پاکستان کا اتاترک
یہ ایک اور اعصاب شکن ہفتہ تھا اور پاکستان نے ایک اور سالگرہ ہنگاموں کے بیچ گذاری-اگرچہ یہ 67 سال کی پختہ عمر کو پہنچ چکا ہے،لیکن اسکی بے چینی،'کچھ مختلف' کی اس کی خواہش ابھی پوری نہیں ہوئی ہے-
مسئلہ یہ ہے، غالباً کسی کو بھی یہ نہیں معلوم کہ یہ 'کچھ مختلف' ہے کیا، جس کے لیے وہ اس قدر دیوانے ہورہے ہیں- ایسا پاکستان جو'بدعنوانیوں سے پاک' ہو، جہاں مساوات اور مواقع ہوں، ایک نئی طرح کی قوم، یہ ساری باتیں بہت اچھی، بڑی ہی پرکشش ہیں، لیکن ان کے پاس اس کا کوئی خاکہ، کوئی منصوبہ نہیں ہے-
عوام کو شکایت ہے کہ جمہوریت کام نہیں کررہی؛ پہلے پی پی پی نے حکومت کی اور اب پی ایم ایل-ن کی حکومت ہے لیکن کچھ فرق نہیں پڑا-
مجھے روز روز یہی سننے کو مل رہا ہے کہ ہمیں ایک ایسے اتاترک کی ضرورت ہے جو'اس نظام' کو بدل دے- کیا ہم مزید خطروں سے کھیل سکتے ہیں؟ حقیقت میں یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جس کے پاس مکمل طاقت ہو، جو کسی مخالفت کو برداشت نہ کرے، جو سخت فیصلے کرے اور انھیں بالجبر نافذ کرے- یہ وہی لوگ ہیں جو اس خیال کو مستقل ہوا دے رہے ہیں کہ یہاں کے عوام کو صرف ڈنڈے سے قابو کیا جاسکتا ہے-
یہ سوچ اس لئے غلط ہے کہ اس میں دبی دبی فوجی حکومت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ، بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اتاترک کے خیال کو ان عناصر نے شروع کیا، مقبول عام بنایا اور رائج کیا جن کے نزدیک آج بھی اس ملک کو ایسے شخص کی ضرورت ہے-
جو سیاستدان ایک جمہوری نظام میں کام کرتے ہیں، انھیں بہرحال، ہمیشہ اپوزیشن سے واسطہ پڑتا ہے- صرف ایک آمر ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ اسکی مخالفت نہیں ہوگی، جس کی صداقت میں شبہ ہے-
لیکن یہ خیال عرصہ ہوئے دم توڑ چکا- پاکستان ایک ممکنہ 'اتاترک کے لمحے' سے گزرچکا ہے، یہاں میرے کہنے کا مطلب ہے بے روک ٹوک سخت فیصلے کرنے کا وقت- 1999ء میں، چند سال تک ہم پر ایک ایسا شخص مسلط رہا، جسکے پاس ذرائع سے قطع نظر، مکمل طاقت تھی- مشرف اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں ایسی پوزیشن میں تھے کہ وہ ساری اپوزیشن پر اپنی مرضی تھوپ سکتے تھے اور انھیں سیاسی مذاکرات کے پیچ و خم سے گزرنا نہیں پڑا- آج ان کے، اور انھوں نے ایک آئینی حکومت کو برخواست کرنے کے جو غیر آئینی راستے اختیار کیئے، کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے پر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ان دنوں ہماری سوسائٹی کے بہت سے حلقوں نے ان کے اقدامات کی حمایت کی تھی-
لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر وہ وقت گزرچکا ہے، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں اتاترک نہیں تھے- وہ لوگ جو ایک بار پھر ایک اتاترک چاہتے ہیں، انھیں چاہیئے کہ اپنے سیاستدانوں کی صفوں میں کوئی ایسا مرد یا عورت تلاش کریں---یا پیدا کریں---جو انتخابی عمل میں کامیاب ہوکر سامنے آئے- ایک اور شخص جس کے پاس آمر کی طاقت ہو، ایک اور فوجی حکومت، اندھیرے میں ڈوبے اس ملک کے لئے آخری جھٹکا ثابت ہو سکتی ہے-
