بحث کے ضابطے
پاکستان کی ہلچل سے بھرپور اور غیر یقینی سیاست میں ایک بات تو یقینی ہے، کہ یہاں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو بات کرنے سے پہلے سوچتے ہیں، یا قدم اٹھانے سے پہلے اس کے فوائد و نقصانات پر توجہ دیتے ہیں۔ پچھلے 2 ہفتوں کے دوران کئی نقاب اترے ہیں، اور کئی چھپے چہرے عوام کے سامنے آئے ہیں، جن میں سے ایک بھی خوشنما نہیں ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری کے مارچ شروع ہونے سے اسلام آباد پہنچنے تک، جو سب سے زیادہ بد ذائقہ چیز دیکھنے میں آئی، وہ زبان کا استعمال ہے۔
ان مواقع کی کمی نہیں جب ان دونوں حضرات نے وہ رویہ اور زبان اپنائی، جسے احمقانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ جہاں ایک نے پولیس اہلکاروں کو مارنے کی دھمکی دی، تو دوسرے نے اپنے مظاہرے میں شامل بچوں کو کفن پہنا کر سامنے کر دیا۔ لیکن پارلیمانی بحث کے تقاضوں کی بدترین خلاف ورزیاں تو اور ہیں۔
ان گذشتہ دنوں میں ایک دوسرے کے خلاف انتہائی بدتہذیبی پر مبنی الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ کرپٹ ہے، وہ بزدل ہے، فلاں جھوٹا ہے، فلاں جوتے چاٹتا ہے، فلاں غدار ہے، فلاں بکاؤ ہے وغیرہ وغیرہ۔ شرمناک بات یہ ہے، کہ اس طرح کا رویہ سیاسی جماعتوں کے ممبران نے اختیار کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ٹینشن زیادہ ہے، لیکن کیا یہ تہذیب کو پس پشت ڈال دینے کے لیے کوئی اچھا عذر ہے؟
لیکن پھر بھی، کیا بحث مباحثے کے اصولوں اور تہذیب کو پہلی دفعہ پس پشت ڈالا گیا ہے؟ یہ سچ ہے، کہ زبان اور رویے کا حالیہ مظاہرہ بہت سے لوگوں کے لیے حیرتناک ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کہ پاکستان میں سیاست ایسی نہیں لگتی کہ جیسے کچھ لوگ ملک کے مستقبل کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہوں، بلکہ ایسی لگتی ہے جیسے کسی سڑک پر کوئی جھگڑا ہو رہا ہو۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے، کہ صرف سیاست دان ہی نہیں جو غیر پارلیمانی اور غیر ذمہ دارانہ زبان استعمال کرتے ہیں، بلکہ صحافی برادری میں بھی ایسے لوگ شامل ہیں، جو ان مرد و خواتین کے خلاف غلط زبان استعمال کرتے ہیں، جن کے بارے میں رپورٹ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
میڈیا کے کچھ حلقوں کے بارے میں تو یہ بات پہلے سے ہی معلوم تھی، کہ غیر جانبداری اور معروضیت کا لبادہ صرف ملمع ہی ہے۔ اب یہ بات کھل کر معلوم ہو چکی ہے، کہ سیاسی اثر و رسوخ اور نظریات صحافت پر کس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں سے ٹی وی پر یہ معمول بن چکا ہے، کہ چینلز اپنے پروگرام کو سیاسی شخصیات کے لیے ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر پیش کرتے ہیں، جہاں وہ ایک دوسرے پر بغیر ثبوت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اس میں اینکر پرسن خود بھی شامل ہو جاتے ہیں، کیونکہ ڈرامہ جتنا زیادہ ہو گا، ناظرین کی تعداد اتنی ہی زیادہ بڑھے گی۔
سیاسی شخصیات اور میڈیا، جو عوامی بحث مباحثے کو شکل دینے کے لیے ذمہ دار ہیں، ان کا رویہ انتہائی بدتہذیب اور پروفیشنلزم سے ہٹ کر ہے۔ بدتہذیب اور جانبدار رویے کے ہر مظاہرے سے ملک میں انتہائی سنجیدہ معاملات پر آراء کی کوالٹی کم ہو جاتی ہے۔ مزید خراب بات یہ ہے، کہ عوام ٹی وی سے آگے کچھ دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنی رائے حقائق پر مبنی تجزیوں کے بجائے بے بنیاد الزامات پر ہی بنا لیتے ہیں۔
غیر ذمہ دارانہ رویے اور گفتگو کی یہ صرف کچھ سامنے کی مثالیں ہیں، جبکہ اس طرح کا رویہ معاشرے میں گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔ پوری دنیا، بشمول پاکستان، میں ہتک عزت کے حوالے سے کچھ معیارات و قوانین ہیں۔ آخر پاکستان میں ان پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔
میرے خیال میں یہ اس وجہ سے ہے، کہ پاکستان میں سیاست کو سڑک پر چلنے والی ٹریفک کی طرح ہر کسی کے لیے کھول دیا گیا ہے، اور تہذیب کے بنیادی معیارات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
لیکن اس کی وجہ سے تباہی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کوئی معاشرہ ان قوانین کے بغیر نہیں چل سکتا، جو سب کے لیے قابل قبول ہوں، اور جن سے تجاوز نا کرنے پر سب کا اتفاق ہو۔ ان میں سے ایک "ذمہ دارانہ گفتگو اور رویہ" ہے۔
رویوں کی درستگی وہیں سے شروع ہونی چاہیے، جہاں سے وہ سب سے زیادہ اثر انگیز بھی ہو، یعنی بالائی طبقے سے۔ کیا سیاست اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے طاقتور لوگ اپنے رویوں میں پختگی اور شائستگی نہیں لا سکتے؟ اور یہ کام ان شخصیات کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا، اگر وہ اپنے ضمیر کی آواز سنیں تو۔
لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں