• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

بڑھتی مایوسی

شائع August 22, 2014
لکھاری سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔
لکھاری سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔

حکومتوں کو اس دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے، کہ وہ جیسے ہی عوام کو بتائیں گی، کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے بجٹ خسارے کے ٹارگٹ حاصل کر لیے گئے ہیں، یا زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے، تو لوگ فوراً خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔

اور نا ہی تب، جب ان کو یہ بتایا جائے گا کہ سٹاک ایکسچینج اور مارکیٹ کیپٹلائیزیشن میں 44 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے، یا بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے پیسے کی ترسیل میں 17 فیصد کا اضافہ ہوا ہے (جس میں حکومت کا اگر ہے تو بہت کم ہی کمال ہے)، اور یہ کہ توانائی کے شعبے میں کئی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔

عام لوگ تو اپنی زندگیوں اور کاروبار کی بجلی کی کمی کی وجہ سے ہونے والی تباہی، بیروزگاری، اور دن بہ دن بڑھتی مہنگائی سے بیزار ہیں۔ وہ مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں، وہ بھی کبھی کبھی ہی نصیب ہوتی ہے۔ اور زیادہ قیمت کی ایک وجہ توانائی کے شعبے میں کرپشن، مس مینیجمنٹ، بجلی چوری، اور نا اہلی پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی بھی شامل ہے۔

لوگ بڑھتی مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان ہیں۔ ترقیاتی کام تقریباً رک چکے ہیں، جب کہ مقامی بیوروکریسی اور پبلک سیکٹر ایجنسیاں، جو لوگوں کو سروسز فراہم کرنے کی پابند ہیں، لوگوں کے کام آسان کرنے کے بجائے مشکل کرتی جا رہی ہیں۔

لوگ ترقیاتی اہداف کے بارے میں حکومتی موقف کی سچائی کو لے کر بھی کنفیوژ ہیں، کیونکہ میڈیا پر بتایا جاتا ہے، کہ حکومت کی جانب سے دھوکے، ٹیمپرنگ، اور اکائونٹس میں تخلیقی صلاحیت کے استعمال سے گڈ گورننس اور اچھی کارکارگی کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔

وہ ٹی وی پر غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کو یہ کہتے ہوئے دیکھتے ہیں، کہ حکومت معاشی ترقی، برآمدات، اور بیرونی اکائونٹس کو بہتر صورتحال میں دکھانے کے لیے "ہیر پھیر" سے کام لے رہی ہے، جبکہ بجٹ خسارہ کم دکھانے کے لیے اعداد و شمار سے کھیلا جاتا ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر مختلف طبقات کی طرف سے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ریاست کو ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ اٹھانے میں مدد نا دی گئی، تو جلد ہی بجٹ آپریشن، جو آخری دھاگے سے لٹکے ہوئے ہیں، اپنی آخری سانس لے لیں گے۔

وہ سمجھ رہے ہیں کہ حکومت کی یہ پوری مشق صرف ایک ڈانس ہے، جس میں اس کے ہاتھ اور ٹانگیں بندھی ہوئی ہیں۔۔۔ حکومت کے پاس بجٹ میں اتنے کم آپشن بچے ہیں، کہ تقریباً سارا خرچا صرف دو چیزوں پر ہو جاتا ہے۔۔۔ قرضوں کے سود اور دفاع میں، باقی کسی چیز کے لیے کچھ نہیں بچتا۔

بجٹ کے ڈھانچے میں موجود کمزوریوں کو دور کرنے، اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے مضبوط کرنے کی کوششیں کہیں نظر نہیں آ رہیں۔ لوگ توجہ دلانے لگے ہیں کہ یہ اقدامات اب ھنگامی بنیادوں پر اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ بحران سے نمٹنے کے لیے فیصلہ لینے کا وقت اب گزرتا جا رہا ہے، کیونکہ مارکیٹس اور ڈونر اب سیاسی اتفاق رائے کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے ہیں، جبکہ یہ سخت فیصلے لینے میں دیر کرنے، اور سمندر پار دوستوں کی مدد کا انتظار کرتے رہنے کی سٹریٹجی اب ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔

یہ تجزیہ کار اب وثوق سے کہنے لگے ہیں کہ آئی ایم ایف (عالمی سیاسی وجوہات کی بنا پر اور اپنے پچھلے قرضوں کی جلد از جلد ریکوری کے لیے) بھی خاموشی سے نمبروں کی اس ہیر پھیر کو دیکھ رہا ہے۔ اور بھلے ہی آئی ایم ایف اس وقت فوراً ہی ہماری لائف سپورٹ کا پلگ نہیں کھینچنے والا، لیکن وہ ضرور حیران ہی کہ آخر نمبروں کے ساتھ یہ سیاہ مذاق کب تک چلے گا۔

کیا آئی ایم ایف کا موڈ اور رویہ اس سال کے آخر تک سخت ہو جائے گا جب اسے اپنے پچھلے قرضے واپس مل جائیں گے؟ اور تب جب امریکا افغانستان سے واپسی کی تیاری پکڑ رہا ہو گا؟

ایک تلخ حقیقت جس کا آبادی کے غریب اور مڈل کلاس طبقے کو سامنا ہے، وہ ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی، جس نے آئی ایم ایف سے متاثر معاشی استحکام کے پروگرام کو بھی غیر مستحکم کر دیا ہے۔

اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ "کنزیومر پرائس انڈیکس" سے کہیں زیادہ ہے، جس سے معاشی طور پر کمزور طبقوں کی قوت خرید کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ ان چیزوں کی قیمتوں میں ہو رہا ہے، جو زندگی کے لیے ضروری ہیں، جس سے زندہ رہنے کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔

معاشرے کا سب سے غریب طبقہ اب تعلیم، صحت، اور صفائی کی سہولتوں سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے، جس کی ایک وجہ ان خدمات کی فراہمی کی ذمہ دار بیوروکریسی کا بے مددگار رویہ بھی ہے۔

اگر انہیں اچھی کوالٹی کی سروسز فراہم نہیں کی جائیں گی، تو وہ ترقی میں نا حصہ لے سکیں گے، نا ڈال سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی کا عمل نا ہموار ہے۔ آبادی کے کچھ طبقات پھل پھول رہے ہیں، جبکہ ایک بڑے طبقے اور علاقوں کو ملی، تو ناکافی بہتری۔

ان شعبوں کے مسائل کا بجٹ سے زیادہ لینا دینا نہیں، بلکہ گورننس اور اداروں سے ہے، جن کو بہتر بنا کر خدمات کی فراہمی درست کی جا سکتی ہے۔

عام لوگ میں سیاستدانوں کے غیر ذمہ دار رویے کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک سیاسی قیادت سمجھتی ہے، کہ صرف کچھ تنکوں کی مدد سے ہی طوفان کا مقابلہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔

اس سب سے عوام میں حکمران طبقے سے مایوسی جنم لے رہی ہے، جس کی وجہ سے ایک عجیب بے چینی، اور سول لیڈرشپ سے دوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ مایوسی تب اور بڑھتی ہے جب عوام دیکھتے ہیں کہ حکمران عوامی پیسے سے اپنے کام چلانے میں شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔

اس لیے یہ احساس بڑھ رہا ہے، کہ جسم میں ایسے کینسر کی موجودگی رکھنے والی قوم زیادہ دور نہیں جا سکتی۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024