• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بک ریویو: مسلم زائن -- پاکستان بحیثیت ایک سیاسی نظریہ

شائع August 15, 2014
دیوجی کے نزدیک پاکستان صیہونیت کی ایک مثال ہے، جس کے مطابق قومی شناخت مذہب کے ذریعے وجود میں آتی ہے.
دیوجی کے نزدیک پاکستان صیہونیت کی ایک مثال ہے، جس کے مطابق قومی شناخت مذہب کے ذریعے وجود میں آتی ہے.

پاکستانی سکولوں میں بچوں کو آج بھی پڑھایا جاتا ہے کے محمّد بن قاسم پہلے پاکستانی تھے اور راجہ داہر کے خلاف انکی جنگ وہ پہلا ٹکراؤ تھی جس نے آگے چل کر دو قومی نظریے کی بنیاد ڈالی.

محمّد بن قاسم کی سندھ آمد کے بارے میں اصل حقائق کو یکثر نظر انداز کرتے ہوئے ان کو سندھ آنے پر مجبور کرنے والے مالی فوائد اور علاقائی سیاسی مفادات کے بجائے بتایا یہ جاتا ہے کہ وہ یہاں اسلام پھیلانے آئے تھے.

712 عیسوی اور 1947 عیسوی کے واقعات کو آپس میں ملانے کی یہ کوشش پاکستان کے رکھوالوں اور نظریہ پاکستان کی ترویج کرنے والوں کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے. اس کوشش سے موجودہ پاکستان اور اسلام کے درمیان ایک تاریخی کنکشن بنایا جاتا ہے، جس سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کے برصغیر میں ہندو ازم اور اسلام کے درمیان ہمیشہ سے ٹکراؤ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا.

لیکن سچائی یہ ہے کہ محمّد بن قاسم کی کہانی اور پاکستان کے موجودہ نیشنلزم میں کافی تضادات پائے جاتے ہیں. یورپ سے حاصل کئے ہوئے نیشنلزم اور نیشن-اسٹیٹ کے ماڈل اس بات پر زور دیتے ہیں کے زبان، برادری، اور علاقائی ربط ضروری ہیں.

پاکستانی نیشنلزم میں بھی یہ سب چیزیں موجود ہیں، لیکن محمّد بن قاسم، ایک عرب حملہ آور کا یہاں رہنے والے لوگوں اور اس علاقے، جو آگے چل کر پاکستان بننے والا تھا، سے ایسا کسی قسم کا کوئی ربط نہیں تھا.

پاکستانی نیشنلزم کا انوکھا پن 1947 میں وجود میں آنے والے ملک کے جغرافیائی مطالعے سے بھی صاف ظاہر ہے. جہاں ایک طرف ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دور مشرقی اور مغربی حصّے وجود میں آئے، تو وہیں (سابقہ) مشرقی پاکستان-ہندوستان سرحد کے ساتھ سینکڑوں گھرے ہوئے علاقوں کی موجودگی بھی اس علاقائی اتحاد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے، جو کسی قوم کے ریاست بننے کے لئے ضروری ہوتا ہے.

آخر میں یہ نظریہ کے برصغیر میں رہنے والے تمام مسلمان ایک جیسے مذہبی عقائد کی وجہ سے متحد ہیں اور یہ کہ پاکستان برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا، تب مشکل میں نظر آتا ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اب بھی ہندوستان میں کروڑوں مسلمان رہتے ہیں.

پاکستان میں جاری مختلف نسلی و قوم پرست تحریکیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھی اس نظریے کو کمزور کرتی ہے کے اسلام ملک کے تمام لوگوں کو متحد رکھ سکتا ہے.


"مسلم زائن: پاکستان بحیثیت ایک سیاسی نظریہ" میں مصنف فیصل دیوجی پاکستان کی تخلیق کے بارے میں ایک ایسا فریم ورک پیش کرتے ہیں، جس کے ذریعے اوپر بیان کئے گئے مختلف تضادات کو ختم کیا جاسکتا ہے.

