غیر مستحکم معیشت اور دھرنے
پاکستان کے غیر حل شدہ سوالات اسلام آباد کی سڑکوں اور پارلیمنٹ ہاؤس میں کھل کر اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک اور جادوئی نسخے کی تیاری جاری ہے۔ مٹھی بھر مظاہرین اور ان کے ضامن طاقت کے جھکاؤ کو سویلینز سے واپس لینا چاہتے ہیں.
احتساب سے بالاتر، لیکن منتخب حکومت کو چیلنج کیا جارہا ہے، بھلے ہی غیر آئینی طور پر، ان کی جانب سے جنہوں نے ماضی میں کئی مواقع ملنے کے باوجود سسٹم کو درست کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ایک اچھی طرح آزمودہ نسخہ ہی استعمال کرتی ہے، جس نے ماضی میں ہر استعمال کے بعد زہریلی باقیات چھوڑ دی ہیں۔
سب سے پہلے تو کچھ سیاستدانوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے، ان پر دباؤ ڈال کر، ان کی خوشامد کر کے انہیں ایک اتحاد قائم کرنے کے لیے راضی کیا جاتا ہے۔ اس اتحاد کے ممبران کو لوٹ میں سے حصے دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ مہربانی یہ کی جاتی ہے، کہ ان کو احتساب سے مستثنیٰ کر دیا جاتا ہے، اور ماضی کے سارے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ لچکدار ججز اجزاء کی لسٹ میں اگلی چیز ہیں۔ احتساب کی دھمکی آخری بازی ہوتی ہے، جس کے بعد سارے مہرے ایک ایک کر کے گر جاتے ہیں۔
جنرل مشرف نے بھی یہی نسخہ استعمال کیا، اور پاکستان کو تبدیل کرنے کے ایک تاریخی موقعے کو اقتدار میں باقی رہنے کے لیے کرپٹ سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر گنوا دیا۔ ان کے دور میں فائدہ اٹھانے والوں میں گجرات کے چوہدری اور کراچی کی ایم کیو ایم شامل ہیں۔ ان کا آخری داؤ بدنام زمانہ قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) تھا، جس نے 1990 کے دہائی میں پاکستان کو لوٹنے کے ملزموں بینظیر بھٹو، آصف زرداری، اور نواز شریف کو کلین چٹ دے دی۔
اگر کسی اور جرم کے لیے نہیں، تو کم از کم ان پر اس بات کے لیے ضرور آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانا چاہیے، کہ انہوں نے احتساب اور قانون کی بالادستی کو اقتدار کے کھیل اور ڈیل کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا۔
لیکن اس دفعہ تھوڑی جدت لائی گئی ہے۔ سب سے زیادہ مفاہمتی سیاستدان پارلیمنٹ کی چھت کے نیچے اکٹھے ہوگئے ہیں، اور اب تک مٹھی بھر سیاستدانوں نے ہی "دوسری" جانب کا رخ کیا ہے۔
سویلینز کے پاس بھی ایک نسخہ ہے۔ اس نسخے کے اجزاء یہ ہیں۔
سسٹم کو آئینی ترامیم کے ذریعے ایسے تبدیل کرنا، کہ دو جماعتی کھیل کو کوئی چیلنج نا رہے۔ اس کے لیے دوسرے ذرائع سے بھی مدد لی جاتی ہے، اور فوج کی حیثیت کو کم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے اس میں کچھ اور چیزیں شامل ہیں، جیسے کہ کچھ خاندانی وفاداروں پر بھروسہ کرنا، فوج کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرنا، "دوستانہ" عدلیہ پر اعتماد کرنا، اور ایک دو موٹروے بنوا دینا۔
دونوں نسخوں میں معیشت کا بے پناہ نقصان ہوتا ہے۔
معاشی نتائج
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مقاصد بھلے ہی بہت عظیم ہوں، لیکن معیشت پر کچھ دور رس اثرات نقصانات تو ہو چکے ہیں۔ پیداوار کی کمی، ایکسپورٹ شپمینٹس میں تاخیر، اور آنے والی شپمینٹس کو متبادل راستوں سے بھیجا جانا، کنٹینرز کی وجہ سے راستوں کا بلاک ہونا، ان سب کے علاوہ بھی کچھ مزید معاشی نقصانات ہیں، جن کے اثرات طویل مدتی ہیں۔
سب سے پہلا نقصان سیاسی استحکام کو پہنچا ہے۔ پاکستان کا ایک سیاسی طور پر مستحکم ملک کی حیثیت سے امیج بہتر ہورہا تھا۔ یہاں تک کہ کئی سرمایہ داروں، بالخصوص بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والوں نے مئی 2013 کے عام انتخابات کے نتائج کو مثبت قرار دیا تھا، کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کی سیاسی نظام میں شرکت یقینی بن پائی۔
اس استحکام کے نتیجے میں پاکستان میں انویسٹمینٹ کے مزید مواقع پیدا ہو رہے تھے، جبکہ پاکستانی کمپنیوں کو قرضے دینے، اور پاکستان میں انویسٹمینٹ کرنے کے رسک بھی کم ہو رہے تھے۔ لیکن حالیہ سیاسی بحران کی ٹائمنگ، شکل و صورت، اور شدت نے سرمایہ کاروں کو دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا رسک واپس بڑھ جائے۔ اس سے سرمایہ کاری پاکستان سے دور ہوجائے گی۔ پاکستان پہلے ہی نئی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (Foreign Direct Investment) کو اپنے پاس لانے میں ناکامی کا سامنا کر رہا ہے، جب کہ پہلے سے موجود انویسٹمینٹ بھی باہر جارہی ہے۔
گذشتہ سال کے انتخابات کا ایک اور مثبت نتیجہ یہ تھا، کہ صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان خدمات کی بہتر فراہمی کے لیے مقابلے میں اضافہ دیکھا گیا۔ میں سندھ (جو کہ پی پی پی حکومت کے دوران کرپشن اور نا اہلی کی مثال بن چکا ہے) اور بلوچستان کے لیے تو نہیں کہ سکتا۔ پر کے پی اور پنجاب حکومتوں کے بیچ مقابلے کا ہونا واضح تھا۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود پاکستان میں جمہوریت آخر کار کچھ پھل دینے لگی تھی، بھلے ہی تاخیر سے اور وہ بھی کچے۔
ایک اور نقصان معاشی اصلاحات کا ہو سکتا ہے۔ حکومت کا اصلاحاتی پلان پہلے سے ہی لگا بندھا سا ہے، اور اس بحران کے بعد شاید حکومت اس کو مزید پیچھے لے جانے کا سوچے۔ طویل مدت میں دیکھا جائے، تو محاذ آرائی کی سیاست دیر پا اصلاحات، اور خاص طور پر اداروں کی تعمیر و ترقی پر اثر انداز ہو سکتی ہے، جس کی پاکستان کو شدید ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے معاشی اقدامات کے حوالے سے نئی زبان بولی جا رہی ہے۔ شاید یہ اس وجہ سے ہے کہ اس کو سیاسی سپورٹ اب پڑھے لکھے مڈل کلاس ووٹرز سے ہٹ کر کم آمدنی والے طبقے سے حاصل ہو رہی ہے، تبھی شاید عمران خان بیروزگاری الاؤنس، سبسڈی وغیرہ کی باتیں زیادہ کرنے لگے ہیں۔ اگر یہ صرف اس لیے ہے،کہ عمران خان زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی احتجاجی ریلی میں لانا چاہتے ہیں، تو اسکا مطلب یہ ہو گا، کہ پی ٹی آئی بھی انہی دو مرکزی سیاسی جماعتوں کا ایک نیا ورژن ہے۔
اور اگر ایسا ہے، تو یہ واقعی معاشی اصلاحات کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔
لکھاری سابق معاشی مشیر ہیں، اور اب اسلام آباد میں ایک کنسلٹنٹ فرم کی سربراہی کر رہے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