• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

سندھ اور کے پی کی قومی نصاب کونسل کے قیام کی مخالفت

شائع July 5, 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: اگرچہ وزارتِ تعلیم و تربیت اور اعلٰی تعلیمی معیارات قومی نصاب کونسل (این سی سی) کے قیام پر کام کررہی ہے، لیکن جمعہ کے روز سندھ اور خیبرپختونخوا کے صوبوں نے اس کونسل کے قیام پر اعتراض کیا ہے۔

مقامی ہوٹل پر منعقدہ بین الصوبائی وزرائے تعلیم کی ایک کانفرنس کے دوران دونوں صوبوں نے اس کونسل کی تشکیل کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

خیبرپختونخوا کے نمائندے نے تجویز پیش کی کہ این سی سی کے قیام کے بجائے ایک مشاورتی کونسل تشکیل دی جائے۔ تاہم سندھ کا نکتہ نظر یہ تھا کہ اس معاملے پر مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) میں تبادلۂ خیال کیا جائے۔

گیارہ فروری 2014ء کو وزرائے تعلیم کے پہلے اجلاس کے دوران متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ مجوزہ این سی سی کی شرائط کا ایک مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ جسے وزراء کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

قومی نصاب کونسل کا بنیادی کام یہ ہوگا کہ وہ ملک بھر میں تعلیم کے شعبے کے اندر ہم آہنگی کو کم سے کم معیار پر قائم کرے اور یکسانیت، تقابل پذیری اور منتقلی کی صلاحیت کو کم سے کم سطح پر یکساں کرنے کی کوشش کرے۔

اس کانفرنس میں وزرائے تعلیم کو این سی سی کی بنیادی تجاویز پر تبادلۂٕ خیال کرنا تھا۔

جب تعلیم و تربیت اور اعلٰی تعلیم میں معیارات کے وزیر بلیغ الرحمان نے پریزنٹیشن دینا شروع کی، تو کے پی کے وزیر برائے ابتدائی و ثانوی تعلیم محمد عاطف نے کہا کہ ان کے صوبے کو این سی سی کے متعلق تحفظات ہیں۔

محمد عاطف نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ این سی سی ایک اتھارٹی کے طور پر کام کرے گی اور نصاب اور تعلیمی پالیسی کے حوالے سے فیصلے کرے گی۔

انہوں نے کہا ’’اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم اب ایک صوبائی معاملہ ہے، اور صوبے اپنے دائرہ اختیار میں تعلیمی نظام کے بارے میں فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ این سی سی کو بجائے ایک اتھارٹی کے ایک مشاورتی کونسل کے طور پر کام کرنا چاہیٔے۔‘‘

وفاقی وزیر بلیغ الرحمان نے محمد عاطف کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ این سی سی میں وفاقی حکومت کے صرف تین نمائندے ہوں گے، جبکہ باقی ستائیس اراکین صوبوں کی نمائندگی کریں گے۔

تاہم محمد عاطف اس تجویز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، کہ ایک اتھارٹی وفاقی سطح پر قائم کی جائے۔

حکومتِ سندھ بھی این سی سی کی مخالفت کرتی دکھائی دی۔ ایک تحریری بیان جو وفاقی وزیر بلیغ الرحمان کے حوالے کیا گیا، اس میں وزیرِ اعلٰی قائم علی شاہ نے کہا تھا کہ یہ معاملے مشترکہ مفادات کی کونسل میں زیربحث لایا جانا چاہیٔے۔

بعد میں ڈان سے بات کرتے ہوئے بلیغ الرحمان نے کہا کہ یہ تصور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ہی پیش کیا تھا کہ ملک بھر میں یکساں تعلیمی نظام ہونا چاہیٔے۔

انہوں نے کہا ’’بدقسمتی سے اجلاس کے دوران کے پی کے وزیرِ تعلیم نے این سی سی کو قبول کرنے سے انکار کردیا، اور کہا کہ نصاب صوبائی معاملہ تھا۔ سندھ کے وزیرِ اعلٰی نے بھی کہا کہ اس معاملے پر مشترکہ مفادات کی کونسل میں بحث کی جانی چاہیٔے۔‘‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ ’’میں دونوں حکومتوں کے نکتہ نظر کا احترام کرتا ہوں، لیکن میں انہیں قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ این سی سی کا قیام ملک اور صوبوں کے بہترین مفاد میں ہے۔ اس کے علاوہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے نجی اسکولوں کو ایک یکساں پالیسی کے تحت لایا جاسکتا ہے۔‘‘

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024