'آزادی' کے بعد: 'نیا پاکستان' اور 'انقلابی کابینہ'
انقلاب کی کامیابی اور نئے پاکستان کی تشکیل کے بعد انقلابی حکومت کی کابینہ کا پہلا اجلاس ہونے جا رہا ہے جس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔
کپتان اپنی صدارتی کرسی پر براجمان ہیں۔ وہ مکمل کٹ میں ہیں۔ پیروں پر پیڈز باندھ رکھے ہیں، ہاتھوں پر گلوز چڑھے ہیں اور سر پر ہیلمٹ سجا ہوا ہے۔
ان کے سامنے میز پر ایک بلّا رکھا ہے جبکہ وہ خود گیند کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کر تے ہوئے ارکان کابینہ کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔
وزیر داخلہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اپنا ہارمونیم سنبھالے وزیر اعظم کی کرسی کے دائیں طرف بیٹھے ہیں۔ وہ وقفے وقفے سے آنکھ بند کرکے کچھ گنگنانے لگتے ہیں اور ان کی انگلیاں بے اختیار ہارمونیم پر تھرکنے لگتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نئی دھن پر کام ہو رہا ہے۔
ان کے دائیں جانب وزیر قانون افضل خان تشریف رکھتے ہیں جو ایک زمانے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل سیکریٹری ہوا کرتے تھے ۔
ان کے ایک ہاتھ میں چھوٹا آئینہ اور دوسرے میں ایک چھوٹی کنگھی ہے جس سے وہ اپنی داڑھی سنوارنے میں مشغول ہیں ۔
ان کے ساتھ ہی وزیر اطلاعات مبشر لقمان کی نشست ہے۔ ان کے سامنے فائلوں کا ایک پلندہ رکھا ہوا ہے جن پر موسٹ کانفیڈنشل کی مہریں لگی ہیں۔
مبشر لقمان کے پہلو میں وزیر ثقافت شیخ رشید تشریف فرما ہیں جنہوں نے خوبصورت دھوتی پہن رکھی ہے۔ گلے میں بڑا سا تعویز آویزاں ہے اور وہ ہاتھ میں پکڑے گنڈاسے کو گھور گھور کر دیکھنے کے ساتھ ہی مونچھوں کو تاؤ دینے میں مصروف ہیں۔
وزیر مذہبی امور جنید جمشید بھی کابینہ کے اس پہلے اجلاس میں موجود ہیں جنہوں نے خوبصورت ڈیزائنر شیروانی زیب تن کر رکھی ہے۔ ہاتھوں میں تسبیح ہے اور بڑے ردھم کے ساتھ تسبیح کے دانے گھما رہے ہیں۔
وزیر اعظم کے بائیں جانب ان کے خصوصی مشیر چودھری شجاعت بیٹھے ہوئے ہیں۔ جنہیں ان کی ابلاغی صلاحیتوں (Communication Skills) کے پیش نظر وزیر اعظم نے اپنا خصوصی ترجمان مقرر کر رکھا ہے۔ ان کی حیثیت سینئر وفاقی وزیر کے برابر ہوگی۔
چوہدری صاحب کے بائیں جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی نشست ہے۔ ان کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے جس کے ذریعے وہ کسی سے انگریزی زبان میں کھسر پھسر کر رہے ہیں۔ چہرے کے تناؤ اور ہاتھوں کو بار بار ہوا میں حرکت دینے سے لگتا ہے کہ شاید وہ کسی سے ڈرون حملوں سے متعلق بات کر رہے ہیں۔
ان کے ساتھ والی نشست پر خوبصورت نقش و نگار والی ٹوپی پہنے وزیر خزانہ سلمان احمد براجمان ہیں جنہوں نے گلے میں بڑے بڑے اور رنگ برنگے موتیوں کی مالا پہن رکھی ہے۔ ہاتھوں میں ایک گٹار ہے جسےوہ بڑے انہماک سے ٹیون کرنے میں مصروف ہیں۔
سمندر پار پاکستانیوں کے وزیر، اعظم ہوتی اور وزیر پیداوار جہانگیر ترین بھی خوش گپیوں میں مصروف ہیں جبکہ ان کے پہلو میں بیٹھے کھیلوں کے وزیر جاوید میاں داد آنکھ بند کئے اونگھتے نظر آرہے ہیں۔
شیرین مزاری کے پاس دفاع کا قلمدان ہے۔ وہ وزیر اعظم سے کافی فاصلے پر بیٹھی ہیں۔ انہوں نے بغل میں ایک سٹک دبا رکھی ہے اور خلاف معمول بالکل خاموش ہیں۔
پرویز خٹک سائنس و ٹیکنا لوجی کے وزیر مقرر کئے گئے ہیں اور وہ اپنے نئے موبائل کی ایپلی کیشنز میں الجھے ہوئے ہیں۔
کپتان کی ٹیم میں شہزاد رائے بھی شامل ہیں جن کے پاس خواتین کے امور کی وزارت ہے لیکن وہ آج کے اجلاس میں شریک نہیں ہونگے کیونکہ وہ آج کل اپنے کنسرٹس کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں۔
کپتان کھنکار کر گلا صاف کرتے ہیں تو سب خاموش ہوکر ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