دیوجی کے نزدیک پاکستان صیہونیت کی ایک مثال ہے، جس کے مطابق قومی شناخت مذہب کے ذریعے وجود میں آتی ہے. دیوجی کے اس استدلال کے مطابق پاکستان اسرائیل سے قریبی مماثلت رکھتا ہے.

دونوں قومیں برطانوی راج کے تنزلی کے دور میں تخلیق ہوئیں. دونوں نے ہی تشدد کے شکار اقلیتوں کے لئے پناہ گاہ ہونے کا دعویٰ کیا، اور دونوں کے وجود میں آتے ہی وسیع پیمانے پر ایسے لوگوں نے ان نئے ملکوں کو اپنا مسکن بنایا، جو پہلے کبھی یہاں کے رہنے والے نہیں تھے.

اگر اس طرح دیکھا جائے، تو پاکستان اور اسرائیل، دونوں میں نیشنلزم کی بنیاد زبان اور نسل کے بجائے مذہب کو قرار دیا گیا، اور یہ باور کرایا گیا کہ مذہبی عقائد ایک کمیونٹی کو متحد رکھنے کے لئے کافی ہیں، جبکہ علاقے، زبان، اور قومیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے. تمام یہودیوں کو اسرائیل میں خوش آمدید کہا جاتا ہے، بھلے ہی وہ پہلے کہیں کے بھی رہنے والے ہوں.

1947 میں برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں پاکستان کی بھی یہی پالیسی تھی.

جیسا کہ بینیڈکٹ اینڈرسن کا کہنا ہے، 'تمام قومیں تصوراتی برادریاں ہیں، جن میں شناخت اور اتحاد کی بنیاد ایک ثقافت، زبان، اور علاقے کو بنایا جاتا ہے'. اسی بنا پر اسرائیل اور پاکستان کو بھی قوم تصور کیا گیا، جن میں مذہبی کمیونٹیز کو من مانی جگہیں فراہم کر کے قومی شناخت دینے کی کوشش کی گئی.

پاکستان اور اسرائیل کا اس طرح موازنہ کرنا کوئی نئی بات نہیں. دیوجی اپنی کتاب کی شروعات میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق جیسی شخصیت نے بھی 1981 میں دونوں ممالک کے درمیان ان مماثلتوں کو نوٹ کیا تھا.

گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسرائیل کی تخلیق اور اسکے پیچھے موجود محرکات پاکستان کی تخلیق سے کہیں زیادہ مختلف ہیں. سب سے بڑا فرق یہ کے صیہونیوں کے نزدیک اسرائیل کی سرزمین ایک روحانی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے، جس سے دیوجی کے اس اصرار کی تردید ہوتی ہے کہ صیہونی نیشنلزم بنیادی طور پر زمینی و علاقائی نوعیت نہیں رکھتا.

بہرحال، کتاب مسلم زائن اسرائیل کے بجائے پاکستان کے بارے میں لکھی گئی ہے اور دیوجی کا دونوں ممالک کا موازنہ کرنا ان بہت سارے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے جن سے اگے چل کر نظریہ پاکستان کو ایک ساخت فراہم کی گئی.

'مسلم زائن' تاریخ کی کتاب بھی نہیں ہے، حالانکہ دیوجی نے ماضی کے بارے میں بڑی تفصیل سے اور موجودہ پاکستان پر کم کم ہی لکھا ہے، لیکن پھر بھی یہ کتاب تاریخ ایسے بیان کرتی ہے، جس میں اصل سیاسی، اقتصادی، اور سماجی حالات و واقعات کے بجائے نظریہ پاکستان کی تخلیق و ترویج پر روشنی ڈالی گئی ہے

نظریہ پاکستان کی تاریخ کے بارے میں کتاب مسلم زائن تخلیق پاکستان کے بارے میں ہماری سمجھ کو بہتر طریقے سے بڑھاتی ہے. لکھاری نے بیشتر صفحات پر جنوبی ایشیا کے مسلمان لیڈران کے سیاسی نظریات کی تحقیق کی ہے. ان لیڈران میں سید احمد خان، آغا خان، علامہ اقبال، اور خاص طور پر محمّد علی جناح شامل ہیں.

