• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

نائنٹیز کا پاکستان -- 3

شائع August 11, 2014 اپ ڈیٹ July 13, 2016
الٹے سیدھے بیانات اور مشوروں کے باعث نواز شریف نے جنرل حمید گل اور اسلم بیگ سے  چھٹکارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
الٹے سیدھے بیانات اور مشوروں کے باعث نواز شریف نے جنرل حمید گل اور اسلم بیگ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ اس بلاگ کا تیسرا حصّہ ہے، پہلے اور دوسرے حصّے کے لئے کلک کریں.


پہلا نواز دور 1990-1993

1990ء کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد نے واضح برتری حاصل کی اور حکومت تشکیل دی۔ ان انتخابات سے پہلے حساس اداروں نے مختلف سیاست دانوں میں کروڑوں روپے تقسیم کیے جن کی تفصیل سپریم کورٹ کے مہران بنک کیس والے فیصلے میں موجود ہے۔

اس بندر بانٹ کا آغاز جنرل اسلم بیگ کے ذریعے ہوا، جن کی ہدایات پر بینکار یونس حبیب نے 14 کروڑ روپے ایک فوجی اکاؤنٹ میں جمع کروائے۔ اس رقم میں سے چھہ کروڑ صدر غلام اسحاق خان کے الیکشن سیل کو دیے گئے اور آٹھ کروڑ آئی ایس آئی کے اکاؤنٹ میں چلے گئے۔

جن حضرات کو یہ پیسے فراہم کیے گئے، ان میں نواز شریف، فاروق لغاری، جاوید ہاشمی، سرتاج عزیز، محمد خان جونیجو، پیر پگاڑا، عابدہ حسین، آفتاب شیر پاؤ، انور سیف اللہ کے نام شامل تھے۔

یاد رہے کہ خفیہ اداروں کے ذریعے سیاست دانوں کو انتخابات کے لیے نوازے جانے کی رسم بھٹو صاحب کے دور میں شروع ہوئی اور پہلی دفعہ یہ حربہ سن 1977 ء کے انتخابات میں آزمایا گیا تھا۔

قومی اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد نے 206 میں سے 105 نشستیں جیتیں جبکہ پیپلز پارٹی اور اسکی حلیف جماعتیں محض 45 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکیں۔

پنجاب میں اتحاد نے واضح کامیابی حاصل کی اور غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ سرحد میں اسلامی جمہوری اتحاد نے عوامی نیشنل پارٹی کے تعاون سے حکومت قائم کی اور میر محمد افضل وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

سندھ میں پاکستان جمہوری اتحاد (جس میں پیپلز پارٹی اور اسکی اتحادی جماعتیں شامل تھیں) نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں لیکن جام صادق علی کی ’سیاست‘ کے باعث حکومت اسلامی جمہوری اتحاد اور مہاجر قومی موومنٹ نے قائم کی۔

مسلم لیگ نواز (اور اس سے قبل اسلامی جمہوری اتحاد) کے قائد نواز شریف اور انکے خاندان کا سیاست میں داخلہ 80ء کی دہائی کے آغاز میں پنجاب کے فوجی گورنر جنرل غلام جیلانی کے ذریعے ہوا۔

بھٹو صاحب کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی کے ہاتھوں ذلیل ہونے والے میاں محمد شریف کے لیے ضیاالحق کی آمد ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ ضیاء کے نافذ کردہ گورنر کو جب لاہور میں گھر بنانے کا موقع ملا تو میاں محمد شریف نے یہ ذمہ داری قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس گھر کی تعمیر کے دوران ہی جنرل صاحب کی ملاقات میاں شریف کے ایک صاحب زادے سے ہوئے، جس نے جنرل صاحب کو بہت متاثر کیا۔

جب پنجاب میں سویلین کابینہ بنانے کا وقت آیا تو بڑے میاں صاحب نے اپنے فرزند کے لیے سفارش کی۔ جنرل صاحب کی طرف سے میاں شریف کے ہونہار فرزند شہباز کو وزیر خزانہ بنانے کا حکم جاری کیا۔

اس پر میاں شریف بہت سٹپٹائے کیونکہ انہوں نے تو دراصل اپنے بیٹے نواز کے لیے سفارش کی تھی اور شہباز نے تو کاروبار سنبھالا ہوا تھا۔ بہرحال میاں صاحب کی کوشش رنگ لائی اور نواز شریف نے صوبائی وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالا۔

نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں صدر اور وزیر اعظم کے مابین چپقلش جاری رہی اور تنازعہ کی وجہ ایک بار پھر فوج اور اس کے سربراہ کی تقرری تھی۔

پہلی خلیجی جنگ میں الٹے سیدھے بیانات اور مشورے دینے کے باعث نواز شریف نے جنرل حمید گل اور اسلم بیگ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل ہی انکے جانشین کا اعلان کر دیا گیا، جو اسلم بیگ کی خواہشات کے مخالف تھا۔ اسی طرح حمید گل کو کور کمانڈر کی جگہ واہ کینٹ میں اسلحہ خانے کی سربراہی کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دی اور ریٹائرمنٹ حاصل کی۔

