نائنٹیز کا پاکستان -- 1
یہ بلاگ انیس سو نوے کی دہائی کے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بارے میں سیریز کا پہلا حصّہ ہے
کہا جاتا ہے کہ تاریخی مواقع کی مناسبت سے انسان یہ چیز یاد رکھتے ہیں کہ وہ ان اوقات کے دوران کہاں تھے یا کیا کر رہے تھے۔ بیشتر پاکستانیوں بشمول راقم کے لیے 25 مارچ 1992ء کا دن ایک ایسا ہی تاریخی موقع تھا اور ہمیں آج تک اس دن کی چند جھلکیاں یاد ہیں۔
اس روز پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلی دفعہ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اس ٹیم کی قیادت عمرا ن خان کر رہے تھے اور اس روز انہوں نے صرف ایک کپ ہی نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے دل بھی جیت لیے تھے۔ چند برس بعد خان صاحب نے کینسر ہسپتال کے لیے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا۔ کینسر ہسپتال بن گیا تو خان صاحب نے اپنی توجہ سیاست کی جانب کی۔
25 ا پریل 1996 کو پاکستان تحریک انصاف نے جنم لیا۔ بقول نصرت جاوید صاحب، اس جماعت کی پیدائش کے ذمہ دار جنرل ضیاء کے ایک ساتھی جنرل مجیب الرحمان تھے۔ خان صاحب کی سیاست پر نظر ڈالنے سے پہلے 90 کی دہائی کے سیاسی حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔
موجودہ دور کی نوجوان نسل اس سیاسی تاریخ کے بہت سے پہلووں سے ناواقف ہے اور ہمارے ناقص خیال میں انکے لیے یہ سب جاننا اشد ضروری ہے۔ اس کہانی کے بہت سے کردار اب بھی پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں۔
70ء کے انتخابات تک کراچی میں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی حمایت کرنے والے مہاجر آبادی کو 1972ء میں سندھیوں کے لیے شروع کیے گئے کوٹہ نظام نے سخت پریشانی میں مبتلا کیا۔
اسی برس سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان کا درجہ بھی دیا گیا۔ اس سے قبل یو-پی اور سی-پی کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے مہاجرین نے 1951ء اور 1958ء کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے نمائندوں کی حمایت کی تھی۔
سن 1965ء کے صدارتی انتخابات میں کراچی کی مہاجر آبادی نے فاطمہ جناح کی پرزور حمایت کی۔ ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے انتخاب میں فتح حاصل کرنے کے بعد ایک جلوس منعقد کیا اور مخالفین پر فائرنگ کی۔
70 ء کی دہائی کے اختتام تک کوئی سیاسی جماعت مہاجروں کے حقوق کی علم بردار اور محافظ نہیں تھی۔ اس صورت حال میں کراچی یونیورسٹی میں قائم کی جانے والی کل پاکستان مہاجر طلبہ جماعت (APMSO) نے اس خلا کو کسی حد تک پورا کیا۔
الطاف حسین اور عظیم طارق کی سربراہی میں قائم ہونے والی اس جماعت کی تخلیق میں ’حساس اداروں‘ کے کردار پر بہت سی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔
افغان جنگ کے باعث بہت سے پشتون مہاجرین نے کراچی کا رخ کیا اور بہت سوں نے معمولی نوکریاں اختیار کیں۔ ایک اندازے کے مطابق سن 1980ء میں کراچی کی آبادی اسّی لاکھ تھی اور شہر میں پشتون افراد کی تعداد پندرہ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ چند پشتون مہاجرین نے ٹرانسپورٹ بسوں کا کاروبار شروع کیا اور جلد ہی کراچی کی سڑکوں پر انکا راج قائم ہو گیا۔
15 اپریل 1985ء کو کراچی میں ہونے والے ایک واقعے نے سندھ میں مقیم مہاجر آبادی کی تاریخ کو بدل دیا۔ ناظم آباد کے سرسید گرلز کالج کی طالبہ بشری زیدی کو ایک پٹھان بس ڈرائیور نے بس تلے کچل دیا۔ بس کو مظاہرین نے آگ لگا دی اور ڈرائیور موقعے سے فرار ہو گیا۔
اس سے قبل شہر میں ایسے کئی واقعات ہو چکے تھے اور پختون ڈرائیوروں کے ہاتھوں کئی حادثے رونما ہو چکے تھے۔ بشری زیدی کی جوان موت کے باعث کراچی شہر میں فسادات شروع ہوئے اور مہاجر وں کی جماعت ’مہاجر قومی موومنٹ‘ (جو مارچ 1984ء سے معرض وجود میں آ چکی تھی) نے اپنی سیاسی اور عملی طاقت کا پہلا مظاہرہ کیا۔
بینظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت -- 1988-1990
ضیاء نامی ظلمت سے نجات حاصل کرنے کے بعد سے مشرف کے طیارے کی آمد کے بیچ 11 سالہ وقفے میں پانچ دفعہ جمہوری حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ کبھی کرپشن تو کبھی وسیع تر قومی مفاد کے بہانے حکومت کو فارغ کر دیا جاتا۔
افغانستان میں روس کے خلاف جنگ تو ختم ہو چکی تھی لیکن اس جنگ کے ملبے سے جو عفریت برآمد ہوئے ان کے اثرات ابھی باقی تھے۔ جنگ کے بعد امریکی اپنی امداد سمیت فرار ہو چکے تھے اور پاکستان کے پاس صرف بیرونی قرضے اور تربیت یافتہ جنگجو چھوڑ گئے تھے۔ جنگ کے خاتمے تک حساس ادارے اور فوج اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ ان کو نکیل ڈالنا اب کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔
ضیا کی ہلاکت کے بعد جونیجو صاحب نے عدالت عظمی سے درخواست کی کہ ان کی حکومت بحال کی جائے کیونکہ اسے غیر قانونی طریقے سے ہٹایا گیا تھا۔ اس اثنا میں فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے لاہور پریس کلب میں یہ بیان دیا کہ اگر سپریم کورٹ کے ججوں نے جونیجو حکومت کو بحال کیا تو اس فیصلے کے نتیجے میں ’پیدا ہونے والی صورت حال‘ کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔
معاملہ بہر حال زیادہ آگے نہیں بڑھا اور عدالت نے تازہ انتخابات کا حکم دیا (اسلم بیگ صاحب کو سپریم کورٹ نے سنہ 1994ء میں توہین عدالت کے الزام میں طلب کیا تو انہوں نے عدالت میں جواب دیا کہ ’میں اس عدالت کے آگے جواب دہ نہیں ہوں‘)۔
انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے قومی شناختی کارڈ ہونا لازم قرار دیا گیا، جو دراصل پیپلز پارٹی کو طاقت میں آنے سے روکنے کی کوشش تھی۔ اسی طرح حسین حقانی صاحب کے زیر نگرانی نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے خلاف بدنامی کی مہم شروع کی گئی اور انکی تصاویر کو مسخ کر کے پمفلٹ جہاز کے ذریعے بڑے شہروں پر گرائے گئے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کو اسکے روایتی انتخابی نشان یعنی تلوار سے محروم کر دیا گیا اور تیر کا نشان عطا کیا گیا۔
اپوزیشن میں جنرل حمید گل کی بنائی جماعت ’اسلامی جمہوی اتحاد‘ دراصل ذوالفقار علی بھٹو مخالف ’پاکستان نیشنل اتحاد‘ کا ایک نیا روپ تھی۔
ان تمام اقدامات کے باوجود بینظیر صاحبہ کی جماعت وفاقی انتخابات میں کامیاب ٹھہری۔ ان انتخابات میں حیران کن طور پر 54 آزاد امیدوار قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہوئے (یا کروائے گئے)۔ ضیاء دور کے ایک قانون کے مطابق صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ مقننہ کے کسی بھی رکن کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کر سکتا ہے البتہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا بھی ضروری ٹھہرایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 207 نشستوں میں سے 93 پر کامیابی حاصل کی جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے 55 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اتحاد کے سربراہ نواز شریف نے انتخابات سے اگلے روز حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ اقتداری اونٹ کی کروٹ کا فیصلہ صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھ میں تھا۔
بلآخر صدر صاحب نے محترمہ بینظیر کی جماعت کو اس شرط پر اقتدار منتقل کیا کہ وہ صدارتی انتخابات میں غلام اسحاق خان کو ووٹ دیں گے۔ صدارتی انتخاب میں پیپلز پارٹی ارکان نے ایم آر ڈی (MRD) تحریک کے دوران اپنے حلیف نوابزادہ نصراللہ خان پر اسحاق خان کو فوقیت دی۔
غلام اسحاق خان پاکستان افسر شاہی کے نشیب و فراز سے گزر کر اقتدار کے ایوان تک پہنچے تھے۔ ایوب خان کے دور میں وہ واپڈا کے محکمے میں تعینات کیے گئے، بعدازاں انہیں وزارت مالیات اور بینک دولت پاکستان میں اعلیٰ درجے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
بقول وجاہت مسعود ’1950 کی دہائی میں جو کردار اسکندر مرزا کو ملا، 1980 کے عشرے میں اسی نوعیت کے کچھ نالے غلام اسحاق خان کے سپرد ہوئے تھے۔ رپورٹ پٹواری مفصل (لفِ ہذا) سے معلوم پڑتا ہے کہ یہ نالے بطریق احسن دم ہوئے۔ جن ملکوں میں عوامی تائید کے بغیر حکمرانی کا طور جڑ پکڑ لے، وہاں ایک نہ ایک ایسا کردار پیدا ہو جاتا ہے جسے سدا بہار سمجھا جاتا ہے۔ اقتدار جس روپ میں بھی رونمائی دے، یہ کسی خوشنما تِل کی صورت رخِ انور کی رونق بڑھاتے رہتے ہیں۔ روس میں یہ اعزاز گریمکو کو حاصل تھا۔ پاکستان میں یہ منصب غلام اسحاق خان کو ملا۔‘
(جاری ہے)
ریفرنسز:
Pakistan in the Twentieth Century: A Political History.Lawrence Ziring. Oxford University Press
Nuclear Deception: The Dangerous Relationship Between the United States and Pakistan. Adrian Levy,Catherine Scott-Clark
منیر احمد منیر۔ ایجنسیوں کی حکومت
4 Constitutional and Political History of Pakistan. Hamid Khan. Second Edition. Oxford University Press
غلام اسحاق خان، نصف صدی کا قصہ، وجاہت مسعود
Karachi: Ordered Disorder and the Struggle for the City by Laurent Gayer
تبصرے (2) بند ہیں