دھرنے میں شامل 30 گھرانے طاہر القادری کا ساتھ چھوڑ گئے
اسلام آباد: موسمی بیماریوں کے باعث 30 کے قریب گھرانے پاکستان عوامی تحریک کا اسلام آباد میں جاری دھرنا چھوڑ کر اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
یہ اعداد و شمار دھرنے کے شرکاء اور واپس لوٹ رہے گھرانوں نے فراہم کیے۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ والدین کا کہنا تھا کہ بچوں کے فلو، تیز بخار اور ہیضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کے لیے دھرنے میں شریک رہنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔
تحصیل سلاں والی سے تعلق رکھنے والے پینتیس سالہ ارشد مغل وہ گزشتہ آٹھ سالوں سے عوامی تحریک کے سربراہ کے پیروکار رہے ہیں۔
انہوں نے کہا 'میرا خیال تھا کہ حکومت دو، تین دنوں میں مطالبات تسلیم کرلے گی لیکن یہ دھرنا ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے جاری ہے جس کی وجہ سے میری فیملی بالخصوص بچوں اور خواتین کو پریشانی ہورہی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ ان کے چار سالہ بیٹے کو تیز بخار ہے اور انہیں پی اے ٹی کے میڈیکل کیمپ میں پیراسٹامول دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سڑکیں بند ہونے اور پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ دارالحکومت میں ڈاکٹر کے پاس نہیں جا پارہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ دھرنے میں شامل رہنا چاہتے ہیں تاہم بیٹے کی بیماری کے باعث انہیں اسے چھوڑنا پڑ رہا ہے۔
اوکاڑہ کی رہائشی 42 سالہ نفیسہ شاہین کا کہنا تھا کہ وہ بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں اور اس وجہ سے اپنے گھر واپس لوٹ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ دھرنے میں شامل رہنا چاہتی تھیں تاہم ان کی خراب صحت کی وجہ سے ان کے لیے دو یا تین مزید دن کھلے آسمان کے نیچے گزارنا ممکن نہیں۔
پچاس سالہ رب نواز کا کہنا تھا کہ ان کی نو سالہ بیٹی ہیضے میں مبتلا ہوگئی ہے جس وہ پمز ہسپتال لے گئے تھے تاہم ان کی کنڈیشن میں بہتری نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ کے لیے ان کی بیٹی کا خیال رکھنا بہت مشکل ہے اس لیے وہ اپنی فیملی کے ہمراہ گھر واپس جارہے ہیں۔
پی اے ٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ ان موسمی حالات میں لوگوں کا اس طرح بیمار پڑنا عام بات ہے تاہم یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطالبات منظور کرکے لوگوں کو ریلیف فراہم کرے۔
پولی کلینک ہسپتال کے ترجمان شاہد حنیف کے مطابق دھرنے کے آغاز سے لیکر اب تک روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد ہسپتال آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہسپتال آنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جو موسمی بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ گزشتہ تین روز کے دوران پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے بھی 1400 اہلکار ہسپتال آچکے ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں