کیا یہ توہین مذہب نہیں؟
جہاں موقع ملے لوٹ لو، جو چیز ہاتھ لگے روند ڈالو، جو ملے بیچ دو، فکر مت کرنا، پریشان مت ہونا اور گھبرانا تو بالکل نہیں، کوئی نہیں پوچھے گا، احتساب کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا!
کیا؟ سوال اٹھیں گے، ابے پاگل! ایسے تو بکری میں اور اضافہ ہوگا. "بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!".
رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ جاری ہے، یکم رمضان سے ہی ہماری میڈیا اسکرینوں پر یلغار سی نظر آ رہی ہے، افطاری کی کھجور سے لیکر سحری کے دہی تک سب کچھ اسکرینوں پر ہی بک رہا ہے، بیچارے ریڑھی والے منہ تک رہے ہیں کہ بھئی ہم کہاں جائیں. جناب آپ لوگ بھی تکّا لگائیں، ورنہ ایسے ہی گھر کو جائیں، دیکھا نہیں اسکرینوں پر تکّے لگاۓ جا رہیں ہیں.
پاکستانی اشرافیہ فوٹو سیشن کے چکر میں سب بھول بھال جاتی ہے کہ اخلاقیات، احترام، شرم و حیا بھی کوئی چیز ہے، متاثرین میں امداد بانٹنی ہو یا طالب علموں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم فوٹو سیشن تو بنتا ہے نا!
ہم اپنے سیاستدانوں کو پتا نہیں کیا کیا کہتے پھرتے ہیں، ایسے فوٹو سیشنز کو لیکر باتوں کا ایسا بتنگڑ بناتے ہیں کہ لیپ ٹاپ یا دی ہوئی امداد بھی شرمانے لگتی ہے، پتا نہیں کہاں کہاں سے نکال نکال کے ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ ایسی صورتحال تو انڈیا پاکستان کے کرکٹ میچ میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی.
حضور، اب جب یہی کام ہماری اسکرینوں پر بیٹھے "گوالیے" کر رہے ہیں تو زبان کو تالے کیوں لگ گئے؟ اب آپ کی لغت کہاں گم ہو گئی؟ اشاروں میں بات کیوں کر رہے ہو؟ نواز شریف، زرداری کا نام تو بڑے فخر سے لیتے ہو اب کیا ہوا، سکتہ کیوں طاری ہو گیا؟
ملک کو لوٹ لیا، ملک کو کھا گئے، عوام کا ستیاناس کر دیا، ملکی معیشیت تباہ کر دی، ایجنٹ، غدار کے بلند و بانگ نعرے لگانے والو اب کہاں سو گئے تم لوگ؟ جب مذھب کو لوٹا جا رہا ہے، دین کو بیچا جا رہا ہے، رمضان کی حرمت کو رسوا کیا جا رہا ہے، عوام کو شکوک و شبہات میں ڈالا جا رہا ہے، فرقوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، قران پاک جیسی بابرکت کتاب کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے، اب آپ کی زبان پر چھالے کیوں پڑ گئے ہیں؟
عقل و فہم گیا اور گوالے آ گئے، کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ ریٹنگ کی بھوک مذہب کو بھی نگلنے کے لیے تیار ہے، یا یہاں بھی منافقت کرو گے کہ جناب 'صدقہ جاریہ' ہے.
میک اپ سے لدے ہوۓ اب عوام کو شریعت بتا رہے ہیں، ذرا یہ تو بتاؤ کہ دین کی تبلیغ کے لئے میک اپ کی ضرورت کیوں آن پڑی، دلیلیں ایسی ایسی کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے کہ یہ کیا مثال ہے. ایک صاحب افطاری کے وقت عقل کو 'کھسرا' (خواجہ سرا) ہونے کی دلیل دے رہے تھے اور فرما رہے کہ جب عقل 'کھسرا' ہوتی ہے تو گناہ ہوتا ہے! کم سے کم میں تو اس دلیل کو بےتکا اور کم عقلی سمجھوں گا!
