• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

مشرف سے معاہدے پر گیلانی کے بیان کا تنازعہ مزید گہرا

شائع July 14, 2014
سابق وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ وہ مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے سمجھوتے کے بیان پر قائم ہیں، جس میں ن لیگ بھی شریک تھی۔ —. فائل فوٹو
سابق وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ وہ مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے سمجھوتے کے بیان پر قائم ہیں، جس میں ن لیگ بھی شریک تھی۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: پیپلزپارٹی کے ساتھ سابق صدر پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے معاہدے کا تنازعہ اتوار کے روز اس وقت مزید گہرا ہوگیا، جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور انہوں نے اپنی پارٹی کے باضابطہ بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

یوسف رضا گیلانی کی توجہ جب پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کے ایک بیان پر توجہ دلائی گئی تو انہوں نے کہا ’’جو کچھ بھی میں نے کہا ہے، میں اس پر قائم ہوں۔ اورت میں بابر صاحب کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔‘‘

سابق وزیراعظم، آزادکشمیر کے وزیراعظم عبدالمجید چوہدری کی دعوتِ افطار میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل مشرف پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے، جس کے تحت ان کے استعفے کے بعد انہیں محفوظ راستہ دیا جانا تھا۔ ان کے اس بیان پر فرحت اللہ بابر نے اصرار کیا تھا کہ ’’مشرف کے لیے محفوظ راستہ دینے کے لیے ایسا کوئی بھی معاہدہ کسی کے ساتھ بھی نہیں ہوا تھا۔‘‘

جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مطابق مسلم لیگ نون بھی اس معاہدے کا حصہ تھی، جس کے تحت وہ معاہدہ ہونا تھا۔

یوسف رضا گیلانی نے جمعہ کے روز ایک تنازعہ کی ابتداء کی تھی، جب انہوں نے اُن مذاکرات کے بارے میں بتایا، جو صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد مشرف کے بیرون ملک جانے کے سمجھوتے کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ 2008ء میں ہوئے تھے۔

آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سابق فوجی حکمران پر مقدمے کی سماعت کے حکومتی اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نون نے جو پالیسی اب اپنائی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ اور انہوں نے مشورہ دیا کہ ان تفصیلات کو ذہن میں رکھا جائے، جس پر اسٹیبلشمنٹ رضامند تھی۔

پیپلزپارٹی نے گیلانی کے مؤقف سے خود کو دور کرلیا ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ مشرف پر غداری کے مقدمے کے حق میں تھی۔

لیکن سینیٹر فرحت اللہ بابر کے بیان کے باوجود پیپلزپارٹی کے سیکریٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے بارے میں گیلانی کے دعوے کی توثیق کی، لیکن انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ سابق فوجی سربراہ پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔

حکمران جماعت مسلم لیگ نون کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کے بیان پر شدید ردّ عمل سامنے آیا، جس نے اس بات کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا کہ مشرف کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ یا کوئی سودے بازی نہیں ہوئی تھی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کی جانب سے اپنے ممکنہ مواخذے کی وجہ سے استعفٰی دیا تھا۔

فرحت اللہ بابر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، تاکہ مشرف کے مواخذے کے لیے ایک چارج شیٹ تیار کی جاسکے،اور اس پینل نے نہایت محنت کے ساتھ ان کے خلاف الزامات کی ایک فہرست پر مبنی ایک جامع دستاویز تیار کی تھی۔

اس نکتے پر انہوں نے کہا کہ مشرف کے ایک قابل اعتماد ساتھی یہ پیغام پہنچانے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں کہ مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کے لیے کام مکمل کرلیاگیا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ جنرل مشرف نے نوشتہ دیوار کو اچھی طرح پڑھ لیا تھا، اور انہوں نے استعفٰی دینے اور ملک چھوڑنے کا راستہ منتخب کرلیا ۔‘‘

قمرزمان کائرہ نے کہا کہ مشرف جس صورتحال کا اب سامنا کررہے ہیں، اور غداری کے مقدمے میں انہیں جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔

گیلانی کے اس تبصرے پر کہ مسلم لیگ نون کو غداری کے مقدمے کی سماعت نہیں کرنی چاہیٔے تھی، انہوں نے کہا کہ اس وقت غداری کے مقدمے کے معاملے پر کوئی بحث نہیں کی گئی تھی۔

اتوار کے روز کراچی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربّانی نے بھی فرحت اللہ بابر کے بیان کی توثیق کی اور کہا کہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ حکومت غداری کے مقدمے کو اس کے منطقی انجام تک لے جائے۔

اسی دوران عوامی نیشنل پارٹی جو پیپلزپارٹی کی حکومت میں اس کی اتحادی تھی، نے بھی سابق صدر کے ساتھ ایک معاہدے کے بارے میں گیلانی کے دعوے کی ترید کی ہے۔

اے این پی کے سیکریٹری اطلاعات نے بھی قمرزمان کائرہ کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے حوالے سے اے این پی کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت اے این پی کے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ اور انہوں نے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں سے کہا کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات میں ان کی پارٹی کو نہ گھسیٹیں۔

جمعیت العلمائے اسلام (ف) نے بھی اس بات کی تردید کی ہے کہ مشرف کے لیے محفوظ راستہ دینے کے منصوبے پر اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ پیپلزپارٹی کی جانب سے کوئی مشورہ کیا گیا تھا۔جیسا کہ قمر زمان کائرہ نے دعویٰ کیا ہے۔

جے یو آئی-ایف کے ترجمان جان اچکزئی نے کہا کہ مولانا کے ساتھ ایسی کوئی بات چیت نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر پیپلزپارٹی کے اندر تضادات موجود ہیں، جس کا ثبوت سینیٹر فرحت اللہ بابر اور قمر زمان کائرہ کے بیانات ہیں۔

جان اچکزئی نے کہا کہ جے یو آئی-ایف اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مشرف کے خلاف ناصرف ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ پر قانونی کارروائی کی جانی چاہیٔے، بلکہ اس سے بھی بڑے جرم کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے جو انہوں نے اکتوبر 1999ء میں ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024