ سے نظر نہیں آ رہے تھے، لیکن مائیکرواسکوپ میں کافی بڑے لگ رہے تھے۔ ان چھیدوں کو کلوروپلاسٹ کہا جاتا ہے، اور انہی کے اندر وہ مادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے پتوں کو ان کا مخصوص ہرا رنگ ملتا ہے"۔

قصہ گوئی صدیوں سے سننے والوں کی توجہ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ڈاکٹر میکسین الٹیریو، جو کہ ایک تجربہ کار لیکچرر ہیں، اور سیکھنے، تعلیم دینے، اور تحقیق کے لیے قصہ گوئی کے طریقوں پر ریسرچ کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ کہانی سنانا مختلف کلچروں اور کمیونیٹیوں کے درمیان رابطے کا ایک طاقتور اور دیرپا اثرات کا حامل ذریعہ ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے، کہ جب ہم نے اپنے علم، خیالات، اور احساسات کو لکھنا نہیں سیکھا تھا، تب بھی ہمیں کہانیاں سنانی ضرور آتی تھیں۔

الٹیریو کہتی ہیں، کہ کہانیوں کے ذریعے سیکھنے سے انسان اپنی اس خاص فطرت کو تسکین دیتا ہے، جس میں تجربات سے سیکھنا، اس علم کو دوسروں تک پہنچانا، اور اس سب کے دوران معنی خیز تبدیلیوں کے لیے مواقع پیدا کرنا شامل ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں، کہ قصہ گوئی سے ایک صحت مند بحث کے دروازے کھلتے ہیں، تعاون بڑھتا ہے، سوال پوچھنے کی قابلیت بڑھتی ہے، جس سے علم مستحکم ہوتا ہے۔


جب ہم نے اپنے علم، خیالات، اور احساسات کو لکھنا نہیں سیکھا تھا، تب بھی ہمیں کہانیاں سنانی ضرور آتی تھیں۔


بروس کارموڈی، جو کہ کینیڈا کے ایک ریٹائرڈ ماہر تعلیم ہیں، اور اب ایک پروفیشنل قصہ گو ہیں، کہتے ہیں، کہ دوسرے فوائد کے علاوہ قصہ گوئی بچوں میں تنقیدی سوچ اور "Imagine" کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔

کارموڈی کہتے ہیں، کہ جب وہ ورکشاپ منعقد کرتے ہیں، تو وہ اکثر کہانی سے شروع کرتے ہیں، جس کے بعد وہ لوگوں سے پوچھتے ہیں، کہ کہانی کے دوران وہ کیا کر رہے تھے۔ ان کے مطابق عام طور پر لوگ یہی جواب دیتے ہیں کہ وہ تصور قائم کر رہے تھے، سوچ رہے تھے کہ آگے کیا ہونے والا ہے، اور اس کہانی میں ہونے والے واقعات کو دوسری کہانیوں سے ملا رہے تھے۔ کارموڈی کے مطابق یہ تمام چیزیں تنقیدی سوچ کو بڑھانے کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہیں، اور یہ تب ہی بڑھتی ہے، جب بچوں کو کہانیوں کے ذریعے سکھایا جائے۔

اس لیے کارموڈی کے مطابق قصہ گوئی لوگوں کی Imagination کو بہتر بنانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے، کیوںکہ کہانی سننے پر لوگ فطری طور پر کہانی میں موجود چیزوں کا تصور کرتے ہیں۔

"اگر آپ ممکنہ چیزوں کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، یا مسئلہ سلجھانے کے لیے مختلف طریقوں پر غور نہیں کر سکتے، تو آپ کبھی حل تک نہیں پہنچیں گے"۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مجھے ایک گاڑی کو سائیکل سے جوڑنا ہے، تو جب تک میں اس مسئلے کی ایک تصویر اپنے دماغ میں نہیں بناؤں گا، تب تک میں اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے ممکنہ طریقوں پر بھی غور نہیں کر سکتا، اور اس طرح کبھی بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

الیسن ڈیویز، جو ایک پروفیشنل قصہ گو ہیں، اور اس موضوع پر کئی کتابیں لکھ چکی ہیں، کہتی ہیں کہ جب ہم کوئی کہانی سنتے ہیں، تو ہمارا دماغ ایک مختلف طرح کا رد عمل دیتا ہے۔ ہم کہانی سننے پر زیادہ سے زیادہ معلومات کو جذب کرتے ہیں، اس لیے اگر ہم بچوں کو سکھانے کے لیے نت نئے طریقے استعمال کریں، تو یہ بہتر ہوگا۔ اگر آپ روز مرہ کی زندگی سے کہانیوں کو نکال دیں، تو یہ صرف معلومات کے تبادلے تک محدود ہوجائے گی، جس میں کچھ مزہ نہیں ہو گا۔

یہ سب سننے میں تو بہت اچھا لگتا ہے، لیکن آخرقصہ گوئی کی تکنیکوں کو تدریس میں کس طرح اپلائی کیا جا سکتا ہے، تاکہ طلباء کی سیکھنے کی قابلیت کو بہتر بنایا جا سکے۔

ڈیویز کے مطابق ذاتی تجربات پر مبنی کہانیوں سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔

"ہم روایتی کہانیوں کو سبجیکٹ ایریا کے تعارف کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں، تاکہ طلباء کو متحرک کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ Interactive کہانیاں بھی بنائی جا سکتی ہیں، جس میں طلباء خود حصہ لیں، کہانی آگے بڑھائیں، اور سبجیکٹ کو کہانی کے ذریعے سمجھیں"۔

وہ کہتی ہیں، کہ اساتذہ ایسا بھی کر سکتے ہیں، کہ کہانی کو اختتام سے تھوڑا پہلے روک دیں، اور طلباء سے پوچھیں کہ ایسی صورت میں وہ کیا کرتے۔ اس کے علاوہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ بچے سوچنا سیکھیں، تو آپ انہیں کہیں کہ وہ اسی کہانی کو ایک اور نقطہ نظر سے بیان کریں۔ اس سے کہانی کا فوکس تبدیل ہوگا، اور بچے اپنے اپنے ذہن کے مطابق مختلف نتائج پر پہنچیں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا، کہ کیا قصہ گوئی کی تکنیکوں سے میتھمیٹکس اور سائنس جیسے ٹیکنیکل مظامین میں بھی مدد لی جا سکتی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کے لیے آپ کو تخلیقی ہونا پڑے گا۔

مثال کے طور پر ڈیویز نے پرائمری اسکول کے بچوں کے لیے کچھ کہانیاں تیار کی تھیں، جن سے انہوں نے بچوں کو Data Handling سکھائی۔ انہوں نے ایک کہانی لکھی، جس میں ایک چھوٹی بچی ہوتی ہے، جس کو ہاکی کھیلنا پسند ہوتا ہے، لیکن ایک لڑکا اسے ہمیشہ کھیل کے دوران تنگ کرتا ہے۔ پھر ایک دن وہ لڑکی اس لڑکے کے سامنے جا کر کہتی ہے کہ "تم پورے اسکول میں سب سے بہتر کھلاڑی نہیں ہو"، تو وہ لڑکا اس کو کہتا ہے کہ اچھا تو پھر ثابت کرو۔

"میری کہانی میں مرکزی کردار، Master Data Cruncher نامی ایک اور کردار کی مدد سے یہ دریافت کر لیتی ہے، کہ اسے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے کس قسم کے ڈیٹا کی ضرورت ہے، ڈیٹا کس طرح حاصل کیا جائے، اور اسے ٹیبلز اور چارٹس میں کس طرح آرگنائز کیا جائے تاکہ اس لڑکے کو غلط ثابت کیا جائے"۔ وہ کہتی ہیں، کہ جب کہانی میں بچی کا لڑکے کے سامنے ڈٹ جانے کا موقع آیا، تو انہوں نے بچوں کو گروپس میں اکٹھا کیا، اور ان سے سوچنے کے لیے کہا۔

"ہم نے انہیں کہا، کہ وہ کہانی کے بیان کو جاری رکھیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا، وہ کس طرح اپنی بات ثابت کرے گی، اس کو اس کے لیے کیسی انفارمیشن کی ضرورت ہو گی، اور اسے کس طرح جمع کر کے پیش کرنا ہے"۔ ڈیویز کہتی ہیں کہ اس مشق نے نا صرف بچوں کو قصہ گوئی میں منہمک کر دیا، بلکہ اس پورے مرحلے کے دوران انہوں نے ڈیٹا ہینڈلنگ کے ساتھ ساتھ اسٹیٹسٹکس (Statistics) کے الفاظ بھی سیکھے۔

