• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

پانی کی کمی اور پاکستان کا مستقبل

شائع August 30, 2014
منگلا ڈیم دنیا کا نواں بڑا آبی ذخیرہ ہے — فوٹو سید ضل علی
منگلا ڈیم دنیا کا نواں بڑا آبی ذخیرہ ہے — فوٹو سید ضل علی

پانی خدا تعالی کی وہ انمول نعمت ہے کہ جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ کرہ ارض پر مشرق و مغرب اور شمال سے جنوب تک رنگ بکھیرتی زندگی، زراعت، صنعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ اسی ایندھن یعنی "پانی" کی مرہون منت رواں دواں ہے۔

پاکستان زرعی، معدنی اور دیگر شاندار قدرتی خزانوں کی ساتھ ساتھ بہترین آبی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ اگر انہیں بروئے کار لایا جاتا تو پاکستان دنیا کا خوشحال ترین اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا تھا مگر افسوس کہ حکمران طبقے کی لوٹ مار اور خود غرضی کی وجہ سے وطن عزیز آج بھی مختلف گمبھیرمسائل میں گھرا ہوا ہے۔

اس وقت پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی دستیابی کا معاملہ بحرانی شکل اختیار کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے بےحس ارباب اختیار چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ملک کی آبادی لگ بھگ بیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور حال یہ ہے کہ بیشتر شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہی نہیں۔ سمندر کے کنارے آباد پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی جیسے بڑے شہر کی آبادی دوکروڑ تک پہنچ چکی ہے لیکن یہاں لوگ "سمندر کے کنارے بھی پیاسے" ہیں کیونکہ انتظامیہ شہر کی تمام آبادیوں کو پانی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور زیادہ ترلوگ پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ تاہم بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کے باعث بڑی تعداد میں لوگ پانی خریدنے کے استطاعت نہیں رکھتے چنانچہ اس صورتحال نے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

کچھ عرصہ قبل سرکاری اعداد وشمار ان درد ناک حقائق سے پردہ اٹھا چکے ہیں۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آرڈبلیو) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پچیاسی فیصد شہری آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ دیہاتوں میں بسنے والے بیاسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی اموات میں چالیس فیصد اموات پیٹ کی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جس کی بنیادی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم جناح انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ 2014ء میں کہا گیا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہر ایک پاکستانی کے لیے پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو گزرتے وقت کے ساتھ کم ہو کر سنہ 2011ء تک ایک ہزار تین سو چورانوے مکعب میٹر فی کس رہ گیا اور اب یعنی رواں سال 2014ء میں بعض ماہرین اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک میں فی کس پانی کی دستیابی کم ہوتے ہوتے ایک ہزار مکعب میٹر رہ گئی ہے، اور یہ صورتحال دہشت گردی سے زیادہ خطرناک بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والے کروڑوں پاکستانی اپنی بقاء کے لیے کنوؤں، جوہڑوں اور تالابوں کا مضر صحت پانی استعمال کرتے ہیں اسی وجہ سے ہرسال ہزاروں افراد اسہال، ہیضہ، یرقان اور ان جیسی دیگر موذی بیماریوں کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

صوبہ سندھ کے بارہ لاکھ سے زائد آبادی والے صحرائی علاقے تھرپارکر میں زندگی کا تمام تر انحصار مون سون میں ہونے والی بارش کے پانی پر ہے، کیونکہ یہاں قلت آب کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کبھی بھی حکومتی سطح پر خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

یہ علاقہ گزشتہ دنوں شدید خشک سالی کا شکار ہوا جس کے باعث سو سے زیادہ انسان اور سینکڑوں کی تعداد میں مویشی لقمہ ہلاک ہوئے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان وافر آبی وسائل سے محروم ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ پاکستان بہترین جغرافیائی محل وقوع کی وجہ شاندار آبی وسائل رکھتا ہے لیکن وافرمقدارمیں پانی دستیاب ہونے کے باوجود قیام پاکستان سے اب تک کسی حکومت نے بھی پانی کے شعبہ میں اصلاحات اور آبی ذخائر میں اضافے کو اپنی ترجیح بنایا ہی نہیں جبکہ ملکی آبادی اور ان کی ضروریات میں تو اضافہ ہوتا رہا لیکن آبی ذخائر میں توسیع نہ ہو سکی۔