دیوجی کے نزدیک ان تمام افراد کے نزدیک سب سے اہم سوال یہ تھا کے ہندوستان میں برٹش راج اور اسکے بعد کے کسی بھی سیٹ اپ میں بحیثیت اقلیت مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہوگی.

یہاں مسلم لیگ اور قائد اعظم کے بارے میں بحث کرتے ہوئے دیوجی دلیل دیتے ہیں کے یہ مسئلہ مسلمانوں کی ایوانوں میں نمائندگی اور آئینی حیثیت کے بارے میں زیادہ شدت سے سامنے آیا، اور اس مسئلے کا ایک حل یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کو ایک قوم تصور کیا جائے. قائد اعظم نے یہ دلیل پیش کی کہ متحدہ ہندوستان میں رہنے پر مسلمان ایک اقلیتی حیثیت کے حامل ہونگے، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اکثریت اور آئینی تحفظ پر منحصر رہینگے، لیکن انکو ایک قوم کے طور پر تصور کرنے سے وہ برصغیر کے ہندوؤں کے برابر سمجھے جا سکتے تھے.

اس طرح کے کسی بھی سیٹ اپ میں نمبر اور علاقہ کسی خاص اہمیت کے حامل نہیں تھے، اگر یہ ثابت کیا جاسکتا کے مسلمانوں کا ایک جداگانہ تشخص ہے جس کی بنا پر وہ ان تمام حقوق کے حقدار ہیں جو دوسری اقوام کو حاصل ہیں، تو پھر ایسے حقوق کس طریقے کے تحت حاصل کئے جائینگے، یہ بات غیر اہم ہے.

دیوجی کے نزدیک ان نظریات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ مستقبل میں پاکستان کی زمینی سرحدوں کے بارے میں ایک غیر واضح و مبہم رائے رکھتی تھی. یہی وجہ ہے کے 1946 تک جب تک مسلمانوں کو برابر کے حقوق فراہم کئے جاتے رہیں مسلم لیگ ایک نسبتاً نرم طرز کے وفاقی و متحدہ ہندوستان کو قبول کرنے کے لئے تیار تھی. اس صورت میں مسلم لیگ کے نزدیک ایک الگ ملک پاکستان کی تخلیق کی کوئی ضرورت نہیں تھی.

دیوجی کے نزدیک مسلمانوں کی نمائندگی کی تحریک سے جو ماڈل وجود میں آئے، انہوں نے گاندھی اور امبیڈکر کو ہندوستان میں دلتوں کے حقوق کی ترجمانی کرنے کے لئے زبان فراہم کی.

ہندوستان کی تقسیم سے ان غیر مسلم اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کے خدشات بھی سامنے ابھر کر آنے لگے. قائد اعظم کا یہ کہنا تھا کے ہندوستان میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ وہ اقلیت نہیں کہلائے جا سکتے، اس لئے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا قیام ان دو مختلف برادریوں کے درمیان ٹکراؤ کے خدشوں کو ختم کر کے ہندوستان کو آزادانہ طور پر اپنی شناخت قائم کرنے اور آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرے گا.

اس جگہ پر ہم پاکستان اور اسرائیل کے درمیان ایک اور موازنہ کر سکتے ہیں، اور وہ ہے ایک سیکولر سیاسی منصوبے کے لئے مذہب کو بنیاد بنانا.

دیوجی کے نزدیک قائد اعظم اور دوسرے مسلم لیڈران جو زندگی بسر کرتے تھے، وہ ان لوگوں سے کافی جدا تھی جن کی وہ نمائندگی کرتے تھے. خاص طور پر جناح، جو یورپین سیاسی تاریخ اور برطانوی آئینی اور جمہوری طریقوں پر راسخ تھے، کے نزدیک لفظ "مسلم" صرف اک نام تھا، ایسی کمیونٹی کا جو نمائندگی کی تلاش میں تھی.

اسلئے ریاست پاکستان کو کبھی بھی ایک مذہبی ریاست یا عوامی سطح پر مذہبی اخلاقیات کی ترویج کرنے والی ریاست نہیں ہونا تھا، بلکہ ایسی ریاست ہونا چاہیے تھا، جس میں لوگوں کو سیاسی حقوق حاصل ہوں.

