ماضی -- حال -- کھویا ہوا مستقبل
لوگ انقلاب کے فائدے اور نقصانات کے بارے میں بڑے جوش و خروش سے مگر بغیر اس کے معنی اس کے کردار اور اس کے نتائج کے بارے میں سمجھتے ہوئے باتیں کرتے ہیں- پاکستانی معاشرے کے بارے میں مفروضہ یہ ہے کہ یہ گراوٹ، بدعنوانی اور تنزلی کی اس حالت کو پہنچ چکا ہے کہ اس میں کسی بہتری کی کوئی امید نہیں ہے- لہٰذا، انقلاب ہی ایک ایسا راستہ ہے جو اس فرسودہ نظام کو مکمل طور پر منہدم کرکے اس معاشرے کو جلد سے جلد ایک نئی زندگی دے سکتا ہے- جو بہرحال، ایک رومانوی تصور ہے-
انقلاب اس طرح سے نہیں آتا ، جبتک اس کے لئے ایسے حالات اور ماحول نہ پیدا کئے جائیں، جس میں ایک طویل عرصہ لگتا ہے- حالیہ تاریخ میں انقلاب کی تین اقسام ہیں: فرانس کا انقلاب، روس کا انقلاب اور چینی انقلاب- مگر ان تینوں انقلابوں کے پیچھے مختلف حالات اور نظریات تھے، مختلف قائدین اور بالکل مختلف وجوہات جن میں وہ رونما ہوئے- فرانس کا انقلاب روشن خیالی کی تحریک اور فلسفیوں کے نظریات کا نتیجہ تھا- یہ بالکل بے ساختہ اور کسی خصوصی منصوبے یا سمت کے بغیر وقوع پذیر ہوا تھا- جیسے جیسے انقلاب آگے بڑھتا گیا، اس نے پورے معاشرے کو مختلف انقلابی پالیسیوں کے مطابق بدل کر رکھ دیا-
اس انقلاب کے قائدین ہر نئے مرحلے پر بدلتے رہے- انقلاب کی ابتدا سے لیکر انتہا تک کوئی ایک قائد اس انقلاب کی ہدایات کیلئے ذمہ دارنہیں تھا- اس انقلاب کا سب سےاہم بنیادی عرصہ 1791ء سے لے کر1793ء تک کا تھا، جب فلسفیوں کے نظریات آئین کا حصہ بنائے گئے؛ خصوصی طور پر روسو کا عوام کی حکمرانی کا نظریہ جس نے ریاست کےکردار کے وراثتی تصور کو بدل دیا- وہ بنیادی اقدامات جو انقلابی حکومت نے اٹھائے وہ فیوڈلزم، غلامی، اعلیٰ اشرافیہ، اعلیٰ خطابات کے استعمال اور چرچ کی بالا دستی کو مکمل طور پر ختم کردینے سے متعلق تھے-
اس نےعورتوں کو ان کے حقوق دیئے اور باصلاحیت لوگوں کو مواقع فراہم کئے- اس کے ساتھ اس نے جدید نظریات اور کلیئے جیسے کہ قومییت، آزاد خیالی، اشتراکیت، نسوانیت اور دہشت گردی کا تصور بھی دیا- اپنے شہریوں کو تعلیم دینا بھی ریاست کی ذمہ داری قرار پایا-
ایک کامیاب انقلاب قربانیوں کا متقاضی ہوتا ہے- تقریباً چالیس ہزار لوگ مع اپنے قائدین کے اس انقلاب کے دوران مارے گئے- اس نے نہ صرف تاریخ پر ایک دیر پا اثر چھوڑا بلکہ آئندہ ہونے والے انقلابات کیلئے یہ ایک مثال بھی بن گیا-
روسی انقلاب فرانس کے انقلاب سے بہت مختلف تھا- یہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ لایا گیا تھا اور شروع سے ایک با صلاحیت قائد کے ماتحت ایک منظم پارٹی اس انقلاب کو لانے میں کامیاب ہوئی تھی- اس کا نظریہ مارکسزم تھا، اس کا قائد لینن اور پارٹی بالشویک تھی؛ کمیونسٹ پارٹی کا ایک بچھڑا ہوا گروپ- اس انقلاب نے تمام اداروں اور عقائد کو مکمل طور پر ختم کرکے ان کی جگہ نئے ادارے اور عقائد رائج کئے- اور انہوں نے ساری دنیا کے مظلوموں اور پسے ہوئے لوگوں کو اپنی قسمت بدلنے اور ایک نئی دنیا بنانے کا عزم دیا-