ایک اور بات جو لوگ کررہے ہیں وہ ہے 'انقلاب'- طاہرالقادری اور ان کے سنکی منصوبوں اور نعرے بازیوں کو بھول کر، دیکھیے کہ سڑکوں پر 'انقلاب' کی خواہش کا کس طرح ذکر ہورہا ہے- لوگ حسرت سے عرب اسپرنگ کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ جیسے اس قسم کی کوئی چیز پاکستان کے 'گلے سڑے نظام' کو 'فکس' کردے گی-
تاہم، کسی انقلاب کی بنیاد اس کے علاوہ اورکیا ہوسکتی ہے کہ ایک غیر مقبول حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کیا جائے؟ تو یہ ٹرین بھی پاکستان سے گزرچکی ہے اور 2007 میں ایک بڑے عوامی احتجاج کے ذریعے ایک حکومت کو گراچکی ہے-
اگرچہ کہ مشرف کو اقتدار سے ہٹانے میں اور 2008 میں انتخابات کے انعقاد میں کئی عوامل شامل تھے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں عوام ان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے، دھرنے اور احتجاج ہورہے تھے، گرفتاریاں ہورہی تھیں اور لوگوں کو حراست میں لیا جارہا تھا لیکن شکر ہے کہ زیادہ خونریزی نہیں ہوئی-
انقلابیوں کے لیے بدقسمتی سے، اور خوش قسمتی سے ہم سب کے لئے، وہ ساری چیزیں موجود نہیں ہیں جو کسی انقلاب کے لئے ضروری ہیں جن میں سے ایک ایسا معاشرہ ہے جو جبر و استبداد تلے اتنا دبا ہو کہ کسی پریشر ککر کی طرح پھٹ پڑنے کے لئے تیارہو-
پاکستان اور اس کے بغاوت پر آمادہ لوگوں کو جس بات کو سمجھنے کی فوری ضرورت ہے، خواہ وہ بڑی تعداد میں شہری ہوں یا سیاسی طبقات، کہ وہ واحد چیز جو کارگر ہوسکتی ہے اسے پہلے کبھی آزمایا ہی نہیں گیا: ایک سلسلہ عمل- اس میں وقت لگے گا، آزمائش ہوگی، یہ بے لطف اور اکتا دینے والا ہوگا، اور وہ سارا غل غپاڑہ اور غم و غصہ نہیں ہوگا جسے ہم لازمی سمجھتے ہیں- لیکن اگر ہم انتخابی عمل پر بھروسہ کریں تو کچھ امید کی جا سکتی ہے-
ضروری ہے کہ ہم حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیں، انھیں اس مقام تک لے آئیں کہ انھیں انتخابات میں اپنی شکست لازمی نظر آئے جو ان کے گناہوں اور لاپرواہیوں کا براہ راست نتیجہ ہوگی- صرف اسی طرح یہ ملک جسے تباہ کردیا گیا ہے اور جو لنگڑا لنگڑا کر چل رہا ہے اپنے ہاتھ پیر اتنے مضبوط کرسکتا ہے کہ ٹھیک سے چل سکے- یاد کیجیئے گزشتہ انتخابات میں پی پی پی کی کارگردگی کیا رہی تھی؟
ایک اور کالم نویس نے گزشتہ ہفتہ ہی انھیں صفحات پر لکھا تھا کہ پاکستانیوں کو بڑے بڑے وعدوں کے نشے میں چور کردیا گیا ہے، جو کبھی پورے نہیں ہوئے اور جو غیر آئینی ہیں- ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ ایک طویل سخت جدوجہد کے بعد ہی وہ صبح نمودار ہوسکتی ہے- جمہوریت کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے- اس کے پاس کوئی مختصر اور فوری علاج نہیں ہے-
لکھاری ڈان کی سٹاف ممبر ہیں۔
یہ مظمون ڈان اخبار میں 18 اگست 2014 کو شائع ہوا۔
ترجمہ: سیدہ صالحہ
تبصرے (3) بند ہیں