کارموڈی، جنہوں نے میتھمیٹکس کے سوالات حل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے بچوں کے ساتھ کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ میتھمیٹکس اور سائنس جیسے ٹیکنیکل سبجیکٹ سمجھنے میں بچوں کو مشکلات تب ہوتی ہیں، جب وہ پرابلمز کا اپنے ذہنوں میں تصور قائم نہیں کر پاتے۔ "وہ مسئلے کو سمجھنے کے لیے اپنے ذہن میں کوئی مثال نہیں بنا پارہے تھے، اور کوئی مسئلہ حل کرنے کے لیے پہلے اپنے ذہن میں تصور بنانا ضروری ہوتا ہے"۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ایک سائنسدان چاند پر اترنے والا ایک نیا Lander ایجاد کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام ممکنات کو اپنے ذہن میں اچھی طرح سوچے۔

کارموڈی تجویز کرتے ہیں، کہ قصہ گوئی کو صرف بچوں کو کہانیاں سنانے تک محدود نہیں کرنا چاہیے، بلکہ انہیں یہ بھی سکھانا چاہیے، کہ کہانیاں کیسے سنائی جائیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب بچے کہانی سنانا سیکھ جاتے ہیں، تو ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ بڑھ جاتا ہے، وہ اچھے جملے بنا سکتے ہیں، اور بہتر لکھاری بھی بن سکتے ہیں۔ یہ سارے ہنر وہ ہیں، جو بچوں کو نا صرف اسکول میں مدد دے سکتے ہیں، بلکہ تب بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں جب وہ اسکول سے نکل کر جاب مارکیٹ میں داخل ہوں گے۔

کارموڈی کہتے ہیں کہ بچوں میں سیکھنے کی قابلیت بڑھانے کے لیے سب سے بہترین سال ان کے پرائمری اسکول کے سال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں، ہمیں کہانی سننے میں زیادہ مزہ آنے لگتا ہے۔

"میں 80 اور 90 سال کے لوگوں کو بھی کہانیاں سناتا ہوں، اور وہ خوب مزہ لیتے ہیں، اس سے ان کے دماغ ایکٹیو رہتے ہیں"۔

ڈیویز کے نزدیک اس معاملے میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، وہ پری-اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کے طلباء کے ساتھ کام کرتی ہیں، اور ان اساتذہ کو بھی سکھاتی ہیں، جو اپنی تدریسی صلاحیتوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ "قصہ گوئی ہر عمر کے لوگوں کے لیے مفید ہے، کیوںکہ یہ انسانی فطرت ہے"۔


جب ہم کوئی کہانی سنتے ہیں، تو ہم اس کہانی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کئی معنوں میں وہ کہانی ہماری کہانی بن جاتی ہے۔


قصہ گوئی کے طرح طرح کے فائدے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں ٹیچنگ میں اس تکنیک کا استعمال کرنا چاہیے۔ جب اساتذہ کی ٹریننگ کی بات آتی ہے، تو اس حوالے سے کافی مواد کتابی صورت میں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ کارموڈی اور ڈیویز اس بارے میں ورکشاپس بھی کراتے ہیں۔

پاکستان میں سیکھنے اور سکھانے کا عمل کافی لگا بندھا قسم کا ہے، جس میں سب سے زیادہ زور یاد کرنے پر دیا جاتا ہے، اور Imagination پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ تعلیمی ماہرین کو اثر انگیز حل لانے چاہیئں، تاکہ بچوں کے ذہنوں کو سیکھنے پر ابھارا جائے، تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے، اور ان میں وہ ہنر پیدا کیے جائیں جو انہیں اپنی باقی زندگی میں کام آئیں، بھلے ہی وہ تنقیدی سوچ ہو، Problem Solving ہو، یا اپنی بات اچھی طرح کہہ سکنے کا ہنر ہو۔

تعلیم کو بچوں کے لیے ایک ڈرائیونگ فورس کی طرح ہونا چاہیے، اسے بچوں کو متاثر کرنا چاہیے، اور ان میں انرجی اور شوق بھر دینا چاہیے، تاکہ وہ تعلیم کو مزیدار اور زندگی تبدیل کرنے والی چیز سمجھیں، ناکہ بورنگ۔

اس کے علاوہ بچوں کے لیے تعلیم سے ایک جذباتی لگاؤ ہونا ضروری ہے، جو کہ قصہ گوئی کے ذریعے بڑھایا جا سکتا ہے۔

کارموڈی صحیح کہتے ہیں، کہ جب ہم کوئی کہانی سنتے ہیں، تو ہم اس کہانی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کئی معنوں میں وہ کہانی ہماری کہانی بن جاتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری Professional Writers Association of Canada کی ممبر ہیں۔ ان سے ainemoorad@post.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 24 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

عینی مراد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 28 اپریل 2025
کارٹون : 27 اپریل 2025