ڈھائی لاکھ لاوارث قبریں
گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، اور تند و تیز ہوائیں انہیں اُڑائے لیے جارہی ہیں۔ اسی دوران خیر محمد بلوچ لکڑی کے 16 ٹکڑوں کو ترتیب کے ساتھ لگانے کے لیے اپنی پوری کوشش کررہے ہیں۔
لکڑی کا ہر ٹکڑے پر ایک نمبر تحریر ہے، جو ایدھی فاؤنڈیشن کے مواچھ گوٹھ قبرستان میں آنے والی تین لاشوں کی قبروں پر نصب کیا گیا ہے۔
اس قبرستان میں تقریباً ڈھائی لاکھ لاوارث افراد کی قبریں ہیں۔
خیر محمد بلوچ بتاتے ہیں ’’لوگوں اپنے خاندانوں، اپنے پیاروں، دوستوں اور یہاں تک کہ اپنے اثاثوں کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں، لیکن یہاں صرف نمبر ہیں، جن کے ذریعے انہیں یاد کیا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے اردگرد ہزاروں قبروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’میں نہیں جانتا کہ ان قبروں کے اندر کون ہے۔ آدمی ہے یا عورت، مسلمان ہے یا ہندو یا مسیحی، میں کچھ نہیں جانتا۔ میرے لیے تو یہ محض نمبر ہیں۔‘‘
جیسے ہی وہ پانی کا گھونٹ لینے کے لیے رُکے، میں اردگرد چہل قدمی کرنے لگا، چند گز کے فاصلے پر میں نے ان کے بیٹے کو دیکھا۔ یہ پینتس سالہ ندیم بلوچ تھے، جو نمازِ جنازہ کی امامت کی تیاری کررہے تھے۔
ایک بوسیدہ سے شلوار قمیض میں ملبوس، ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ یہ بلوچ نوجوان انتہائی مشکلات سے گھرے ہوئے اس شہر سے آنے والی کسی لاوارث فرد کی میت کی نماز جنازہ پڑھاتا ہے۔
ان لاوارث افراد کی آرامگاہ کے لیے یہ دس ایکڑ کی زمین کا ٹھکانہ مل گیا ہے۔
اس قبرستان کا انتظام ملک کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
سہراب گوٹھ میں قائم ایدھی فاؤنڈیشن کے کولڈ اسٹوریج سے خصوصی طور پر تیار کردہ ایک گاڑی 16 لاوارث افراد کی لاشوں کو یہاں لے کر آتی ہے، جن کے لیے اب تک کسی کی جانب سے دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔
تدفین سے قبل ان لاشوں کو کھلی قبروں کے سامنے رکھا جاتا ہے، اور تین مرد ان کی مختصر نمازِ جنازہ ادا کرتے ہیں۔
یہ نوجوان بلوچ مواچھ گوٹھ کے قبرستان پر کام کرنے والے گورکن کی دوسری نسل ہے، اس نے ڈرائیور کی حیثیت سے اس فاؤنڈیشن میں شمولیت اختیار کی تھی، اور ان کے نائب نے انہیں ایسے انتہائی بدقسمت لوگوں کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی پیشکش کی، جو اپنی کوئی شناخت چھوڑے بغیر ہی ہلاک ہوجاتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ جب ہم مرنے والے کے مذہب کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں تو پھر اس نمازِ جنازہ کی منطق کیا ہے؟ تو گٹکا چباتے ہوئے ندیم نے جواب دیا ’’آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے لازمی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’میں اس بات کی وضاحت نہیں کرسکتا کہ میں ان لوگوں کے لیے کس قدر ہمدردی محسوس کرتا ہوں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ کون تھے اور ان کا خاتمہ کیسے ہوا، جبکہ ان کے پیارے انہیں شدت سے تلاش کرتے ہوں گے۔ نمازِ جنازہ ہی وہ واحد خدمت ہے جو ان کی تدفین سے پہلے میں ان کے لیے کرسکتا ہوں۔‘‘