نام دین کا کام پیٹ کا، بھلا یہ کیسی تبلیغ ہے کہ درود پاک چل رہا ہو اور اچانک دھڑام سے شربت کا اشتہار چلنا شروع ہو جاۓ، ملک میں لاتعداد 'فتویٰ فیکٹریاں' ہیں، کوئی بھی مسئلہ ہو آپ آسانی سے فتویٰ حاصل کر سکتے ہیں، جیو پر مارننگ شو میں ایک قوالی پر توہین کا فتویٰ صادر کرنے والے اب کہاں گم ہو گئے؟
کیا دکھائی نہیں دے رہا کس طرح اسکرین پر میک اپ سے لدھے ھوۓ گوالیے دین کی توہین کر رہے ہیں؟ درود پاک کو کاٹ کر شربت کا اشتہار توہین مذہب نہیں؟
جناب دین تو ہمیں سکھاتا ہے کہ خیرات ایسے کرو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی پتا نہ چلے، یہاں کیا ہو رہا ہے خیرات کے نام پر، محض دکھاوا!
کرتے بیچنے والے اب دین کو بیچنے میں مصروف ہیں، جس طرح کرتے بیچتے ہوئے ایمانداری، سچائی اور قیمت پر گاہک سے غیر اخلاقی مکالمہ کیا جاتا ہے اسی طرح اب یہ لوگ دین کو بیچتے ہوئے اخلاقیات، احترام، رواداری کو بالاۓ طاق رکھ چکے ہیں، ڈسکو قسم کے گوالئے عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لئے ہر قسم کی ڈگڈگی بجانے کو تیار ہیں، اپنی اس کوشش کے لئے قران و حدیث کی حرمت کو بھی رسوا کیا جا رہا ہے، کیا دکان داری چمکانے کے لئے دین کا استعمال توہین مذہب نہیں؟
کون بتاۓ گا، کون سنے گا، کس کی ذمّہ داری ہے کہ دین کو بیچنے اور اس کا ناجائز استعمال ہونے سے روکے؟ دین کی حرمت کو بچانا کس کی ذمّہ داری ہے؟ حکومتی نمائندگی کے لئے تو آئین کا آرٹیکل 62,63 موجود ہے، ان گوالیوں کے لئے سرحدوں کا تعین کون کرے گا!
جعلی ڈگری والے بھائی صاحب عجیب و غریب ڈرامے کر رہے ہیں، مفتی صاحبان کو بلا کر اور سوالات کے جوابات کے حصول کے نام پر پتا نہیں کیا کیا کر رہے ہیں، سیدھی سی بات ہے، دومختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے سے کیسے متفق ہوں گے حضور!؟ اس سے پہلے بھی ان حضرت کے 7 ستمبر 2008 کے پروگرام کے بعد ایک فرقے کے دو افراد کو قتل کردیا گیا تھا۔ اس دفعہ پتا نہیں ان کی یہ نئی خرافات کیا رنگ لائی گی.
ایک مسلمان دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہا ہے ایسے ماحول میں اس کو طول دینا فرقہ واریت کی آگ کو مزید بھڑکانا، جلتی پر تیل چھڑکنے جیسا نہیں ہو گا؟ مگر انہیں کیا، لوگ مرتے ہیں تو مریں، کٹتے ہیں تو کٹیں، لڑتے ہیں تو لڑیں، ان کا دھندا تو ترقی کر رہا ہے نا، بس تو پھر کیا!
یہ لوگ تو موچی اور درزی سے بھی گئے گزرے ہیں وہ تو گانٹھنے کا کام اچھائی کے لئے کرتے ہیں یعنی دھندے میں بھی سلیقہ، جبکہ یہ لوگ دھندے میں بھی بی ایمانی. ذرا یو ٹیوب پر ان حضرت کی ویڈیو ملاحضہ فرما لیں سب سمجھ میں آ جاۓ گا. لڑکیوں کے ہاسٹل میں چھپنے والے کی حقیقت آپ سے چند بٹن کی دوری پر ہے. دیویاں اور دیوتا بنانے سے قبل ذرا انگلیوں کو حرکت دے کر دیکھ لیں.
بھوک کا مارا بچّھ تو سیٹی کی آواز پر بھی چپ کر جاتا ہے بھلے دودھ کی بوتل گھنٹے بعد ملے، بھوک و افلاس اور بیروزگاری کے ہتھے چڑھی ہوئی عوام کے لئے لگایا جانا والا آپ کا تماشا بھی توجہ کیوں کر حاصل نہ کرے.
ہم قدیم روم کے بادشاہوں کو ظالم و وحشی لکھتے ہیں کیوں کہ وہ گلیڈی ایٹر کا کھیل کرواتے تھے، عوام اس کو دیکھ کر بھوک بھول جاتی تھی، لیکن آپ تو ان سے بھی نمبر لے گے! آپ نے تو اپنے دھندے کی خاطر دین کو ہی صابن، تیل، ٹوتھ پيسٹ کے ساتھ بیچنا شروع کردیا!! کہاں ہیں غیرت والے!!؟؟
اور کہاں ہے پیمرا؟ ویسے تو ذرا ذرا سی بات پر 'نوٹس' لے لیا جاتا ہے، اب کیوں سانپ سونگھ گیا؟ زیادہ سے زیادہ منافعے کے لئے ان 'فار پرافٹ' تفریحی اور نیوز چینلوں پر مذہب کے اس بےشرمی سے استحصال کا نوٹس کیوں نہیں لیا جا رہا آخر؟
حالیہ چند مہینوں میں تو خاص طور پر یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جب تک تفریحی ٹی وی چینلوں پر مذہبی پروگرامنگ ہوگی، اس کا فائدہ اٹھا کر شر پسند عناصر اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ فائدوں کے لئے بات کا بتنگڑ بنا کر ہماری 'جذباتی' عوام کے جذبات مشتعل کرتے رہیں گے. جیسا کہ جیو، اے آر وائی اور سما کے ساتھ ہوا.
پاکستانی قانون بھی عجیب قسم کی چیز ہے، یہاں فوج و قومی سلامتی کے معاملات پر تو چینل بند ہو جاتا ہے لیکن دین کو دھندے کے لئے استعمال کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں. پیمرا کو چاہیے کہ تمام نیوز و انٹرٹینمنٹ چینلز پر دھندے کی غرض سے کیے جانے والے مذہبی پروگرامز پر مکمّل پابندی عائد کرے، کیوں کہ موجودہ پروگرامز سے دین کو سمجھنے اور سیکھنے کے بجاۓ انتشار پھیل رہا ہے.
دین کمائی کے لئے نہیں بنا! براۓ خدا ان فار-پرافٹ 'تفریحی چینلوں' پر مذہب کا کاروبار بند کروائیں! دین کی بات کرنی ہے تو اس کے لئے مخصوص نان-پرافٹ چینلز ہونے چاہئیں، جہاں کسی قسم کی اشتہار بازی کی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے.
ساتھ ساتھ، ایڈورٹائیزرز پر بھی سخت پابندی ہونی چاہیے کہ اپنی پروڈکٹس بیچنے کے لئے بناۓ جانے والے اشتہاروں میں مذہبی علامتوں اور استعاروں سے قطعی گریز کریں.
میں نے تو سوچا تھا کہ امیر المومنین مولانا ضیاء الحق نے دین کی جو خدمت فرمائی ہے اس کے بعد تو کوئی دین بیچ ہی نہیں سکتا لیکن افسوس کہ میں غلط ثابت ہوا، دین کے ساتھ نام نہاد آزاد میڈیا کا کھلواڑ دیکھ کر تو وہ بھی شرما جاتے.
عوام کے لئے ایک شعرعرض ہے؛
دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا .....
تبصرے (27) بند ہیں