• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm

جب پولیس تشدد معمول بن جائے

شائع August 9, 2014
۔— فائل فوٹو
۔— فائل فوٹو

راولپنڈی: اہم عہدوں پر پولیس حکام کی تعیناتیوں پر سیاسی مداخلت سے لگتا ہے جیسے حکومت تشدد کے خاتمے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

حال ہی میں کوٹلی ستیاں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے ایک مقامی پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول کر پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور چھ گھنٹے تک مرکزی شاہراہ کو بلاک کیے رکھا۔

یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب دو گروہوں کے درمیان تنازعے کا تصفیہ کراتے ہوئے ایس ایچ او کی جانب سے ایک خاندان کے بارے میں مبینہ طور سخت ریمارکس سامنے آئے۔

عوامی احتجاج کے جواب میں پولیس نے متعدد افراد کو تھانے پر حملے اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کے شبہے میں حراست میں لے لیا جن کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی رپورٹس سامنے آئی ہیں، یہ کشیدگی تاحال برقرار ہے اور لوگوں کی جانب سے پولیس کو اپنا رویہ درست کرنے کے لیے ڈیڈلائن تک دے دی گئی ہے۔

دوسرا واقعہ ایک شہری علاقے کے پولیس اسٹیشن میں سامنے آیا جہاں ایک قیدی کو کار چوری میں ملؤث ہونے کا اعتراف کرانے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے دوران وہ پولیس کی حراست میں ہلاک ہوگیا، جس کا اعتراف کرتے ہوئے پولیس نے آٹھ اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔

پولیس کی جانب سے "اعتراف جرم" کرانے کے لیے تشدد روزمرہ کا ایک معمول بن گیا ہے، جس کے دوران قیدی کو مارا جاتا ہے، اسے تکلیف دہ پوزیشنز میں باندھا جاتا ہے تاکہ ان سے جرائم کا اعتراف کرایا جاسکے۔

مہمند ایجنسی کے ایک رہائشی سید خان پر کار چوری کا الزام تھا، جس نے ایئرپورٹ اور نیو ٹاﺅن تھانوں میں پولیس کے تمام تر ظالمانہ طریقوں کے باوجود مبینہ جرائم کا اعتراف نہیں کیا اور اپنی زندگی سے محروم ہوگیا۔

تفتیش کے دوران سید خان کے دو ساتھیوں نے مبینہ طور پر دو گاڑیاں چرانے کا اعتراف کرلیا، تاہم ایئرپورٹ پولیس سید خان سے جرم کا اعتراف کرانے میں ناکام رہی، جس پر نیوٹاﺅن تھانے کے ایس ایچ او نے ایئرپورٹ تھانے کے اپنے ہم منصب سے ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اس سے اعتراف کروالے گا۔

نیو ٹاﺅن تھانے کے ایک اہلکار نے جو تفتیش کے عمل میں شامل تھا، نے بتایا "تشدد کے دوران سید خان کا بلڈ پریشر گرنا شروع ہوگیا جس کے بعد اس کی حالت سنبھل نہیں سکی"۔

راولپنڈی کے ایک سپرنٹینڈنٹ پولیس کی بھی تفتیشی عمل کے دوران مبینہ موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

سید خان کی حالت بگڑتی دیکھ کر ایئرپورٹ پولیس اہلکاروں کو طلب کرکے انہیں ملزم کو واپس لے جانے کے لیے کہا گیا، جب ایئرپورٹ پولیس تشدد کے نشانہ بننے والے قیدی کو واپس لے جارہی تھی تو وہ ہلاک ہوگیا۔

ایک میڈیکل بورڈ نے سید خان کی لاش کا پوسٹمارٹم کیا، جس کی حتمی رپورٹ تو ابھی سامنے نہیں آسکی تاہم بورڈ نے تشدد کی تصدیق کردی، جس کے بعد ایئرپورٹ پولیس تھانے کے آٹھ اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا، تاہم ابھی دو اہلکاروں کو حراست میں نہیں لیا جاسکا ہے۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے پولیس تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا "اس قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قانون کے مطابق عدالتوں کے ذریعے مکمل سزا ملنی چاہیئے، پاکستان میں لوگوں کو پولیس کی سفاکیت سے تحفظ فراہم کرنا ہے تو پولیس کی بھرتیوں اور تربیت کے عمل میں بھی بہتری لانی ہوگی"۔

لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن، جس میں کئی انسانی جانیں چلی گئی تھیں، کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دل میں پولیس کے لیے نرم گوشہ محسوس کیا گیا تھا، اب نواز لیگ کی وفاقی حکومت پولیس فورس کو پاکستان تحریک انصاف کے 'آزادی مارچ' اور طاہرالقادری کے احتجاج کے خلاف استعمال کررہی ہے۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ پولیس کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتے ہیں، جبکہ وہ اسے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاﺅن، کوٹلی سیتاں پولیس کے خلاف عوامی ردعمل اور پولیس کی جانب سے قیدیوں پر تشدد کی سنگین شکایات بظاہر وزیراعلیٰ شہباز شریف اور ان کی جماعت کے لیے معمولی باتیں لگتی ہیں، انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جب وہ مشکل کا شکار ہوں گے تو پولیس ان کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2024
کارٹون : 24 دسمبر 2024