مارچ، دھرنے، اور خواتین
2007 کی بہار وہ آخری موقع تھا جب خواتین نے ملک کے دار الحکومت میں کسی عوامی مقام پر قبضہ جمایا تھا۔ پھر اس کے بعد ملک کے حکمران اور ملک کی عدلیہ کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کر دیا تھا۔
لیکن خواتین ان دونوں میں سے کسی کی طرفدار نہیں تھیں، بلکہ وہ جامعہ حفصہ کی برقعوں میں ملبوس، ڈنڈا بردار طالبات تھیں۔ کچھ ھی دن پہلے انہوں نے وفاق کی ملکیت ایک عوامی لائبریری پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور جب وہ وہاں سے نکلیں، تو وہ صرف اس لیے تھا، کہ آس پاس کے لوگوں کی اخلاقیات سدھاری جائیں۔ انہوں نے کچھ چینی خواتین کو یرغمال بھی بنایا۔ پھر یہ پورا معاملہ کس طرح ایک پر تشدد مقابلے اور لال مسجد کے آپریشن پر ختم ہوا، ہم سب جانتے ہیں۔ خواتین کی ناقابل شناخت لاشوں کی تصاویر بہت سے ذہنوں میں چپک کر رہ گئیں۔
شاید یہ سات سال پہلے ہونے والے اس واقعے کی تلخ یادیں ہیں، جن کی وجہ سے اسلام آباد میں اب کی بار مختلف قسم کی خواتین کو قابض دیکھنا بہتر لگ رہا ہے۔ دونوں مارچوں نے جہاں ملک بھر کی میڈیا میں پچھلے دو ہفتوں سے جگہ بنا رکھی ہے، وہیں تمام عمروں کی خواتین کا مظاہروں میں شریک ہونا بھی خوش آئند لگ رہا ہے۔ یہ جامعہ حفصہ کی خواتین سے مختلف ہیں، جو اپنی تنگ نظر سوچ اور ایک جیسے کپڑوں سے پہچانی جاتی تھیں۔ مارچوں کی خواتین نظریات اور عقائد کی ایک وسیع رینج سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کی نوجوان لڑکیاں ہیں، جو ملی نغموں کی دھنوں پر جھومتی ہوئی، ہر طرح کی صورت حال سے نمٹنے کو تیار نظر آتی ہیں، جب کہ دوسری جانب پاکستان عوامی تحریک کی خواتین ہیں، جو زیادہ ثابت قدم اور پروقار لگتی ہیں، جن میں سے کچھ اسکارف اور کچھ دوپٹوں میں ملبوس ہوتی ہیں۔
ان کے ایجنڈوں، تبدیلی کے امکانات، اور جمہوریت کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات سے قطع نظر، ہر قبیل کی خواتین کا کئی روز تک ایسے عوامی مقام پر موجود رہنا آدھے پاکستان کی فتح ہے۔ بھلے ہی ان کی سیاسی وابستگیاں کچھ بھی ہوں، پر یہ خواتین کی فتح ہے۔
اس کی وجوہات سادہ اور واضح ہیں، اور کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر کے مسائل و دلائل، ماضی، حال اور مستقبل کی حکومتوں کے ایجنڈوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ حالیہ کچھ سال پاکستانی خواتین کے عوامی مقامات پر موجودگی کے حوالے سے مایوس کن ہیں۔
پچھلے کچھ ہفتوں کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے، تو بلوچستان کی مارکیٹوں میں خواتین پر تیزاب پھینکنے سے لے کر کچھ قبائلی علاقوں میں خواتین کے باہر نکلنے پر پابندی تک کئی ظالمانہ اقدامات کی خبریں ملیں گی۔ یہ ایسے واقعات کی صرف کچھ مثالیں ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین کی ذاتی آزادی پر ان واقعات سے اور بھی زیادہ شدید حملے ہو چکے ہیں۔ یہ بھولنا نہیں چاہیے، کہ کچھ ماہ پہلے ہی لاہور کی عدالت کے باہر ایک خاتون کو پسند کی شادی کرنے پر سنگسار کر دیا گیا تھا۔
سنگساری، تیزاب پھینکنا، ہراساں کرنا، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے پاکستان میں خواتین کی عوامی مقامات پر موجودگی کو خطرہ ہے۔ یہ مشکلات پاکستانی خواتین کے لیے بڑھتی جا رہی ہیں، پر پاکستان کی پچھلی اور موجودہ حکومتوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
تمام کیسز، خواتین کی زندہ درگوری، یونیورسٹی بسوں پر بم دھماکوں، اور زبردستی شادیوں کے واقعات، میں صرف اور صرف مذمتوں اور کمیشنوں کی رٹی رٹائی ریسپیز پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ پاکستانی خواتین کی کہانی مصیبتوں سے پر ہے۔ حکومت میں موجود کسی نے بھی اس پر زیادہ توجہ دینے کی زحمت نہیں کی ہے، خواتین کی قسمت میں شاید یہی ہے۔
ان دھرنوں میں خواتین، خوش خواتین، جھومتی خواتین، اور سیاسی خواتین کی موجودگی سے ایسا لگتا ہے کہ سات سال پہلے کی جامعہ حفصہ کی ڈنڈا بردار خواتین کی جانب سے قائم کردہ مثال کو اب کی بار پلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔
بھلے ہی کچھ لوگوں کو ان کے عزائم کے حوالے سے خدشات ہیں، اور جن پارٹیوں سے وہ وابستہ ہیں، ان میں وہ کسی لیڈرشپ پوزیشن پر موجود نہیں ہیں، لیکن ماضی میں ان کو جس طرح باہر رکھا گیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے ان کی اس موجودگی کو خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے۔
کچھ تعریف عوامی مقامات پر جمع ہونے کی ہمت کرنے پر بھی بنتی ہے، اور اس معاملے میں جنس کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ حالیہ کچھ سالوں میں ہزاروں مرد و خواتین پاکستان کے عوامی مقامات پر بلا تفریق دہشتگردی کا نشانہ بنے ہیں۔
محدود پیمانے پر دیکھا جائے، تو ایک ایسا ملک جس کی آدھی آبادی ماضی میں ملک کے باقی آدھی آبادی سے منقطع سی رہی ہے، وہاں خواتین کا منظر عام پر آنا ایک اچھا شگون سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن جس طرح خواتین کے قومی منظرنامے پر آنا خوش آئند ہے، اس سے زیادہ اچھا یہ ہوگا کہ تبدیل صرف ظاہری سطح پر رہنے کے بجائے بنیادوں تک اپنی جگہ بنائے۔
پاکستان جیسے ملک میں یہ وژن ترقی کرنے سے پہلے ہی ختم ہو سکتا ہے، اگر اسے حقیقی لیڈرشپ، قومی معاملات میں شراکتداری، اور جنسی برابری میں تبدیل نا کیا جائے۔ نئے پاکستان کی طرح یہ باتیں بھی اب تک صرف ایک دلکش خواب، اور نعروں کی زینت ہیں۔
لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 اگست 2014 کو شائع ہوا۔