ان بلوچوں کے کام کرنے کی جگہ تیزی کے ساتھ مختصر ہوتی جارہی ہے، اس لیے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے غیر شناخت شدہ لاشوں کی تدفین کی تعداد بڑھتے بڑھتے ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
دوسرے جانب پولیس اور دیگر متعلقہ حکام اعلٰی درجے کی تیکنیکی سہولیات کے باوجود ایسی لاشوں کی شناخت کے لیے کوئی نظام وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں، جن کا کوئی دعوے دار نہیں ہوتا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی ایک اہم شخصیت اور اس کے بانی عبدالستار ایدھی کے قریبی معاون انور کاظمی کہتے ہیں کہ ’’ہم نے یہ کام 1984-85 میں شروع کیا تھا۔‘‘
انہوں نے کہا ’’اس وقت کراچی کے میئر عبدالستار افغانی نے ایدھی صاحب کو مواچھ گوٹھ کے علاقے میں دس ایکڑ کا ایک ٹکڑا فراہم کیا تھا۔ یہ ضرورت بڑھتی گئی، اور حکام نے ہمیں دس دس ایکڑ زمین کے مزید دو ٹکڑے بھی دے دیے۔‘‘
انور کاظمی کا کہنا تھا کہ جب تک کوئی اور سسٹم وضع نہیں کیا جاتا، ایدھی فاؤنڈیشن شناخت سے محروم ان لاشوں کو سہراب گوٹھ کے سردخانے میں ایک ہفتہ رکھنے کے بعد یہاں دفن کردیتی ہے۔
تدفین سے پہلے میت کی ایک تصویر لی جاتی ہے تاکہ جو لوگ اپنے عزیزوں کی تلاش میں ہمارے پاس آئیں تو انہیں یہ تصاویر دکھائی جاسکیں۔ اس کے بعد ہی ہم مواچھ گوٹھ کے قبرستان میں تدفین کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا ’’میں یہ کہوں گا کہ ایسے خوش قسمت زیادہ نہیں ہوتے جو اپنے خاندان کے گمشدہ فرد کی تلاش کرتے ہوئے یہاں آتے ہیں اور انہیں یہاں البم کے ذریعے اپنے عزیز کو پہچان لیتے ہیں۔‘‘
وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ صرف چند قبریں ایسی ہیں، جن پر ان کے ناموں کے کتبے لگائے گئے ہیں۔
دوسری جانب دو بلوچ اس قبرستان میں 16 مزید میتوں کی تدفین میں مصروف ہیں۔
ایک بزرگ جو اپنے بیٹے کے کام کی نگرانی کررہے تھے، بتانے لگے، ’’میں ایک دن میں تیس میتوں تک کی تدفین بھی کرچکا ہوں۔‘‘
ان کی عمر ساٹھ کے قریب ہوگی، اب وہ زیادہ فعال گورکن نہیں رہے۔
انہوں نے کم از کم ایک دہائی پہلے اپنے بیٹے کی تربیت کرکے اپنا کام اس کے سپرد کردیا۔
جیسے ہی ندیم نے تمام 16 میتوں کو دفن کردیا تو ان کے بعد خیر محمد آخری رسم کے لیے آگے بڑھے۔
انہوں نے آخری قبر پر نمبر کی تختی لگاتے ہوئے بتایا ’’میں نے مسخ شدہ، جلی ہوئی اور کٹی پھٹی لاشوں کی بھی تدفین کی ہے۔‘‘
خیر محمد نے کہا ’’یہ یقیناً ایک مشکل کام ہے اور اس کو بہت کم سراہا جاتا ہے۔ لیکن کسی نہ کسی کو تو یہ کرنا ہوگا۔ لہٰذا میں نے یہ کام 35 برس کیا اور اب میرا بیٹا یہ کام کررہا ہے۔ صرف ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر کوئی ایدھی صاحب نہ ہوتے، کوئی مواچھ گوٹھ کا قبرستان نہ ہوتا۔ تو پھر ان مرنے والوں کا کیا ہوتا؟‘‘