دیوجی جناح کی تحریروں اور عوامی تقریروں کے تجزیے کے ذریعے واضح کرتے ہیں، کے بسا اوقات قائد اعظم ہندوستان کی مسلم آبادی کے لئے نو آبادیاتی طرز کی ہتک آمیز زبان استعمال کرتے تھے، جس میں سر فہرست مسلمانوں کو پسماندہ کہنا تھا.

اس تناظر میں یہ قومی پروجیکٹ صرف ایک کمیونٹی کو اوپر لا کر ریاست اور عوام کے درمیان ایک بہتر سماجی معاہدے کی تشکیل کے ذریعے اس کمیونٹی کو سیاسی اور اقتصادی طور پر مضبوط کرنا چاہتا تھا. جناح کے نزدیک پاکستان صرف ایک اصولی موقف تھا نا کہ وہ یہ چاہتے تھے کے ہندوستان میں اسلام کو تحفظ فراہم کیا جائے.

دیوجی کے نزدیک یہ خدشہ کے ہندوستان میں مسلم اذیتوں کا سامنا کرتی ایک اقلیت بن جائیں گے تب سامنے آیا جب 19 ویں صدی میں کانگریس نے ہندوستانی نیشنلزم کا ایک وسیع نظریہ پیش کیا.

جب بھی کوئی قومی شناخت بنتی ہے تو یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ کون کون یہ شناخت حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے. بالکل اسی طرح، جیسے یورپ میں رہنے والے یہودی یوروپی نیشن-سٹیٹس کے قیام کے بعد خود کو پس پشت جاتے ہوئے محسوس کرنے لگے تھے. دیوجی کے مطابق علامہ اقبال جیسے مفکروں نے برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ متحدہ ہندوستان میں ایسے ہی سلوک کا خدشہ ظاہر کیا تھا.

یہودیوں اور یوروپیوں کے درمیان اس انتشار کو بنیاد بناتے ہوئے اقبال اور دیگر لوگوں نے ہی مسلم قومیت کا وہ تصور پیش کیا جس کے مطابق مسلم قوم صرف برصغیر میں ہی نہیں بلکہ اپنے عقائد اور مشترکہ مذہبی سرگرمیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.

ایک اور تناظر میں برطانوی راج اور کمیونزم بھی ایسے سسٹم تھے جو علاقائی سرحدوں میں مقیّد نہیں تھے. اگر جناح کے نمائندگی اور آئینی تحفظ کے بارے میں خدشات نے پاکستان کے خیال کو تقویت بخشی، تو یہ اقبال کا کام تھا جس سے حقیقتاً "مسلم شناخت" وجود میں آئی.

یہی وہ مقام ہے جہاں "پاکستانی صیہونیت" کا بنیادی تضاد سامنے آتا ہے.

پاکستان کا مطالبہ اس بنیاد پر وجود میں آیا کہ ایک اقلیت کو حقوق حاصل ہوں، اور یہ کہ مسلم قوم ایک وجود رکھتی ہے، اس نظریے کے ساتھ پاکستان کو اس حقیقت کا بھی سامنا تھا کہ اسکی اپنی سرحدوں کے اندر ایسے بہت سارے سماجی گروہ موجود ہیں، جو بالکل ایسا ہی دعویٰ کر سکتے ہیں.

مسلمانوں کو ہندوستان میں ایک الگ شناخت کے طور پر متعارف کراتے وقت نہ صرف ہندوستانی نیشنلزم کے وسیع نظریے کو رد کیا گیا، بلکہ مسلمانوں میں آپس میں موجود تفریق کو بھی نظر انداز کیا گیا. ذات، قبیلے، نسل اور طبقاتی تفریق کو لفظ "مسلم" کے اندر ضم کردیا گیا، اور تمام علاقوں کے رہنے والوں کو تاریخی حوالوں سے ایک کرنے کی کوشش کی گئی. اس کی مثال اردو کو قومی زبان قرار دینا ہے، جس کی وجہ سے نئی مسلم قومیت اور اس سے تعلّق رکھنے والوں کے درمیان موجود غیر تاریخی و غیر علاقائی جوڑ کو مضبوط کرنے میں مدد ملی۔