"دوستو سب سے پہلے تو میں نیا پاکستان بننے پر آپ سب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایک طویل اننگ کھیلنے کے بعد ہم ایک اہم میچ جیتنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ آج سے ہم نے اگلے میچ کی تیاری کرنی ہے اور یہ ہماری نیٹ پریکٹس کا آغاز ہے۔
سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنی وکٹیں ہر صورت میں بچانی ہیں اور لوگوں کو یہ دکھانا ہے کہ خراب پچ پر کیسے کھیلا جاتا ہے۔
مخالفین چاہے سپن بال پھینکیں یا تیز، گگلی کریں یا بال ٹیمپرنگ، بس اتنا یاد رکھیں کہ ہم نے چوکے چھکے مار کے بال باؤنڈری سے باہر پھینکنی ہے۔
یاد رہے کہ ہم صرف ڈومیسٹک میچ کھیلنے نہیں آئے بلکہ ہمیں ورلڈ کپ کے لئے تیاری کرنی ہے۔ میں نے اپنی ٹیم سوچ سمجھ کر بنائی ہے۔ امپائر بھی اپنا ہے اس لئے ٹینشن کی کوئی بات نہیں۔ ہاں ایک بات سب کان کھول کر سن لیں۔ میچ کے دوران جس کی کارکردگی خراب ہوگی میں اسے چھوڑونگا نہیں!!!"
صدارتی خطبے سے فارغ ہوکر کپتان کچھ دیر کے لئے رکتے ہیں تو وزیر داخلہ کی سریلی آواز ابھرتی ہے؛
"اے تھیوا مندری دا تھیوا۔ ساری عمر کراں میں تیری سیوا!"
یہ آواز سن کر وزیر خزانہ سلمان احمد اپنا گٹار سنبھالتے ہیں اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی پرویز خٹک اٹھ کے اتنڑ ڈالنے لگتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ سارے انقلابی جھومنے لگیں ایک اونچی آواز سنائی دیتی ہے؛
"اوئے پاکستانیو کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ ہماری فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر ہے۔ مسرت شاہین فلموں سے بیزار ہو کے سیاست کرنے لگی ہے۔ نجمہ کہاں ہے کسی کو نہیں معلوم۔ نرگس کا فون بھی بند آرہا ہے، مِیرا بھی نظر نہیں آرہی جبکہ لیلیٰ بھی نخرے دکھا رہی ہے۔ اس کے بارے میں بھی کسی نے کچھ سوچا ہے کہ نہیں!؟"
یہ آواز وزیر ثقافت شیخ رشید کی ہے جو اپنا گنڈاسہ تھامے کرسی سے کھڑے ہو گئے ہیں۔ وہ شاید اور بھی بہت کچھ کہنے والے ہیں لیکن وزیر اطلاعات مبشر لقمان انہیں ٹوکتے ہوئے بول پڑتے ہیں؛
"میرا خیال ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ توجہ میڈیا پر دینی ہوگی اور پاکستانی میڈیا کو گندی مچھلیوں سے پاک کرنے کے لئے زیادہ تر ملک دشمن میڈیا چینلز پر فوری پابندی لگانی ہوگی"۔
وہ کچھ کاغذ ہوا میں لہراتے مزید کچھ کہنے کے موڈ میں ہیں لیکن کپتان ان کی بات کاٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛
"مبشر میں تمھاری بات سمجھ رہا ہوں، فکر نہ کرو، ہم نے بہت سارا گند صاف کرنا ہے لیکن سب سے پہلے مجھے اپنی ٹیم مکمل کرنے دیں۔ میری خواہش ہے کہ اس کابینہ میں توسیع کروں تاکہ اس میں ہر طبقہ فکر کی نمائندگی ہو اور یہ ہر لحاظ سے ایک قومی ٹیم نظر آئے۔
اس لئے میں نے علامہ طاہر اشرفی کو بطور وزیر خوراک کابینہ میں شامل کرنے اور مولانا فضل الرحمان کو پٹرولیم کی وزارت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح میرا ارادہ ہے کہ ابرار الحق اور شاہد آفریدی کو بھی مستقبل میں اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں۔
جہاں تک صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں میری وہاں کے مقامی کلبوں سے بات ہو گئی ہے اور مجھے امید ہے کہ میں وہاں بھی جلد اچھی ٹیمیں بنانے میں کامیاب ہو جاؤنگا"
یہ کہہ کر وہ اجلاس کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے اٹھ جاتے ہیں کیوں کہ انہیں یونیفارم بدل کر، شیروانی پہن کر صدر ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کے لئے جانا ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں