عدالتی حکم پر اسلام آباد انتظامیہ الجھن میں
اسلام آباد : سپریم کورٹ کے حکم کے بعد وزارت داخلہ نے پولیس اور انتظامیہ کو شاہراہ دستور دھرنے کے شرکاء سے خالی کرانے کی ہدایت جاری کی گئی۔
تاہم انتظامیہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) دھرنے کے شرکاء کو ہٹانے کے حوالے سے اعلیٰ عدالت کے فیصلے پر تاحال الجھن کا شکار ہے۔
سپریم کورٹ کے ایک وکیل ذوالفقار بھٹہ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی، پی اے ٹی کے وکلاءاور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بس یہ کہا تھا کہ وہ شاہراہ دستور کو بات چیت کے ذریعے خالی کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے وزارت داخلہ، دارالحکومت کی انتظامیہ اور پولیس کو اس حوالے سے کسی قسم کی ہدایات جاری نہیں کیں۔
ایڈووکیٹ ظفر بھٹہ کا کہنا تھا کہ دارالحکومت میں پہلے ہی دفعہ 144 نافذ ہے اور عدالت عظمیٰ شہری انتظامیہ اور پولیس کو طلب کرکے اس دفعہ کے نفاذ میں ناکامی پر سرزنش کرسکتی ہے، کیونکہ اس کے تحت کسی مقام پر پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد ہوتی ہے۔
مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک اجلاس کے دوران وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عدالتی حکم کے ممکنہ نتائج پر تبادلہ خیال کیا، اس اجلاس میں اسلام آباد اور راولپنڈی انتظامیہ کے عہدیداران نے شرکت کی۔
وفاقی وزیر نے اجلاس کے دوران اس توقع کا اظہار کیا کہ دھرنوں کے منتظمین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات کو پرامن انداز سے حل کرلیا جائے گا۔
انہوں نے افسران کے ساتھ دھرنوں کے شرکاءکو ریڈ زون سے کسی اور جگہ منتقل کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جبکہ دھرنوں کے لیے نئی جگہ کے انتخاب اور ان کی سیکیورٹی بھی اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ تھی۔
ڈان کے رابطہ کرنے پر وزارت داخلہ، پولیس اور مقامی انتظامیہ کے افسران نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا" ہم دھرنوں کے مقامات کو خالی کرانے کے لیے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کا انتظار کررہے ہیں"۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے اپنی ہدایات پی ٹی آئی، پی اے ٹی اور اٹارنی جنرل کے لیے جاری کی تھیں، وزارت داخلہ، پولیس اور مقامی انتظامیہ بغیر کسی واضح حکم کے بغیر اقدام نہیں کرسکتے۔
انہوں نے مزید کہا" یقیناً اگر حکم جاری کیا گیا تو دھرنے کے شرکاءکی جانب سے جگہیں خالی نہ کرنے پر طاقت کا استعمال کیا جائے گا"۔
انتظامیہ اس تجویز پر بھی غور کررہی ہے کہ شارع دستور کی ایک لین کو پی اے ٹی کے کارکنوں سے طاقت کی بجائے بات چیت کے ذریعے خالی کرالیا جائے۔
تاہم اگر مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں اور اٹارنی جنرل پی اے ٹی وکلاءکی مدد سے شاہراہ دستور کو خالی کرانے میں ناکام رہتے ہیں تو سپریم کورٹ کی جانب سے پی اے ٹی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کا بھی امکان ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں وزارت داخلہ شارع دستور کو خالی کرانے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک انٹیلی جنس ادارے اور پولیس سپیشل برانچ نے بھی تجویز دی ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