نواز شریف نے کچھ عرصے بعد فوج کے چنگل سے آزادی کی کوشش کی تو ان کے پر کاٹنے کا ارادہ ہو چکا تھا۔ اس ضمن میں چوہدری نثار اور بریگیڈیر امتیاز عرف بِلّا نے جنرل آصف نواز کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے۔

آصف نواز کی حادثاتی وفات کے بعد صدر صاحب نے وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش کے برعکس جنرل وحید کاکڑ کا تعین بطور آرمی چیف کیا۔ نواز شریف لیفٹیننٹ جنرل اشرف کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن انکی ایک نہ سنی گئی۔

جواب میں نواز شریف نے آٹھویں ترمیم کے خاتمے کی صدا سینٹ میں بلند کی۔
وزیر اعظم کے ان اقدام پر صدر صاحب خوب تلملائے اور انہوں نے بینظیر صاحبہ سے رابطہ کیا، ان کے خلاف مقدمات ختم کروائے اور اسمبلی کے چنیدہ ممبران کو استعفے جمع کرانے کا اشارہ دیا۔

17 اپریل 1993 ء کو وزیر اعظم نے قوم سے ایک جذباتی خطاب کے دوران یہ عہد کیا کہ وہ اسمبلی برخاست نہیں کریں گے، اور استعفیٰ بھی نہیں دیں گے۔

اگلے ہی روز صدر صاحب نے شریف الدین پیرزادہ سے مشورہ کرنے کے بعد کرپشن، اقربا پروری، نااہلی کے الزام کے تحت نواز حکومت برخاست کر دی اور بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا۔

وہ نگران حکومت بینظیر صاحبہ کی مرضی سے تشکیل دی گئی اور اس میں ان کے شوہر آصف زرداری بھی شامل تھے۔ ایک موقعہ پر نگران کابینہ میں تریسٹھ (63) وزیر موجود تھے۔

اس دوران نواز شریف نے اپنی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل جمع کروائی اور سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا (صرف ایک جج، جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا)۔

حکومتی دھینگا مشتی کے دوران پنجاب میں منظور وٹو نے غلام حیدر وائیں کی جگہ وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔

وفاقی حکومت کی بحالی پر نواز شریف نے پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ سونپنے کا فیصلہ کیا۔ وٹو صاحب نے گورنر کو مشورہ دیا کہ پنجاب حکومت برخواست کر دی جائے جبکہ ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف قرارداد عدم اعتماد کی کارووائی شروع کرنے کا نوٹس گورنر کو بھیج دیا۔

گورنر صاحب نے وزیر اعلیٰ کے مشورے کی بنیاد پر اسمبلی کو معطل قرار دیا۔ پرویز الٰہی نے گورنر کے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے گورنر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی بحالی کا حکم جاری کیا۔

وزیر اعلیٰ وٹو نے عدالت کا حکم نامہ جاری ہونے کے کچھ گھنٹے بعد ہی دوبار ہ گورنر الطاف حسین کو پنجاب اسمبلی برخاست کرنے کی سفارش بھیج دی جو انہوں نے منظور کر لی۔

اس صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت نے آئین کی شق 234 کے تحت صوبے کا اختیار سنبھالنے کا حکم جاری کیا۔ وفاق کی جانب سے صوبے کا اختیار سنبھالنے کے لیے ایک نمائندہ مقرر کیا گیا اور رینجرز کو حکم دیا گیا کہ گورنر اور صوبائی پولیس کو بے دخل کر دیا جائے۔

صدر اسحاق نے اس حکم کی آئینی حیثیت ماننے سے انکار کیا اور گورنر کا حکم دیا کہ وفاق کی کاروائیوں کے خلاف مزاحمت کی جائے۔ سرحد اسمبلی میں بھی اسی طرز کا کھیل کھیلا گیا۔

فوج نے اب کھلم کھلا میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کور کمانڈروں کے اجلاس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ وزیر اعظم اور صدر کو فارغ کیا جائے اور دوبارہ انتخابات کروائے جائیں۔

18 جولائی 1993ء کو صدر اور وزیر اعظم نے استعفیٰ دیا اور سینٹ کے سربراہ وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا۔

اکتوبر 93ء میں قائم مقام حکومت کی زیر نگرانی نئے انتخابات کروائے گئے۔

جاری ہے...

ریفرنسز:

  1. Vintage Cowasjee: A Selection Of Writings From DAWN 1984-2011 by Ardeshir Cowasjee

  2. Constitutional and Political History of Pakistan. Hamid Khan. Second Edition. Oxford University Press

  3. Pakistan's Drift into Extremism Allah, then Army, and America's War Terror by Hassan Abbas

    1. Nuclear Deception: The Dangerous Relationship Between the United States and Pakistan. Adrian Levy,Catherine Scott-Clark
  4. ISLAMIC PAKISTAN: ILLUSIONS & REALITY By Abdus Sattar Ghazali (http://www.ghazali.net/book1/contents.htm)

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024