پاکستان کے عام آدمی کا احوال
دو ہزار کی دہائی کی وسطی مدت کو چھوڑ کر، عام طور سے پاکستانی معیشت کی ترقی کی شرح کم ہی ہورہی ہے، بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، قرضے بڑھتے جارہے ہیں، افراط زر کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے- اور اس گرداب میں پاکستان تقریبا دودہائیوں سے پھنسا ہوا ہے- ایک عام پاکستانی نے ان کٹھن حالات کا کسطرح مقابلہ کیا ہے؟
یہ قلمی خاکے ان لوگوں کے ہیں جن کو میں اسی زمانے سے کافی قریب سے جانتا ہوں اور انہیں زندہ رہنے کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا ہے- یہ یقیناً نمائندہ کہانیاں نہیں ہیں اس لئے کہ یہ ایک بہت ہی چھوٹا نمونہ ہے جس کا تعلق شہروں سے ہے، بہرحال اگر ہم ان کہانیوں کو پورے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کی ان کہانیوں سے جوڑ دیں جن کے بارے میں ہمیں پتہ ہے، تو ہمارے ہم وطنوں کی زندگی کے یہ مختصر مگر جامع خاکے، جو عام طور سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، بہت کچھ کہہ دیتے ہیں-
خالہ سکینہ: ہماری صفائی کرنے والی خاتون جو ہمارے ساتھ اس وقت سے ہیں جب ہم 16 سال پہلے اسلام آباد منتقل ہوئے تھے- ان دنوں، وہ سات بچوں کی ایک جوان ماں تھیں؛ چند سال بعد وہ بیوہ ہوگئیں- ان حالات میں جو مشکل جدوجہد کا زمانہ تھا، انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کسی نہ کسی طرح کرلی--- دو بیٹے، کئی بیٹیاں- بیٹے خوش قسمت تھے کہ انہیں دو ایسے اداروں میں ملازمت مل گئی جن کا محکمہ دفاع سے تعلق ہے اور وہ تنخواہ اور سہولتوں کے لحاظ کافی بہتر ہیں
بہرحال، ایک ٹھیک ٹھاک مشترکہ آمدنی کے باوجود، گھریلو اخراجات بڑھتے ہی جاتے ہیں، اضافی خاندان میں وقفوں وقفوں سے ہونے والی شادیوں اور اموات کی وجہ سے خالہ سکینہ اکثروبیشتر قرضدار ہی رہتی ہیں، اس پر سے بیماریاں بھی بچت کے اوپر ایک مسلسل بوجھ ہیں، اور جعلی ڈاکٹروں کے چکر سے خاندان کے حالات میں کوئی بہتری نہیں ہوتی -
تھوڑے عرصے سے، بجلی کے بل نے بھی جھٹکے دینا شروع کیا ہے- اس حقیقت کے باوجود کہ یہ خاندان گولڑہ میں رہتا ہے اسلام آباد کے ایک کنارے، ان کا بجلی کا بل اکثر ہمارے بل سے زیادہ ہوتا ہے- بلکہ کئی مرتبہ تو یہ اوسط 5000 روپیہ مہینہ بنتا ہے--- جو ایک ایسے خاندان کیلئے ایک غیرمعقول رقم ہے جو ہررات صرف چند ٹیوب لائیٹ اور پنکھے استعمال کرتے ہیں-
اسد: اسد ہرروز صبح کو میری گاڑی دھوتا ہے- ایک ذہین، محنتی اور بےحد شائستہ نوجوان، اسد چار بھائیوں میں ایک جو سارا دن گاڑیاں دھوتا ہے اور اسکول نہیں جاتا - اسد نے پیشگی ادائیگی پر تھوڑی سی مدد ملنے پر دوسال پہلے ایک موٹر سائکل قسطوں پر خریدی-- جس کی وجہ سے اس کی آمدنی کے مواقع کافی بڑھ گئے- بہرحال، یہ دیکھنا مشکل ہے کہ تعلیم کے بغیر وہ یہاں سے معاشی بہتری کی جانب کیونکربڑھتا ہے- کیونکہ اس کے تعلیمی اخراجات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ خاندان کے اخراجات کی قیمت پر ہے--- اگر اسد اپنی تعلیم کے بارے میں سوچتا ہے تو کسی کو ان اخراجات کو اٹھانا ہوگا- اسکول میں پارٹ ٹائم داخلہ ایک حل ہوسکتا ہے-
اسد جیسے لائق اور ہونہار لڑکے کی زندگی ضائع ہوتے ہوئے دیکھنا افسوس ناک بات ہے، لیکن وہ اسی ملک کے ان تمام نوجوانوں کی نمائندگی کرتا ہے جو سب کے سب ریاست کے لائق شہری ہیں لیکن ریاست ان کو نظرانداز کرکے چھوٹے مسائل کی فہرست میں ڈال دیتی ہے-
شاکراللہ: شہد کا ایک پرانا تاجر شاکراللہ جو نوشہرہ میں رہتا ہے، میری جب اس سے ملاقات ہوئی تب اس پر کافی قرضہ چڑھا ہوا تھا- خاندان میں کچھ امراض اور بیماریوں نے شاکراللہ کو قرضوں کے بوجھ تلے دبادیا تھا- جب 2011ء کےسیلاب نے اس کے گھر کے ایک حصہ کو تباہ کردیا تو یہ آخری تنکا ثابت ہوا- اگرچہ کہ حکومت نے اس کے نقصان کی تلافی بھی کردی، لیکن اسے تعمیری اخراجات کا صرف تھوڑا سا حصہ ملا-
واجبی تعلیم یافتہ، شاکراللہ کے پاس اب اتنی رقم بھی نہیں ہے کہ وہ اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرسکے- اسے تھوڑی بہت مدد کبھی ملی، لیکن ابھی تک اس کی کوششیں بارآور نہیں ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے اسے کئی مہینوں روزانہ مزدوری کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا- اس کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کیلئے اس کی بیٹی کو--- جو کئی بچوں میں سب سے چھوٹی ہے--- دل کا ایسا مرض لاحق ہے جس کی وجہ سے اکثر ہسپتال کا چکر لگانا پڑتا ہے اور جو بچت ہوتی ہے وہ ڈاکٹر کی فیسوں اور دوائیوں کی نذر ہوجاتی ہے- تقریباً پچھلے تین سالوں میں، اسکے بچوں نے اکثر ڈھنگ کا کھانا بھی نہیں کھایا، جس کا اثر بچوں کی صحت پر نظر آتا ہے- شاکراللہ کے گھریلو مسائل جب ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں تو تبلیغی جماعت کی مدد سے' چھٹکارہ ' ملتا ہے--- اگرچہ کہ اس کی وجہ سے مذہب میں اور زیادہ غرق ہوجانا ہے!
بابو: میری نظر میں، بابو ایک ایسی شخصیت ہے جسے ہم نظرانداز کردیتے ہیں اور جو ہمیں یاد بھی نہیں آتا- میں اسے اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ایک کم عمر نوجوان تھا، اور کراچی میں میریٹ ہوٹل کے سگنل پر گاڑی والوں کو اخبارات اورہیجان خیز اور افواہوں سے بھرے ہندوستانی فلمی رسالے بیچنے کیلئے ان کے آگے پیچھے بھاگا کرتا تھا- یہ تقریباً چالیس سال پہلے کی بات ہے- ہم اسکول سے واپس آرہے ہوتے تھے، اور بابو اپنی ہوائی شرٹ میں اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ نظر آتا-
چند سال پہلے، میریٹ کے برابر میں میرے بینک کے کراچی آفس سے باہر آتے ہوئے بابو نے مجھے پہچان لیا- وہ بوڑھا اور پریشان نظرآرہا تھا، اس کی جسمانی حالت اب اخبار بیچنے کے لائق نہیں رہی تھی، بالکل ناخواندہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس روزی کمانے کے مواقع بےحد محدود تھے- ایک نیکدل شخص نے اس کے دو چھوٹے بچوں کے اسکول کے اخراجات اٹھانے کا ذمہ لیا- بابو کو جیسے ایک دنیا مل گئی- مگر بدقسمتی سے چند سالوں کے بعد، جبکہ بچے اسکول میں اچھے جارہے تھے، اس پرائیویٹ اسکول کو بند کرنا پڑا- یہ اسکول کورنگی نمبر2 میں بابو کے گھر کے قریب تھا- اس کے مالک کو مسلسل بھتے کیلئے دھمکیاں مل رہی تھیں--- مجبوراً اسے اسکول کو وہاں سے کہیں اور لے جانا پڑا- اس کے نتیجے میں اس غریب محلے میں کافی بچے تعلیم سے--- اور ایک اچھے مستقبل کی امید سے محروم ہوگئے - بابو نے اب ایک سبزیوں کا کھوکھا لگا لیا ہے اور اس کے اسکول سے فارغ بچے اپنے باپ کی مدد کرتے ہیں-
آصف: جتنے' عام ' پاکستانیوں کو میں جانتا ہوں، ان میں آصف کی کہانی ایک مثبت کہانی ہے- وہ یقیناً ' بہتری کی راہ ' پر پے ( اپنے ہمسائے، مجید کے ساتھ، جوایک لانڈری کا مالک ہے)- آصف F-11 میں ایک درمیانے سائز کا کریانہ اسٹور چلاتا ہے، اور ایک کامیاب دکاندار سمجھا جاسکتا ہے- اسکی ہر ہفتہ کی خریداری جو نقد ہوتی ہے تقریباً ایک لاکھ روپیہ کی ہوتی ہے، اس کا بزنس اتنا اچھا چل رہا ہے کہ اس نے حالیہ دنوں میں ایک چھوٹا سا پلاٹ نئے ایر پورٹ کے نزدیک سرمایہ کاری کے مقصد سے خریدا ہے-
لیکن آصف کی طرح کی امید بھری ہر کہانی کے ساتھ، بے حد و حساب دوسری دکھوں بھری کہانیاں ہیں جو پورے پاکستان میں ہر جگہ موجود ہیں- جو ای-میل اور خطوط مجھے ملتے ہیں، ان سے یہ تاثرملتا ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان جو پاکستان کے چھوٹے شہروں میں رہتے ہیں وہ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، خصوصی طور پر وہ دورافتادہ شہر جو معاشی طور پر پیچھے ہیں، اور ان کے قریب کوئی بڑا شہر یا صنعتی علاقہ موجود نہیں ہے- مواقع کی کمی، انتظامیہ کی ناانصافیاں اور سخت گیری، اور عوامی صحت کا ایک ابلتا ہوا بحران لاکھوں لوگوں کی اذیت کو دوگنا کررہا ہے- کیا کیا جاسکتا ہے ، اور کیا کیا جانا چاہئے، یہ ہمارے آئندہ آنے والے مضمون کا موضوع ہوگا-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (1) بند ہیں