• KHI: Zuhr 12:33pm Asr 4:15pm
  • LHR: Zuhr 12:04pm Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 3:29pm
  • KHI: Zuhr 12:33pm Asr 4:15pm
  • LHR: Zuhr 12:04pm Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 3:29pm

تماشا، تماشائی اور مداری

شائع August 19, 2014
ہم مڈل کلاس لوگ بھی عجیب ہیں، بڑے ہی نہیں ہوتے، ہو بھی جایئں تو کھلونوں سے بہل جاتے ہیں۔ یونہی تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
ہم مڈل کلاس لوگ بھی عجیب ہیں، بڑے ہی نہیں ہوتے، ہو بھی جایئں تو کھلونوں سے بہل جاتے ہیں۔ یونہی تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔

اسی کی دہائی کے آخر کی بات ہے۔ میرے ابا لندن میں چند دن گزار کر واپس لوٹے تھے. ان کی ٹانگوں سے لپٹنے اور سر پر ہاتھ پھروانے کے بعد ان کی گود میں بیٹھے ہوئے میری نظریں ان کے سامان کی طرف تھیں۔ کسی بھی بےصبرے بچے کی طرح میں منتظر تھا کہ ان کا سامان کب کھلتا ہے اور اس میں سے میرے لیے کیا نکلتا ہے۔

وجہ اس بے صبری کی وہ توقع تھی کہ میرا مڈل کلاس باپ جو روز نوکری سے گھر لوٹتے ہوئے میرے لیے کچھ نا کچھ لے کے پلٹتا ہے یہ ممکن نہیں تھا کہ مہینہ بھر لندن رہ کے پلٹے اور اس کے سامان میں میرے لیے کچھ نا ہو۔ مجھے گود میں ٹنگا دیکھ کر میری ماں نے ابّی کو چائے کا مگ پکڑاتے ہوئے مجھے جھڑک کے گود سے اترنے کو کہا تو میں ابی سے کچھ زیادہ چپک گیا تھا۔

ابّی کو میری بے صبری کا اندازہ تھا اس لیے انہوں نے میری ماں کے بار بار کہنے کے بعد مجھے گود سے اتارا بھی تو اس لیے کہ ایک آدھ گھونٹ پی ہوئی چائے کا مگ ایک طرف رکھ کر وہ بیگ اپنی طرف کھینچ سکیں جس میں میری فرمائشوں کی لسٹ کے علاوہ بھی ایک جہان آباد تھا۔ باہر کے سفر سے لوٹے ہوئے کسی بھی باپ کی طرح وہ جو کچھ لا سکتے تھے لائے تھے۔

کھلونے تو انہوں نے مجھے اسی وقت تھما دیے اور میں ان کو چائے پیتا چھوڑ کے اپنی ریموٹ سے چلنے والی کار کو پہیے میلے ہونے کے خوف سے گود میں لے کر بیٹھ گیا تھا۔ مجھے بہت حیرت ہوئی جب انہوں نے مجھےاس کار کے ریموٹ میں سیل ڈال کر مجھے اسے چلا کر دکھایا۔ یہ پہلی کار تھی جسے میں اوپر تخت پر بیٹھ کر چلا سکتا تھا ورنہ پیچھے کھینچنے پر آگے کو دوڑنے والی گاڑیاں جلد خراب ہو جاتی تھیں اور پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ان کے ساتھ ساتھ گھسٹنا پڑتا تھا۔

یہ گاڑی میرے ریموٹ پر لگے ہینڈل کو گھمانے پر کبھی دائیں کبھی بائیں مڑ جاتی تھی اور گھوڑے کے سموں کی طرح اپنے اگلے پہیے اٹھا کر صرف پچھلے پہیوں پر کھڑی بھی ہو جاتی تھی۔ اس رات میں بستر پر گیا تو وہ کار میری بغل میں تھی۔

لیکن، اس کار میں میری دلچسپی اسی رات ختم ہو گئی کیوں کہ ابّی کے پاس لندن کے بارے ایسے بہت سے قصے تھے جو کار سے زیادہ انوکھے تھے۔ وہ قصے انہوں نے اس رات اور آنے والی کئی راتوں میں مجھے اپنے برابر سلاتے ہوئے سنائے۔

ان میں سب سے دلچسپ قصہ سناتے ہوئے ابّی نے مادام تساؤ کے میوزیم کی تصویریں بھی دکھائی تھیں ۔ میں موم کے ان مجسموں کو مجسمہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ میں نے پتھر کے بت تو دیکھ رکھے تھے جو چنیوٹ کے مندروں کے اندر اور باہری دیواروں پر اس وقت تک دیکھنے کو مل جایا کرتے تھے۔ ایک آدھا بھس بھرا جانور بھی ابا کے کسی دوست کے ڈرائنگ روم میں دیکھا تھا لیکن بالکل زندہ انسانوں جیسے مجسمے اور وہ بھی موم کے، میں حیران رہ گیا تھا۔

ادھر برطانیہ کی ملکہ کھڑی ہے، اس کے ساتھ ریمبو اپنے رگ پٹھے دکھا رہا ہے اور موڑ مڑتے ہی ہٹلر اپنی مکھی مونچھ اور سپاٹ چہرے کے ساتھ ہاتھ پھیلائے ایستادہ ہے۔ کمال قصہ تھا اور اس سے کمال تصویریں۔

موم کے مجسمے تو میں نے اب بھی نہیں دیکھے کہ ریموٹ کنٹرول کار سے اپنی چھوٹی سی کار تک تو میں آگیا ہوں لیکن لندن جانے کا موقع نہیں ملا۔ سنا ہے پاکستاں میں کوئی مادام تساؤ کا استاد پیدا ہوا ہے جس نے اپنے مجسمے بیچ بازار نمائش کے لئے رکھ رکھے ہیں۔

سوچتا ہوں جاؤں اور کہیں کنٹینرز کے بیچ سے راستہ ڈھونڈ کے انہیں دیکھ آؤں۔ اس مجسمہ ساز نے مادام کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسے مجسمے بنائے ہیں جو نا صرف ایک میں کئی کئی ہیں بلکہ باتیں بھی کرتے ہیں۔

ایک مولانا ہیں جو کبھی لینن ہوتے ہیں کبھی مارکس تو کبھی سٹالن۔ یہی نہیں کبھی اردو میں بات کرتے ہیں کبھی عربی میں خطبہ شروع کر دیتے ہیں کبھی انگریزی تقریر۔

ایک موڑ مڑ کے ایک اور صاحب ایستادہ ہیں جوایک ہی وقت میں جناح بھی ہیں اور گاندھی بھی۔ کبھی آگے بڑھتے ہیں کبھی پیچھے ہٹتے ہیں اور کبھی مشتعل گھوڑے کی طرح اپنے اگلے سم زمیں سے اٹھا لیتے ہیں۔

لیکن مجسمے بول اور چل پھر کیسے سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے میرے بچپن کی کار کی طرح اب ریموٹ کنٹرول مجسمے بننے لگے ہوں۔ دور کوئی تخت پر بیٹھا بٹن دباتا ہو اور ماؤ مولوی بن جاتا ہو۔ مادام تساؤ کی طرح اس جگہ بھی بہت رش ہے گھنٹوں لوگ کھڑے رہتے ہیں تب ایک ریموٹ کنٹرول مجسمہ اپنا شو دکھاتا ہے اور پھر واپس ڈبے میں۔

ہم مڈل کلاس لوگ بھی عجیب ہیں بڑے نہیں ہوتے، ہو بھی جایئں تو کھلونوں سے بہل جاتے ہیں۔ یونہی تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ مجسموں کو انسان سمجھ لیتے ہیں چاہی ان میں بھس ہی کیوں نا بھرا ہوا ہو۔ میں آج بھی وہی بے صبرا بچہ ہوں جو ان مجسوں کا تماشا ختم ہونے کا منتظر ہے شاید پتا چل سکے ریموٹ کس کے پاس ہے سیل کوں ڈالتا ہے اور بھس بھرے مجسمے تماشا کیسے دکھاتے ہیں۔ یہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا۔

سلمان حیدر

شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Faisal Aug 19, 2014 04:23pm
turay jaisay LAFAFA JOURNALISM karnain walay mommi mujasmon ka b show jald khatam honain wala hai IA......aor unka b jin kay paas remote hai tum logon ka.......
Pakistani Aug 19, 2014 08:25pm
Superb
muhammed asghar Aug 19, 2014 11:57pm
@Faisal: there is a clear picture of current drama in this article, very polite words used and exposed these two puppets who are working to destabilise economy which is already not in good shape.
Fatima Aug 20, 2014 02:40am
@Pakistani: میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا۔۔۔۔ بہت اچھی اور حسبِ حال تحریر ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس دفعہ تماشہ کا زیادہ لطف اگلی جماعتوں میں بھاگتے ' چلاتے ایلیٹ کلاس کو آ رہا ہے۔۔۔۔ وہ تو لندن جاتے ہیں انہوں نے تو اصل مادام تسائو کا میازیم دیکھا ہے۔۔۔ پھر ایسا کیوں؟
Wahab Afridi Aug 20, 2014 09:29pm
bilkul Sahi kaha hy writer Saab aap nay.., i agree wid u.. Allah aap ko aur baSeerast de k iS Sy acha likay aap..

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024