ایک مسلم شناخت بنانے کا مطلب یہ تھا کے دوسری تمام شناختوں کی نفی کی جائے، اور یہ ضروری قرار دیا گیا کہ اس خاص ویژن کو اپنایا جائے، جس کی بنا پر کوئی شخص مسلمان کہلایا جائے گا۔ دیوجی یہ دلیل علامہ اقبال کے احمدیوں کے بارے میں نظریے، کہ احمدی ایک وسیع ملّت اسلامیہ کے درمیان تفریق کا سبب ہیں، کو پرکھنے کے بعد قائم کرتے ہیں۔

دیوجی 'مسلم زائن' کی ابتدا اور اختتام ہیگل کے حوالوں کے ساتھ کرتے ہیں، اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نظریات تاریخ بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تبھی یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دیوجی کی ہیگل سے متاثر اپروچ اس بات پر توجہ دیتی ہے کہ کیسے پاکستان ہندوستانی قومیت کی نفی کے نتیجے میں وجود میں آیا اور وجود میں آنے کے بعد پاکستان میں شناخت کے حوالے سے سوالوں کا اٹھنا ہندوستانی قومیت کی بھی نفی ہے۔

ہندوستان میں ہندوؤں کی مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کے خدشات کے سبب پاکستان کا مطالبہ کر کے جناح اور ان کے بعد آنے والوں نے بالکل ویسے ہی حالات کو راستہ دیا، جن کی بنا پر پاکستان میں رہنے والی نسلی اور مذہبی اقلیتیں بھی انہیں خدشات کا سامنا کرنے والی تھیں جو متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو درپیش تھے۔

'مسلم زائن' ایک دلچسپ کتاب ہے، جو کہ زبردست تحقیق اور گہرے خیالات کا مجموعہ ہے، اور یہ تحقیق اور خیالات ایک عام فہم اور سہل زبان میں پیش کئے گئے ہیں۔ پر کتاب میں کچھ مسائل ضرور ہیں، جو کے بنیادی طور پر کچھ باتوں کو نظر انداز کر دینے سے متعلّق ہیں۔

مثال کے طور پر اسرائیل اور صیہونی تحریک کی تاریخ کو بہت ہی سرسری انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس سے اگرچہ کہ صیہونیت بطور سیاسی تحریک کا تصور معقول ثابت ہوتا ہے، پر اس کا پاکستان کے ساتھ موازنہ کچھ مناسب انداز میں نہیں کیا جا سکتا۔

دوسرا یہ کہ جس جامع انداز میں دیوجی نظریہ پاکستان کے بنیادی مسائل کو سامنے لائے ہیں، بہتر ہوتا کہ اگر وہ اپنے مشاہدات کو برصغیر میں جنم لینے والے حالیہ واقعات، جیسے پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور تشدد اور ہندوستان میں بڑھتی ہوئی ہندو قومیت کے تصور پر روشنی ڈالنے کے لئے بھی استعمال کرتے۔

تیسرا یہ کہ دیوجی برطانوی راج کے دوران ہندوستان کی با اختیار و صاحب حیثیت مسلم لیڈرشپ اور خاص طور پر سرمایہ داروں اور کاروباری حضرات کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں، لیکن وہ تاریخ کے اس مقام پر کام کر رہے دوسرے گروہوں اور انکے مفادات پر کچھ خاص توجہ نہیں دے پائے۔

اگرچہ اس کتاب میں تاریخ کو عام طور پر معلوم حالات و واقعات کے بجائے تصورات کی تشکیل اور ترقی کے حوالے سے جانچنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن یہ دھیان میں رکھنا ضروری ہے کے مستقبل کے پاکستان کے نظام کے متعلق اس وقت مختلف تصورات موجود تھے۔