چینی انقلاب کی قیادت ماؤ نے کی؛ اس نے بھی مارکسسٹ نظریہ کو ہی اپنایا اور اس کی وفاداریاں پیپلز آرمی کے ساتھ تھیں- اس کی کامیابی محض اتفاقی تھی- جاپان کے حملے نے ماؤ اور اس کے ساتھیوں کو پہلے، نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر جاپان کا مقابلہ کرنے کا ایک موقع فراہم کیا، اس کے بعد نیشنلسٹ پارٹی کو شکست دے کر ریاست پر قبضہ کرلیا-
مارکسسٹ نظریہ کو اپنا کر انقلاب لانے کی کچھ اور بھی مثالیں ہیں- ان میں ایک مثال ویت نام کی ہے جس نے ہو چی منہ اور کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں امریکی قبضہ کے خلاف ایک خوںریز جنگ لڑی- آزادی کی اس جنگ میں فتح ہزاروں لوگوں کی قربانی کے بعد حاصل ہوئی تھی-
دوسری مثال کیوبا کی ہے جہاں ایک بدعنوان آمریت کی قیادت فیڈل کاسٹروکے ہاتھوں ختم ہوئی تھی اور ایک اشتراکی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا- ان تمام انقلابوں کا مقصد پرانے نظام کو ختم کرکے عام لوگوں کی بھلائی کیلئے ایک نئے نظام کا قیا م تھا-
ان انقلابوں کی کامیابیوں، اور ان کے رول پر ایک نظر ڈال کر، پاکستان کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس معاشرے کی پوری ساخت کو بدلنے کیلئے یہاں کسی انقلاب کا امکان ہے-
یہاں ایسی روشن خیالی کا وجود بھی نہیں ہے جو منطق اورعقلی دلائل پر منحصر ہو اور جو اس مذہبی قدآمت پسندی، زنگ آلود اور لاحاصل سماجی اداروں اورفرسودہ عقائد کی بیخ کنی کرسکے، جو معاشرے میں ایک مثبت رول بھی ادا کرسکنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں- ان سب کے علاوہ، پاکستانی معاشرہ بھی اپنی ساخت میں کسی قسم کی تبدیلی کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ یہ ابھی بھی مذہب کو اپنی ریاست کا جزو لازم بنانے کیلئے مصر ہے- یہ ابھی بھی وسیع القلبی کا مخالف ہے جو مختلف مذاہب اور جنس کے لوگوں میں ہم آہنگی کا داعی ہے، یہ ابھی بھی قانون کی حکمرانی کے نفاذ کیلئے تیار نہیں ہے، عورتوں کو برابری کے حقوق دینے سے انکار کرتا ہے، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو تجارتی بنیادوں پرچلاتا ہے، جرم اور بدعنوانی کو روکنے، لاء اور آرڈر قائم کرنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے- یہ امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں بھی ناکام رہا ہے-
ہمارے ہاں نہ تو کوئی ایسی منظم اور مربوط پارٹی ہے جس کا کوئی لائحۂ عمل ہو، نہ کوئی اہل اور لائق لیڈر جو لوگوں کو انقلابی نظریئے رائج کرنے کے لئے تحریک دے سکے- اگرچہ کہ پاکستان جن حالات سے گذررہا ہے وہ انقلاب کیلئے بے حد سازگار ہیں، مگرنئے اور تخلیقی خیالات، توانا اور فعال قیادت اور پارٹی کے بے لوث اور محنتی کارکنوں کی غیر موجودگی میں کسی انقلاب کے آنے کی کوئی امید نہیں ہے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (4) بند ہیں