وزرات منصوبہ بندی کے سالانہ پلان 14-2013 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کی صلاحیت صرف نو فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح چالیس فیصد ہے۔

اسی طرح فلڈ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ 2013ء کے مطابق پاکستان کے مشرقی اور مغربی دریاؤں میں سالانہ ایک سو چوالیس ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی آتا ہے جس کا صرف چھیانوے اعشاریہ آٹھ فیصد حصہ صوبوں کے استعمال میں آتا ہے اور بقیہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔۔

ڈیم، نہریں، تالاب اور کنویں وہ زرائع ہیں جن میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نظام آبپاشی کا شمار دنیا کے بڑے نیٹ ورکس میں ہوتا ہے جو کہ 45 ملین ایکڑ رقبے پر محیط زرعی اراضی کو سیراب کرتا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر تین بڑے ذخائر منگلا، تربیلا اور چشمہ پر مشتمل ہے جبکہ 19 بیراج، 12 انٹر ریور لنک کینالز،45 انڈیپینڈنٹ اری گیشن کینالز اور 143 درمیانے ڈیمز (جنکی اونچائی 15فٹ یا اس سے زیادہ ہے)۔

تاہم افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک پانی ذخیرہ کرنے کے ان ذرائع میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کیا گیا، چنانچہ اس غفلت اور موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں گزشتہ 67 برسوں (1950 سے 2013 تک) کے دوران شدید نوعیت کے 21 سیلابوں کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی طور پر 37 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

چھ لاکھ مربع کلومیٹر(603,942Sq.km) سے زیادہ رقبے پر قیامت ڈھانے والے یہ سیلاب گیارہ ہزار 572 افراد کو نگل چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 88ہزار 531 دیہات زیرآب آنے وجہ سے بڑی تعداد میں زرعی فصلیں اور مکانات تباہی سے دوچارہوئے جبکہ سال 2010 کے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا جاتا ہے جس نے 20 ملین لوگوں کو متاثر کیا تھا.

سیلاب سال 2010؛ ہلاکتوں کی تعداد 1985۔ تباہ شدہ مکانات، تعمیرات کی تعداد 16 لاکھ 8184، مالی نقصان 10 بلین ڈالر، 17ہزار 553 دیہات زیرآب آئے، ایک لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر رقبہ متاثر ہوا۔

برسوں پہلے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان میں پانی کے شعبہ میں ملک کے موجودہ انفراسٹرکچر کی تعمیرنو اور آبی وسائل میں توسیع کے لیے قابل عمل منصوبہ پیش کیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس پر کوئی عمل نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی تا ستمبر مون سون سیزن میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ملک کے بیشتر علاقوں میں سیلاب کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔

پاکستان میں کراچی سے لے کر بلوچستان تک تقریباً ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی موجود ہے جو قابل استعمال پانی کے حصول کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ قابل استعمال پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے زریعے نہ صرف پانی کی بچت کر رہے ہیں بلکہ اپنے آبی ذخائر میں اضافے کے لئے تالاب، جھیلوں اور ڈیموں کی تعمیر پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں جبکہ سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کا عمل ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموسس سسٹم بھی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔

اگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو وفاقی ایوان صنعت و تجارت کےصدر زبیراحمد ملک کے بقول پانی کی قلت سے صنعت، زراعت سمیت متعدد شعبے تباہ ہو جائیں گے جس سے ملک میں قحط اور سول وار کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

نادر حسین

نادر حسین براڈ کاسٹ صحافی ہیں اور مقامی نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

M Rizwan Aug 30, 2014 03:48pm
بہت خوبصورت آرٹیکل لکھا ہے یقیناً چشم کشا بات کی ہے لکھاری نے

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024