جیسا کے انوشے ملک نے ان نیشنلسٹ تصورات کا تجزیہ کیا ہے، جنہوں نے ان علاقوں میں بائیں بازو کی سیاست کو مضبوط کیا، جو آگے چل کر پاکستان کا حصہ بننے والے تھے۔ جبکہ نیلیش بوس کے تجزیے کے مطابق بنگالی مسلم سیاست شمالی ہندوستان میں جنم لینے والی سیاسی تحریکوں کے بجائے بنگالی ادبی اور شعوری تحریکوں کے تحت پروان چڑھی۔

حالانکہ دیوجی اس وقت موجود مسلم فکر اور سیاست میں موجود اختلافات پر توجہ دیتے ہیں، لیکن انہوں نے پاکستان کے بارے میں موجود متبادل تصورات کا تجزیہ نسبتاً کم کیا ہے۔

'مسلم زائن' پڑھنے کے بعد دیوجی کی اس دلیل، کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں اور مستقبل کی تعمیر کے لئےعلاقائی حدبندیوں سے آزاد ایک مسلم قومیت کے تصور کو پروان چڑھایا گیا، سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔ اگرچہ کہ ریاست کی جانب سے بارہا کوششیں کی گئیں ہیں، پر یہ ملک ان مقاصد کے حصول میں ناکام ہوچکا ہے۔

ان مقاصد کے حصول میں ناکامی نظریہ پاکستان کی کمزوری کو ثابت کرتی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے بہت موزوں ہے، جو پاکستان کے نظریاتی وجود کے باریک نکات کو گہرائی سے سمجھنا چاہتے ہیں۔


کتاب کا نام -- مسلم زائن: پاکستان بحیثیت ایک سیاسی نظریہ (تاریخ)

زبان: انگلش

لکھاری: فیصل دیوجی

پبلشر: ہارورڈ یونیورسٹی پریس، امریکہ

صفحے: 278

انگلش میں پڑھیں


تبصرہ نگار لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں

حسن جاوید

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ سیاسیات میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

آشیان علی Aug 15, 2014 02:03pm
حسن جاوید صاحب ایسی کتابوں پر تبصرہ کرنا تو بہت خوبصورت تجربہ اور دلچسب مشغلہ ہے جوآ پ نے کیا ہے. کتاب کے رائیٹر کو اور آپ کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد کچھ عرض کرتا ہوں . ہم تو محمد بن قاسم کی سے متعلق نصابی کتابوں کے علم تک محدود معاشرہ ہیں. اپنے ہی کچھ دوستون سے محمد بن قاسم کی موت سے متعلق سوال کرنے پر یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے. اتنا بھی سوچنے کی اجازت نہیں ہے اتنا عظیم جرنیل ملتان کے بعد کدھر چلا گیا! اس کی موت کب کیسے کیوں اور کس کے ہاتھ سے ہوئی؟ ادھر بس اتنا سوال کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے ٹیپو سلطان نے اپنے کتنے بیٹے اپنی سلطنت کو بچانے کے لیے گروی رکھے تھے ؟ بھائی ہم بس اتنا جانتے ہیں چوتھی کی اردو کی کتاب میں پڑھا تھا کہ 6 ستمبر 1965 کی رات دشمن نے بغیر کسی اعلان کے پنجاب پر حملہ کر دیا تھا(لعنت ہو ہم پر جو آپریشن جبرالٹر کے بارے میں خیال بھی کریں) . ٹینک کا ایک گولہ میجر عزیز بھٹی کے بائیں کندھے پر لگا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہو گئے . ٹینک غلیل تھا یا عزیز بھٹی کے ٹو کا پہاڑ آج تک ہم اتنا بھی غور کرنا گناہ سمجھتے ہیں(افسوس اس بات کا ہے ہمارے سوال کرنے پر ٹیچر کے چہرے پر ایسے تاثرات ابھرے جیسے ہم نے امریکہ کافر ملک دریافت کر لیا ہو) . اچھا کیا رائیٹر نے جو ایسی کتاب انگریزی میں تحریر کی اور اردو سمجھنے والوں کے فتویٰ سے محفوظ ہو گئے.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024