مسلمان اور جمہوریت
ماہ رمضان کا دوسرا عشرہ جاری ہے، میڈیا اور مساجد میں گاہے بگاہے دنیا میں مسلمانوں کی حالت زار کے متعلق دکھ اور افسوس کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے دعائیں بھی مانگی جارہی ہیں۔
عمومی طور پر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ان کی حالت زار کا ذمہ دار مغربی قوتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ مسلمان اپنے آپ کو انتہائی مظلوم 'قوم' تصور کرتے ہیں، دنیا کی ذہین ترین قوم بھی سمجھتے ہیں اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب بھی دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک ہر لمحہ ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ مغرب کی سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام سماجی سہولیات سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور انہیں نفرت کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
مسلم دنیا میں کسی بھی مسلم دانشور کی طرف سے اس سوچ یا رویے کا سنجیدگی سے کوئی تجزیہ یا غور وفکر نہیں کیا گیا اور اگر کوئی کرتا بھی ہے تو اسے مسلمان ہی نہیں سمجھا جاتا اور اس کے تجزیے کو بھی سازش گردانا جاتا ہے۔
اس کے برعکس غیر مسلم خاص کر مغربی ممالک برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے نوجوان وہاں جانے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ پاکستان میں جاری طالبان کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں اسے ایک بار پھر انسانی بحران کا سامنا ہے، لہذا ترقی یافتہ ممالک کو آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔
ایک اندازے کے مطابق آئی ڈی پیز کی تعداد سات سے آٹھ لاکھ کے درمیان ہے۔ سخت گرمی اور ماہ رمضان میں بے گھر ہونے والوں میں سب سے زیادہ متاثر طبقہ بچوں اور خواتین کا ہوتا ہے۔
چھ سال پہلے یہی کچھ سوات کے لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ حکمران طبقہ مذہب کے نام پر پاکستانی عوام کے ساتھ بھیانک کھیل کھیل رہا ہے۔ پہلے ہم دہشت گردوں کی مذہبی جوش و خروش سے پرورش کرتے ہیں، انہیں ہیرو بناتے ہیں اور پھر اتنے ہی زور و شور سے انہیں ختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
ان مہم جوئیوں کے نتیجے میں پاکستان کی پچاس فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا دور ہو جس میں عوام نے سکھ کا سانس لیا ہو۔ پاکستانی ریاست کی مہم جوئیوں کا خمیازہ نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ خطے کے تمام لوگ بھگت رہے ہیں۔
عراق اور شام میں بھی صورتحال المناک ہے۔ صرف شام میں اقتدار کی جنگ میں ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں مگر اسلامی دنیا میں کوئی شور و غوغا نہیں ہوا۔ عراق میں بھی مسلمان اقتدار کے لیے ایک دوسرے کا خون پانی کی طرح بہا رہے ہیں مگر الزام مغربی قوتوں کو دیتے ہیں۔
مغربی ممالک نے کئی سو سال کی خانہ جنگی کے بعد آپس میں مل جل کر رہنا سیکھ لیا ہے۔ انہوں نے سیاست اور مذہب کو علیحدہ علیحدہ کر لیا ہے اور آج ان کا شمار دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم نے کوئی سبق نہیں سیکھا تو وہ مسلمان 'قوم' ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ شام، عراق، فلسطین، مصر، افغانستان اور پاکستان میں مسلمان ہی مسلمان کے ہاتھوں نہ صرف قتل و غارت کا شکار ہیں بلکہ ذلیل و خوار ہیں۔ آج دنیا میں مسلمان اپنے ہی ملکوں میں پناہ گزین بن چکے ہیں کیونکہ مسلمانوں کا ہر گروہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور اپنے ہر عمل کا جواز اسلامی تاریخ اور روایات سے فراہم کرتا ہے۔ ہر گروہ صرف اور صرف اپنے آپ کو 'حق' پر سمجھتا ہے اور کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
مغربی دنیا نے تو جمہوریت کے ذریعے پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے مگر مسلمان اس کو اپنانے پر تیار نہیں کیونکہ ان کے عقائد جمہوریت کو اپنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسلامی معاشرے میں کسی غیر مسلم کو مسلمان کے برابر درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام کو سیاسی مذہب بنادیا گیا ہے جس کے پیروکار پوری دنیا پر اقتدار سے کم کسی بات پر راضی نہیں۔ جمہوریت کے مقابلے میں خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں جس کے خد و خال انہیں خود بھی معلوم نہیں۔
مسلمان مغربی ممالک میں انسانی حقوق کی بنیاد پر تمام حقوق حاصل کرتے ہیں مگر کسی دوسرے مذہب یا عقیدے کے مالک کو وہی حقوق دینے کو تیار نہیں اور انہیں اپنے تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں اگر تابع نہ بنے تو پھر اسے مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان ممالک میں مسلمان سیکولرازم کا فائدہ اٹھاتے ہیں مگر خود سیکولرازم کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔
مسلمان ممالک میں آج بھی ڈکٹیٹر شپ قائم ہے۔ مسلمان حکمران جمہوریت کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو پھر ڈکٹیٹر شپ قائم کر لیتے ہیں۔ اخوان المسلمون نے مصر میں یہی کچھ کیا۔ غالباً ترکی کے وزیر اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ 'جمہوریت ایک ایسی ٹرین ہے کہ جب آپ کا مطلوبہ اسٹیشن آجائے تو آپ اس سے اتر جائیں۔'
تبصرے (8) بند ہیں